"TSC" (space) message & send to 7575

سمارٹ رشوت کارڈ

میاں برادران کی حکومت اورعمران خان کے مابین ابھی پنکچروں والا تنازع طے نہیں ہواتھاکہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے رشوت المعروف لنگر پانی طلب کرلیا۔نیوز ایجنسیوں کے مطابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ہمراہ تین وزراء پروٹوکول کے بغیر لاہور سے اسلام آباد جارہے تھے کہ پنجاب پولیس کے ''مردم شناس‘‘ اہلکاروں نے انہیں روک لیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ایک تو پرائیویٹ گاڑی میں سوار تھے اوراس پر ان کے ہمراہ سکیورٹی کی گاڑیاں بھی نہیں تھیں جس کے باعث لمبے چوڑے پروٹوکول کے عادی پنجاب پولیس کے اہلکارانہیں وزیر اعلیٰ سمجھنے کے بجائے اپنا ''کلائنٹ ‘‘ سمجھ بیٹھے۔خادم اعلیٰ اوران کے ہیوی ڈیوٹی پروٹوکول کے عادی اہلکاروں نے صرف ایک عدد گاڑی میںسالم وزیراعلیٰ بمعہ تین عدد وزراء اکٹھے دیکھے نہیں تھے‘ اس لیے انہیں حکمران سمجھنے کے بجائے رعایا سمجھ لیا۔ رعایا کے ساتھ پاکستان اور خصوصاً صوبہ میں جو سلوک روا رکھاجاتاہے پنجاب پولیس نے ان کے ساتھ وہی والا میٹر ڈائون کیا۔ 
خیبر پختونخوا میں چونکہ خادم اعلیٰ کا رواج نہیں ہے‘ اس لیے وہاں صوبے کا سربراہ سادہ وزیر اعلیٰ ہی ہوتا ہے۔ پرویز خٹک نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے صوبے میں عوام اورپولیس کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ کو قدرے بہتر کیاہے۔صوبے میں جن لوگوں کو پولیس اورتھانہ سے واسطہ پڑتاہے‘ ان کے کام رشوت ادا کیے بغیر بھی ہورہے ہیں ۔ پولیس کے فرسودہ سسٹم میں بہتری لانا چونکہ پی ٹی آئی کا انتخابی نعرہ بھی تھا‘ اس لیے اسے ایک مہم سمجھ کرچلایا گیا جس کے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اس کریڈٹ کو جلسوں،دھرنوں اورریلیوں میں کیش کراتے ہیں‘ لیکن کیا خبر تھی کہ خیبر پختونخوا میں محکمہ ہٰذا کے مہاتما کوپنجاب میںمہاتڑ میل (غیر اہم) شخص سمجھ لیاجائے گا۔ٹی وی پر جونہی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے رشوت طلب کرنے کی خبر نشر ہوئی‘ اس کے فوری بعد پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی طرف سے بھی ایک سٹیٹ منٹ دکھائی دی۔ہمارے خیال میں یہ ریسکیوسٹیٹ منٹ تھی‘ جس میں رانا صاحب نے پنجابی فلموں کے چوہدری کی طرح یہ اعلان کیاکہ اگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ان سے شکایت کرتے تو وہ ملزموں کو فوری طور پر گرفتار کرادیتے ۔ہم نے اپنے بچپن میں پنجابی فلم ''لمے ہتھ قانون دے‘‘یعنی (لمبے ہاتھ قانون کے)دیکھی تھی، لیکن رانا ثنا ء اللہ کی سیاسی پھرتیاں دیکھ کرآئیڈیا آتا ہے کہ فلم''لمے ہتھ وزیر قانون دے‘‘ بھی باکس آفس پر نئے ریکارڈ قائم کرسکتی ہے۔
بہت عرصہ قبل منوبھائی نے لکھاتھاکہ رشوت ہمارے معاشرے میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ''دینے اورلینے والے کو جہنمی ‘‘نہیں سمجھاجاتا۔رشوت کو عوام نے'' ارجنٹ فیس‘‘ سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ بہت سال پہلے لاہور کے فوارہ چوک نمبر 1 پر کانسٹیبل نے مجھ سے بھی مبلغ 3سو روپیہ رشوت لی تھی ،حالانکہ میں نے تعارف کراتے ہوئے بتایاتھاکہ میں صحافی ہوں۔مجھے پنجاب پولیس کے سورما کا وہ ڈائیلاگ آج بھی یاد ہے۔اس نے کہاتھاکہ ''پیسہ لیے بغیر بندے کو چھوڑنا استاد سے سیکھا ہی نہیں‘‘۔ایسا بھی نہیں ہے کہ پولیس والے سیدھے سادے شریف اورقانون کا احترام کرنے والے شہریوں سے رشوت وصول کرتے ہیں۔ایک عرصہ سے کوئی مائی کالعل ہی لاہور میں ٹریفک سگنل کی پابندی کرتادکھائی دیتا ہے ۔ ان تیز رفتاروں کو دیکھ کر منیر نیازی بڑی شدت سے یاد آتے ہیںجنہوں نے فرمایاتھاکہ ''منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیاہے؟ کہ حرکت تیز تر ہے اورسفر آہستہ آہستہ ‘‘ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں لاہور میں میٹروبس چلانے کے لئے اربوں روپیہ صرف کرکے میلوں تک اس کے ارد گرد لوہے کا جنگلہ کھڑا کرنا پڑا۔ کارخانۂ قدرت میں تو ننھی چیونٹیاں بھی قطار در قطار چلتی ہیں ہم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود نظم وضبط کے پابند نہیں۔
رشوت اور لاقانونیت کے رجحان کو ہم صرف پولیس کے محکمہ سے ہی نہیںجوڑ سکتے۔ ہمارے ہاںاوپر سے لے کرنیچے تک یہ کہانی دہرائی جارہی ہے۔پولیس میں اگر چند پیسوں کے عوض اہلکار قانون کو گروی رکھ دیتے ہیںتو ہمارے بعض محب محکموںکے سربراہ تو پورے کے پورے آئین کوہی اپنے میز کی دراز میںتہہ کرکے دس گیارہ سال کے لیے رکھ لیتے ہیں ۔سندھ کی حکمران جماعتوں نے پولیس کے سربراہ شاہد حیات کو اس لیے ان کے فرائض کی ادائی سے منع کردیا ہے کیونکہ وہ ان کی چھتر چھائوں میں ''ڈیوٹی‘‘ سرانجام دینے والے ''بھائی لوگوں‘‘ کو بلاامتیاز گرفتار کررہے تھے۔ عمران خان کے اندازِ سیاست سے اختلاف کیاجاسکتا ہے لیکن وہ درست کہتے ہیںکہ ہم اس وقت تک جرائم میںکمی نہیں کرسکیںگے جب تک پولیس کو غیر سیاسی نہیں کریں گے۔جمہوریت کے گلشن کا کاروبار چلانے اور عوام کے مسائل حل کرانے کے لیے صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے اراکین کوروبوٹ ڈیزائن کے پولیس اہلکار چاہیے ہوتے ہیں‘ جو اپنے سیاسی آقائوں کے حکم کو بجا لاتے ہوئے رعایااورجنتا تک جمہوریت کے ٹریکل ڈائون اثرات پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ جس ملک کی جمہوریت ایسی ہوگی وہاں کی آمریت سے پروردگار محفوظ رکھے۔ آمین۔ ان دنوں بعض سنیاسی و سیاسی باوے جو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی فالیں نکال رہے ہیں‘ خدا ان کے طوطوں کو بھی ہدایت دے۔آمین! 
عمران خان نے الزام لگایاہے کہ لاہور میں ان کی پارٹی کے وزیر اعلیٰ سے رشوت طلب کی گئی ہے۔دوسرے معنوں میں پنجاب پولیس کے اہلکار بھی ''پنکچر باز‘‘ نکلے‘ جو ان کے وزراء اورپردیسی وزیر اعلیٰ سے رشوت طلب کرتے رہے۔یہ اپنی نوعیت کا انوکھاواقعہ ہے کہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے دن دیہاڑے حکمرانوں کی ایلیٹ میں شامل وزراء اوروزیر اعلیٰ سے رشوت طلب کی۔رشوت وصول کرنے کے معاملات میں پنجاب پولیس کا مقام کیا ہے؟ اس بات کا تعین کرنے سے پہلے ایک ریکارڈ ساز واقعہ سن لیجئے۔ نومبر 2011ء میں اپنے اورآپ سب کے عزیز سہیل احمد المعروف عزیزی کے ساتھ دلیپ کمار صاحب سے ملاقات کرنے ممبئی گیاتھا۔گلوکار ہنس راج ہنس کے بیٹے نو راج ایک رات ہمیں ممبئی کے ساحل سمندر جوہو پر گھمارہے تھے 
کہ بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان کے گھر (جلسہ) کے قریب پولیس کے ناکے پر کھڑے اہلکاروں نے ہمیں روک لیا۔نوراج کی کروزرپر پنجاب کی نمبر پلیٹ تھی‘ اس لیے مہاراشٹریہ پولیس نے اسے فوری روک لیا۔چالان کرانے کے علاوہ ایک صوبے سے دوسرے میں داخل ہونے کے لیے گاڑی کا اندراج پولیس ہیڈ کوارٹر میں کرانا ضروری تھا ۔اس تفصیلی جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے براہ راست رشوت طلب کی گئی ۔نوراج نے بتایاکہ اس وقت اس کے پاس انڈین کرنسی نہیں ہے‘ اس پر ممبئی پولیس کا اہلکار بولا ''اے ٹی ایم کارڈ تو ہوگا بابو؟‘‘۔ 
میں اور سہیل احمد یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ممبئی پولیس کے اہلکار آدھی رات کو ایک رکشے پر سوار ہوکر اس جگہ تک ہماری گاڑی کے پیچھے آئے جہاں اے ٹی ایم بوتھ نصب تھا ۔نوراج نے بوتھ سے 500روپے رشوت ادا کرکے اپنا ڈرائیونگ لائسنس ان سے واگزار کرایا۔ نوراج نے پولیس والوں سے ہمارا تعارف کراتے ہوئے انہیں بتایاکہ یہ لوگ پاکستان سے آئے ہیں،یہ اپنے ملک میںجا کر تمہاری اس حرکت کے بارے میں کیابتائیںگے؟ممبئی پولیس والے کا عالم گیر جملہ مجھے آج تک یاد ہے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ہمیںپرنام کرتے ہوئے کہاتھاکہ ''بھائی صاحب! پاکستانی پولیس کو کہیے گانقد نہ ہوں تو اے ٹی ایم کی آپشن استعمال کیاکریں‘‘۔جس طرح کے مسائل کا میاںنوازشریف صاحب کو پاکستان میں سامنا ہے‘ اسی طرح کے مسائل سے مودی کو بھارت میں لڑنا ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ میاں اینڈمودی اپنے ہاں سسٹم کو بہتر بناتے ہیںیاپھر پنجاب اورمہاراشٹریہ پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو اے ٹی ایم اور سمارٹ بکنگ کے بعد سمارٹ رشوت کارڈ بھی متعارف کرایاجاسکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں