"TSC" (space) message & send to 7575

فلک اور ’’خواجگی‘‘

وطن عزیز کی ہوائوں اور فضائوں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ایک تقریر کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں ملکہ ترنم نور جہاں نے فلم ''عذرا‘‘ کے لئے ایک گیت گایا تھا‘ جو مادام نیلو بیگم پر پکچرائز ہوا۔ گیت تنویر نقوی نے لکھا تھا اور اس کی دھن ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی تھی۔ وہ سدا بہار گیت پیارے وطن کی کرنٹ پولیٹیکل سچویشن پر فٹ بیٹھتا ہے‘ جس کا الاپ ملکہ ترنم نے کچھ اس انداز سے کیا تھا کہ آج تک گونج رہا ہے: ''جو حال پوچھا تو ہم حالِ دل سنا نہ سکے، زباں پر آئے فسانے تو لب ہلا نہ سکے‘‘۔ گیت کی استھائی ہمارے سول ملٹری ریلیشن شپ کے نازک رشتے کو مزید بیان کرتی ہے... ''کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے... باتیں جو زباں تک آ نہ سکیں، آنکھوں نے کہیں آنکھوں نے سنیں،کچھ ہونٹوں پہ کچھ آنکھوں میں، ان کہے فسانے رہ بھی گئے‘‘۔ 
مذکورہ گیت کا آخری انترہ جگہ جگہ سے ادھڑی اور ہماری مرمت شدہ جمہوریت کی ایک طرح سے ''ای سی جی رپورٹ‘‘ ہے‘ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ بہادری، دلیری اور جوانمردی کے سارے تصورات اور ارمان فسانے بن کر جمہوری دلوں میں رہ جاتے ہیں۔ ملکہ ترنم اونچے سروں میں اپنی مضبوط آواز میں کہتی ہیں کہ: 
دیکھیں گے انہیں دل کہتا تھا
جب دیکھا تو دیکھا نہ گیا 
کچھ نکلے اورکچھ دل میں رہے
کچھ ارماں دل میں رہ بھی گئے
خواجگان کی طرف سے جس قسم کی ''خواجگی‘‘ کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس کے حوالے سے متضاد آرا سامنے آ رہی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے جن متذکرہ بیانات کو وجہ تنازع بنایا گیا ہے ان میں فوج کے لئے قطعاً کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جس سے اس ادارے کے وقار کے منافی کوئی پہلو نکلتا ہو۔ خواجہ آصف نے ایک ٹاک شو میں وضاحت سے کہا کہ وہ وزیر دفاع کی حیثیت سے فوج کے سویلین سربراہ ہیں لہٰذا وہ اپنے ادارے کی بے توقیری کیسے کر سکتے ہیں؟ جہاں تک پرویز مشرف کا معاملہ ہے تو ان کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موصوف نے دو مرتبہ آئین توڑا۔ انہیں آئین شکنی کے سلسلہ میں غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔ پرویز مشرف نے منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر ظلم و ستم ڈھائے تھے‘ ذاتی طور پر انہیں بھی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں‘ جس کا انہیں بڑا رنج تھا مگر میں ایک انسان ہوں، بدلہ لینا انسانی سرشت ہے‘ میں بھی پرویز مشرف سے بدلہ لینا چاہتا تھا مگر حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے اور میری لیڈر شپ نے ملک و قوم کی بھلائی کے لئے آمر کو معاف کر دیا لیکن آئین شکنی کا معاملہ عدالت میں ہے‘ اس ضمن میں عدالت جو فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہو گا۔
خواجہ دوم یعنی محترم سعد رفیق نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو لگ بھگ للکارتے ہوئے کہا کہ وہ ادارے کے پیچھے نہ چھپیں اور ہسپتال سے باہر نکل کر عدالت کا سامنا کریں۔ جس وقت خواجگان نے پرویز مشرف کا ذکر خیر کرتے ہوئے ''خواجگی‘‘ کا مظاہر ہ کیا تھا‘ تب انہیں ہسپتال بیٹھے ہوئے 3 ماہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ خواجہ صاحبان سے میڈیا نے بار بار مشرف کے بارے میں سوالات کئے جس پر جواب دینا تو بنتا تھا، خواجگان میں سے خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے اصولی طور پر بات درست کہی کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔ ملک میں آئین اور قانون سب اداروں اور ان سے وابستہ افراد کے لئے برابر ہے تو پھر پرویز مشرف کو اس سے استثنیٰ حاصل کیوں ہو؟ یہ ایسے ملک میں اس لئے بھی ضروری ہو جاتا ہے جہاں منتخب وزیر اعظم کوعدالت سے سزائے موت دی گئی ہو، ''دوسرے وقوعے‘‘ میں دوتہائی فیم وزیر اعظم کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے آمر کے آئین شکنی کے عمل کو مارشل لا کے بجائے ایمرجنسی کا نام دیا گیا ہو اور آمر کے اس غیرآئینی اقدام کو ملک بچانے کا سرٹیفکیٹ دے دیا جائے۔ ماضی قریب میں عدالت ہی کی طرف سے دوتہائی سے بھی زیادہ مینڈیٹ کے متفقہ وزیر اعظم کے ماتھے پر توہین عدالت کا ٹیکا لگا کر اسے گھر بھیج دیا گیا ہو۔ منتخب نمائندوں کے ساتھ اس نوع کے ''انصاف‘‘ کے بعد لازم ہو جاتا ہے کہ آمروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اداروں کو ہر قسم کی گروہ بندی اور سیاسی فرقہ بازی سے احتراز برتتے ہوئے صرف پاکستانی بننا ہے‘ اسی میں ان کا وقار اور قوم کی بھلائی ہے۔
خواجگان کے بیانات کو منتخب حکومت اور ریاستی اداروں کے مابین کشیدگی پیدا کرنے کے لئے دھڑا دھڑ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میراتھن میں ہمارے محب اینکر پرسنز اپنے اپنے ٹاک شوز کی روزانہ مقبولیت کی ای سی جی رپورٹ (روزانہ ریٹنگ رپورٹ) میں بہتری لانے کے لئے اداروں میں خطرناک تنائو پیدا کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے۔ ہمارے محب اینکروں نے تو وہی کرنا ہے جس کے لئے انہیں بھرتی کیا گیا ہے لیکن حکومت، اس کے وزراء اور خاص طور پر خواجگان کو چاہیے کہ میڈیا میں اپنا انداز تکلم دھیما رکھیں‘ کیونکہ برقی صحافت میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خواجگان کے قدرے تیور سروں کے بیان کو تیسری سبقت (ہارمونیم کے آخری حصے) یعنی اونچے سروں کا ثابت کرکے ملک میں بے چینی پیدا کر دے۔ حکومتی خواجگان پر تو ویسے بھی لازم ہو جاتا ہے کہ ان کا لب و لہجہ نرم و نازک اور کومل رہے‘ مبادا یہ الزام لگ جائے کہ وہ بندہ پروری کے وصف سے ناآشنا ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں آقائوں اور حکمرانوں کے لئے ''خواجہ‘‘ کی اصطلاح جبکہ آداب حکمرانی کو ''خواجگی‘‘ کہا ہے۔ علامہؒ فرماتے ہیں: 
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے؟
یہ وطن عزیز کی تاریخ ہے کہ سیاست اور اقتدار کے افق اور فلک پر جگمگانے والی جمہوری کہکشائیں اور ستارے مارشل لائوں کے ''بگ بینگ‘‘ سے ہی ظہور پذیر ہوتے رہے۔ ہمارے لگ بھگ سبھی جمہوری رہنمائوں کے ''خواجہ ‘‘ (آقا) جرنیل ہی تھے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ ملک میں لیڈرشپ صرف ایک ہی ٹکسال پر گھڑی جاتی رہی جس کی ہول سیل ذمہ داری ایک ہی ادارے نے اٹھائی ہوئی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہماری نوے فیصد سیاسی الیٹ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں معرض وجود میں آئی تھی۔ میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا سیاسی ظہور جنرل محمد ضیاالحق کے دور میں ہوا تھا۔ یہ حقیقت اس قدر معروف ہے کہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کو اپنا دفاع کرتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی دینا پڑا کہ ان کے والد گرامی خواجہ محمد صفدر جنرل محمد ضیاالحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین تھے۔ متذکرہ مجلس شوریٰ میں دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ موجود تھے جنہوں نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے آمر جنرل محمد ضیاالحق کو اخلاقی اور سیاسی مینڈیٹ دیے رکھا۔ وطن عزیز کی 66 سالہ تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ نے 35 سال براہ راست اور باقی عرصہ بالواسطہ حکومت کی۔ خاص نرسریوں میں جنم لینے والے چوزے مصنوعی جمہوری ماحول میں پل بڑھ کر مرغ تو بن گئے ہیں مگر شاید انہیں حکم اذاں نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اعتراض ہے کہ خاص نرسریوں میں پلے بڑھے ہوئے ہمیں ہی ''ککڑوں کڑوں‘‘ کر رہے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے کہ جہاں ان طاقتوں‘ جنہیں ہمارے ہاں فلک کی حیثیت حاصل رہتی ہے‘ سے بھی یہ سوال کیا جائے کہ کیا؟ 
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں 
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے؟
(جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں