وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے زمانہ طالب علمی کویاد کرتے ہوئے بتایاہے کہ اداکار دیو آنند بھی اولڈ ''راوین‘‘تھے، یعنی یہ بھارتی اداکار گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی20فروری 1999ء کو دودن کے لیے لاہور آئے تو اداکاردیو آنند بھی ان کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بھارتی اداکار کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہاکہ دیو آنندلاہور آکر بہت مسرور تھے،کہتے تھے کہ مجھے صرف اپنا گورنمنٹ کالج دیکھنا ہے،میں اپنی مادر علمی کے درودیوارکوچومنا چاہتاہوں۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف فنکار نواز ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت سے دوستانہ تعلقات کے بھی خواہاں ہیں، اس لیے انہیں گورنمنٹ کالج کے حوالے سے دیوآنند یاد آگئے۔گورنمنٹ کالج جیسے عظیم تعلیمی ادارے سے حضرت علامہ اقبال ؒ ، فیض احمد فیض، صوفی تبسم،پطرس بخاری سمیت دوسری بہت سی نابغہ روز گارشخصیتیں وابستہ رہی ہیں ۔ بھارتی ہدایت کار بی آرچوپڑہ اورامیتابھ بچن کی والدہ تیجی بچن بھی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کرکے بھارت گئی تھیں۔ امیتابھ بچن صاحب نے یہ بات 2001ء میں مجھے ممبئی اپنے گھر (جلسہ ) میں دیے گئے ایک انٹرویو میں بتائی تھی۔
دیوآنند المعروف دیو صاحب جب اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ لاہور آئے تو انہیں گورنمنٹ کالج لے جانے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اہتمام نہیں کیاگیاتھا۔دیوآنند گورنمنٹ کالج میرے اورمیرے دوست محسن جعفر کے ساتھ گئے تھے۔ہم تینوں مال روڈ(شاہراہ قائد اعظم ) پر واقع ہوٹل سے گورنمنٹ کالج گئے تھے اورمجھے یاد ہے کہ دیوآنندصاحب اپنے کالج کو دیکھ کرجذباتی ہوگئے تھے ،ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔ وہ گورنمنٹ کالج کی دیواروں کو ہاتھوں سے چھوتے اورچوم لیتے ۔اوول گرائونڈمیں دیو آنند گھاس پربیٹھ گئے اوراپنے حسین ناسٹلجیاکو یاد کرتے ہوئے بتایاکہ گورنمنٹ کالج میں ہی میں نے اداکار بننے کے خواب دیکھے تھے اورپھر ایک دن اسی لاہور شہر سے ممبئی گیا، اوراب 55سال بعد یہاں واپس آیا ہوں۔دیوصاحب سے دوبارہ 2001ء میں ممبئی ملاقات ہوئی جب پاکستان میں میاں محمد نوازشریف حکومت کا دھڑن تختہ ہوچکا تھا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اوربھارتی وزیراعظم واجپائی کا لاہور آنا اورمینار پاکستان آکر یہ تسلیم کرنا کہ پاکستان اوربھارت ہمسایہ لیکن الگ ملک ہیں ،خطے میں امن قائم کرنے کی بہت بڑی تحریک تھی مگر اسی سال جنرل مشرف نے کارگل برپا کرکے تمام کوششوں کو برباد کردیا۔ جولوگ جنرل مشرف کو عظیم ہیروپینٹ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیںکہ انہیں غدارکے بجائے آئین شکن لکھااورپکارا جائے،ان سے یہ سوال پوچھناچاہیے کہ کیا اس وقت ہمارے محب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کارگل برپاکرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کواعتماد میں لیاتھا؟
جیساکہ عرض کیا ہے، دیوصاحب سے دوبارہ ملاقات 2001ء میں ہوئی تھی۔ انہی دنوں جنرل پرویزمشرف پاکستان اوربھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے میچ کو دیکھنے نیودہلی پہنچے ہوئے تھے۔ جنرل صاحب نے اپنے اس دورے میں سب سے پہلے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار واقع اجمیر شریف، راجستھان حاضری دی تھی جہاں آستانہ مبارک پر رکھی گئی کتاب میں اپنی خواہش تحریر کی تھی کہ۔۔۔ پرودگار دونوں ملکوں کے درمیان بھائی چارے اوردوستی کی فضا قائم کرے اوردونوں ملک باہم امن اوربھائی چارے کی شاہراہوں پر گامزن ہوں۔ بھارتی میڈیا جنرل مشرف کو شہ سرخیوں میں جگہ دے رہاتھا،انہوں نے اپنے دورے کے دوران دہلی تا لاہور بس سروس سے آگے بڑھ کر کارگل سکردو روٹ کھولنے کا نعرہ بھی بلند کیاتھا۔یہ حسن ِاتفاق ہے کہ میں اس وقت دہلی اورممبئی میں تھا جب ہمارے آرمی چیف بھارت میں تھے۔ میں کسی سے یہ نہیں کہہ رہاتھاکہ میں جنرل مشرف کے ہمراہ بھارت آیا ہوں لیکن بھارتی سیلیبرٹیز صرف ایک ٹیلی فون کال پر مجھے ٹائم بھی دے رہی تھیں اورپروٹوکول بھی ۔ ویسے بھی میں دلیپ کمار صاحب کے گھر قیام پذیر تھا۔دلیپ صاحب کے سیکرٹری کے ایک فون سے مجھ پر بالی وڈسٹارز کے فو ل پروف سکیورٹی والے دروازے کھلتے جارہے تھے۔
اس وزٹ میں دلیپ کمار صاحب سے تو ہرشام ملاقات ہورہی تھی، ان کے علاوہ دیوآنند، سنیل دت، پران صاحب، امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، لتامنگیشکر، راجیش کھنہ، سنجے دت، کرینہ کپور، کرشمہ کپور، جیتندر، دھرمیندر، ہیمامالنی، شرمیلاٹیگور، شبانہ اعظمی، جاوید اختر، نوشاد صاحب سمیت دیگر کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں رہیں۔ دیو آنند صاحب سے میری ملاقات کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی معروف
اداکارہ نرگس جس کا اصلی نام غزالہ ہے، پاکستان سے اپنے کیریئر کے باقاعدہ آغاز سے قبل اپنی والدہ بلقیس عرف بلّوکے ہمراہ دیوآنند کے پاس ممبئی گئی تھیں تاکہ وہ انہیں اپنی کسی فلم میں متعارف کرائیں۔دیو صاحب نے زینت امان ،ٹینامینیم اوربعض دوسری اداکارائوں کو اپنی ایک فلم میں کاسٹ کرکے سپرسٹار بنا دیا تھا۔ پاکستانی غزالہ المعروف نرگس بھی چانس لینے دیو آنند کے پاس گئی۔ نرگس ابتدائی دنوں سے ہی اچھا ڈانس کرکے متاثر کرلیاکرتی تھی، دیو صاحب بھی اس کا ڈانس دیکھ کرمتاثر ہوئے۔ ابھی دیو صاحب نرگس کی ابتدائی گرومنگ کررہے تھے کہ ویزا ختم ہونے کی وجہ سے نرگس کو ہیروئن بنے بغیر ممبئی سے لاہور واپس آنا پڑا ۔نرگس نے ممبئی سے واپسی پر لاہور سے اپنے کیریئر کا آغاز کیااور رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرنے لگی۔
اگلے سین میں،میں جب دیو صاحب سے ملاقات کرنے ممبئی ان کے آفس گیا تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنے مخصوص انداز میں سر کو ہلاتے ہوئے دریافت کیاکہ غزالہ کیسی ہے؟غزالہ کا تذکرہ دیو صاحب کے منہ سے سن کر مجھے بہت عجیب لگا؟یہ مس انڈرسٹینڈنگ اس لیے ہوئی کہ میری زوجہ محترمہ کا نام بھی غزالہ ہے۔ میں اپنے آپ کوکریدنے لگاکہ میری بیوی توکبھی ثقافتی تقاریب میں گئی ہی نہیں پھر دیو صاحب کی ملاقات غزالہ سے کیسے ہوئی جو وہ میری بیگم صاحبہ کی خیریت دریافت کررہے ہیں؟میں ابھی یہ سوچ ہی رہاتھاکہ دیو صاحب نے اگلاسوال یہ کیاکہ اس کا ناٹک واٹک توچل رہاہے؟میں یہ بھول گیاکہ اداکارہ نرگس جس کا اصلی نام غزالہ ہے، وہ لاہور میں سٹیج ڈرامہ بھی کرتی ہے۔دیو صاحب کا دوسراسوال جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے کافی تھا ۔میں نے سوچاکہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات اورشوق آوارگی کے پیش نظر رات دیر گئے گھر جانے پر بیگم سے تھوڑی بہت جو منہ ماری ہوتی رہتی ہے اسے دیو صاحب ناٹک قراردے رہے ہیں ، لیکن میرے اوربیگم کے مابین ان جھگڑوں کاعلم دیوصاحب کو کیسے ہوا؟مجھ پر حیرتوںکا ہمالیہ ٹوٹ پڑا تھا ، لیکن دیو صاحب کی طرف سے غزالہ کے لیے دادوتحسین کے اس جملے سے تو میری ریڑھ کی ہڈی میںباقاعدہ تڑاخ کی آواز پیدا ہوئی۔کہنے لگے بھئی غزالہ بہت بڑھیا ڈانسر ہے، پوری ممبئی فلم انڈسٹری میں اس جیسی ڈانسر نہیںہے لیکن کیاکیاجائے غزالہ کی ماں بلّو اسے پاکستان واپس لے گئی۔دیو صاحب کے اس جملے سے اس غلط فہمی پر مبنی لطیفے سے ہوا نکلی اورمیری عزت اپنی نظروں میں بحال ہوگئی۔میں نے شکرادا کیاکہ دیو صاحب داد کے یہ ڈونگرے غزالہ المعروف فلمسٹار نرگس کے لیے برسا رہے تھے۔
دیو صاحب اپنی زندگی کی آخری فلم میں اپنی اوراس خطے میں بسنے والے انسانوں کی کہانی بیان کرنا چاہتے تھے۔انہوںنے مجھے کہاتھاکہ ہر انسان کا اپنا لاہور ہوتاہے، اوپر والے سے دعا کیاکرو کہ کوئی بھی انسان اپنے لاہورسے کبھی نہ بچھڑے ۔دیو صاحب نے یہ بھی کہاتھاکہ میرے پاس الہ دین کا چراغ آجائے تو میں اسے رگڑکر دونوں ملکوں کے حکمرانوں ،اسٹیبلشمنٹ اورعوام کے دلوں میں پیار بھردوں۔اوپر والادیو آنند کی یہ خواہش پوری کرے کیونکہ اس خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کی بھلائی اسی میں ہے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان واہگہ اٹاری بارڈر ہفتے میں سات روزچوبیس گھنٹے کھلنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ خدا دوستی اورمحبت کے یہ دروازے کھولے رکھے،آمین!