"TSC" (space) message & send to 7575

ایک ہی راستہ

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی 9 عدد بیماریوں کے ساتھ احتساب عدالت میں پیش ہو کر سابق فوجی صدر مشرف کو ''مات‘‘ دے دی ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ آصف علی زرداری کو 9 مختلف بیماریاں لاحق ہیں اور جنرل مشرف بھی ''زیرو زیرو نائن‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ سابق منتخب صدر آصف زرداری وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ سابق فوجی صدر مشرف تاحال اپنی 18 رکنی وکلا کی ٹیم کے ساتھ مشاورت میں ہی مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں جب جنرل صاحب اپنے فارم ہائوس چک شہزاد سے خصوصی عدالت میں پیش ہونے کے لئے نکلے تو یکایک ان کی گاڑی اور سکیورٹی قافلے کا رخ اے ایف سی کی طرف موڑ دیا گیا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ عدالت جاتے ہوئے جنرل صاحب کے سینے اور بائیں بازو میں درد شروع ہو گیا‘ جس کے باعث قافلے کا ر خ موڑ دیا گیا۔ یہ علامات ہارٹ اٹیک یا کم سے کم انجائنا کی ہوتی ہیں۔ ہارٹ اٹیک یا انجائنا کا درد پیشگی اطلاع دے کر نہیں ہوتا‘ لیکن جنرل مشرف کے دل کے درد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے خلاف قائم مقدمات خصوصاً 'غداری کیس‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کے ٹرائل سے فوج میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مشرف صاحب نے جو بھی کہا‘ اس کی تشریح یوں کی جا رہی ہے کہ جنرل صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اس ضمن میں ترجمان اور ذمہ داران کی طرف سے تردید تو نہیں کی گئی مگر عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرف صاحب اب فوج کا حصہ نہیں لہٰذا ان کے ٹرائل کو فوج کا ٹرائل قرار نہ دیا جائے۔ مولانا حسرت موہانی جن کے ہاں غالب کا تغزل اور حالی کی سلاست کے ساتھ سیاسی بصیرت بھی تھی‘ فرماتے ہیں: 
ان کو رسوا‘ مجھے خراب نہ کر 
اے دل اتنا بھی اضطراب نہ کر 
خصوصی عدالت نے مشرف کو میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر عدالت حاضری سے استثنیٰ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے غداری کیس میں 16جنوری کو طلب کیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں کوئی ایسی وجہ نہیں بتائی گئی کہ سابق صدر عدالت کے روبرو کیوں پیش نہیں ہو سکتے۔ بیان کیا گیا ہے کہ مشرف کو تین بار سمن جاری کئے گئے، مشرف کو دل کی تکلیف نہیں‘ عدالت نے بیماری کی بنیاد پر انہیں استثنیٰ بھی دیا حالانکہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد اور ملز م کی طبعی حالت کی روشنی میں عدالت استثنیٰ دینے کی پابند نہ تھی لیکن ایسا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا؛ تاہم عدالت نے حکم جاری فرمایا ہے کہ مشرف اگر 16 جنوری کو عدالت میں پیش نہ ہوئے تو اس حوالے سے مناسب حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے عدالت سے کہا کہ بیماری میں بیان ریکارڈ کرانا تشدد کے زمرے میں آتا ہے اور آرٹیکل 14 کے تحت شہادت کے حصول کے لئے تشدد کی ممانعت ہے۔ عدالت میں استغاثہ اور دفا ع کے وکلا میں زبردست بحث جاری ہے۔ وکیل دفاع شریف الدین پیرزادہ کا اپنے موکل مشرف کے حوالے سے کہنا ہے کہ انجیوگرافی کوئی معمولی بات نہیں جبکہ وکیل استغاثہ اکرم شیخ کہتے ہیںکہ 70 سال کی عمر میں شریانوں میں کیلشیم کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں لہٰذا مقدمہ قانون کے مطابق چلایا جائے۔ اکرم شیخ نے مشرف کی غیرمعمولی صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب کا بلڈ پریشر تو نوجوانو ں کی طرح 120/80 ہے۔ رپورٹ میں جنرل مشرف کے دل کی دھڑکن کی رفتار 53 بتائی گئی ہے‘ یہ رفتار تو کھلاڑی کی ہوتی ہے۔ سنیئر اداکار خالد عباس ڈار اپنے والد مالک ڈار کی غیرمعمولی صحت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کرتے ہیں کہ مالک ڈار صاحب‘ جو قیامِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان کی کبڈی ٹیم کے کبڈر اور جھاپی (ریڈر اور سٹاپر) تھے‘ کے دل کی دھڑکن 59 ہوا کرتی تھی۔ یاد رہے کہ مالک ڈار کا شہر گجرانوالہ تھا۔ خالد عباس ڈار بتاتے ہیں کہ انگریز اور سکھ‘ مالک ڈار کو ایک نظر دیکھنے کے لئے گجرانوالہ سٹیشن پر ٹرین رکوا لیا کرتے تھے۔ مالک ڈار صاحب کے دل کا قصہ تو پرانا ہوا مگرجنرل مشرف کے دل کی حالت جان کر حیرت ہوئی کہ آج بھی ایسے غیرمعمولی دل پائے جاتے ہیں۔ 
دل کی بات چل نکلی ہے تو میرے حافظے میں دو بڑے دلچسپ واقعات تازہ ہو رہے ہیں۔ لگ بھگ 15سال پہلے ہمارے ایک دل پھینک دوست نے دوسری شادی کی تو پہلی بیوی نے زبردست احتجاج کیا۔ ہمارا دل پھینک دوست عادی مجرم تھا‘ اس نے پہلی اور دوسری بیوی کے ردعمل سے بچنے کیلئے اپنے آپ کو دل کے نقلی دورے سے دوچار کیا اور پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا‘ پہلی بیوی تو نیک پروین اور پیپلز پارٹی کی طرح صبر شکر کر کے خاموش ہو گئی مگر دوسری بیوی متحدہ کی طرح اپنے کولیشن پارٹنر کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ ہمارے دل پھینک دوست کو چونکہ پہلی بیوی کے ردعمل سے ہی خطرہ تھا‘ اس لئے وہ دل کے درد کا بہانہ بنا کر سروائیو کر گیا۔ دل پھینک کو اب بھی چھوٹے چھوٹے ''دل کے دورے‘‘ پڑتے رہتے ہیں، لیکن یہ دل کے دورے اب پہلی کی بجائے دوسری بیوی کے دھرنے سے بچنے کے لئے ہوتے ہیں۔
دل کے دورے کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ غلطی سے اداکار البیلا کی موت کی خبر شائع ہو گئی۔ خبر کی سرخی کچھ یوں تھی: ''نامور اداکار البیلا انتقال کر گئے، دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا‘‘ جس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی‘ میں اس کا کلچرل رپورٹر تھا۔ مذکورہ خبر میری فائل کردہ نہ تھی‘ مگر ایڈیٹر نے اداکار البیلا کی دلجوئی کی ذمہ داری مجھے سونپ دی۔ البیلا مرحوم سے میرا بڑا پیار کا رشتہ تھا۔ وہ مجھے پیار سے (بائوجی ) کہا کرتے تھے۔ میں نے سارے ہتھیار ڈالتے ہوئے سیدھی طرح البیلا صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حاجی صاحب! ہم نے آپ اور آپ کے پرستاروںکا دل دکھانے کا گناہ کیا ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ اس کا کفارہ کیسے ادا کریں؟ مجھے البیلا صاحب کا سکس ملین ڈالر کا وہ جملہ آج تک یاد ہے۔ البیلا مرحوم نے سرخیوں کے بادشاہ اور عظیم صحافی عباس اطہر مرحوم کے پایے کی سرخی تجویز کرتے ہوئے مجھ سے کہا: بائو جی! اب آپ یہ سرخی لگائیں‘ ''دل کامیاب اور دورہ ناکام ہو گیا... البیلا خیریت سے ہیں‘‘۔ 
لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب اور ایئر مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری‘ جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بحیثیت دفاعی تجزیہ نگار بڑے فعال ہیں‘ کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اور سابق صدر مشرف کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔ معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کی رہائی عدالت کے ذریعے ہو تو مشرف، فوج، عوام، ریاست اور جمہوری حکومت سب کے لئے اچھا ہے۔ جنرل مشرف نے وطن واپس آ کر فوج، عدالت اور حکومت سب کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ جنرل مشرف کو سفید کوٹوں کے پیچھے چھپنے کے بجائے کالے کوٹوں والے کے ہمراہ عدالت کا سامنا کرنا چاہیے‘ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ امجد شعیب نے کہا کہ عدالت مشرف کے حوالے سے جو فیصلہ بھی کرے گی وہ قانون کے مطابق اس کا استحقاق ہے مگر جمہوری حکومت مشرف کو معاف کر دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ جمہوری حکومت کو یہ طاقت اور استحقاق آئین بخشتا ہے۔ درج بالا تجزیہ نگاروں‘ جو چند سال پہلے لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے پاک فوج سے وابستہ تھے‘ نے کہا کہ فوج نے گزشتہ پانچ چھ سال میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بھی محافظ ہے، ان صاحبان کا کہنا تھا کہ سوچا جا رہا تھا کہ سعودی عرب حکام جنرل مشرف کے حوالے سے ماورائے عدالت کسی ڈیل کی درخواست کر سکتے ہیں مگر سعودی وزیر خارجہ نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ وہ پاکستان کے معاملات میں دخل اندزای نہیںکرنا چاہتے، لہٰذا اب جنرل مشرف کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے جو سیدھا عدالت کو جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں