"TSC" (space) message & send to 7575

خواجہ صاحب کی واپسی کا روٹ

قبلہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا تازہ انٹرویو ملاحظہ کیا۔وہ ایک ایسے ٹی وی پر جلوہ گر تھے جس پر وہ ''کم کم بادوباراں ‘‘ کی طرح کم ہی دکھائی دیا کرتے تھے۔حیرت ناک امریہ تھاکہ موصوف اس ''کم کم ٹی وی‘‘ پر بیٹھ کر ایک ایسے ٹی وی پر الزام لگارہے تھے جس کاذکر کرتے ہوئے ان کی کیفیت مرزا غالب جیسی ہوجایاکرتی تھی‘ یعنی ؎ 
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زُباںکے لئے
خواجہ صاحب نے اس ''مضروب‘‘ٹی وی کے بارے میں کافی کچھ کہالیکن اپنے ہم دمِ دیرینہ چوہدری برادران کے لئے بھی کچھ اچھانہ کہا۔
موصوف نے چوہدری برادران کے بارے میں کہاکہ یہ محسن کش لوگ ہیں‘ ان کی کیابات کریں۔جنرل (ر) پرویز مشرف نے ان کے وہ خواب سچ کردکھائے جو یہ کبھی دیکھا کرتے تھے ۔مشرف نے انہیں وزیراعلیٰ اوروزیر اعظم بنایا لیکن جب ان پر مشکل بنی تو یہ غائب ہوگئے ۔ایسے مواقع کے لئے پنجابی محاورہ ہے کہ ''گھیس وٹ جانا‘‘ مطلب یہ کہ ضرورت کے وقت آپ جھوٹ موٹ چُپ سادھ کر ایک طرف ہوجائیں۔وفاقی وزیر نے کہاکہ مشرف کتنے دنوں سے پاکستان میں ہیں، وہ چک شہزاد بھی رہے اور ہسپتال میں بھی داخل ہوئے لیکن چوہدری برادران ان سے ملنے کہیں نہیںگئے۔آخر انہوں نے ان کانمک کھایاہے ۔چلیں وہ نمک نہیں تو سیاسی نمک تو کھایاہے ۔ان کی کیابات کریں‘ یہ محسن کش لوگ ہیں، ان کے بارے میں میری رائے اچھی تھی مگر چوہدری برادران نے اپنے محسن کو نظر انداز کرکے مایوس کیاہے۔ بقول خواجہ آصف‘ چوہدری برادران محسن کش لوگ ہیں‘ اگریہ دُرست مان لیاجائے تو ریکارڈ بتاتاہے کہ ایسی سیاسی غلطیاں خواجہ آصف سمیت دیگر سے بھی ہوتی رہیں۔محسن کشی کی ایک مثال 2013ء کے الیکشن میں دیکھنے کو ملی جس میں اصلی فرزند پاکستان جناب اعجاز الحق کو نون لیگ کا ٹکٹ نہ دیا گیاتھا۔اعجازا لحق اپنی ذاتی مسلم لیگ مراد مسلم لیگ ضیاالحق کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔
خواجہ صاحب نے چوہدری برادران کے حوالے سے جوبھی کہا‘ یہ ان کی ذاتی رائے ہے لیکن ریکارڈ کے مطابق ایسا بھی ہواکہ جنرل پرویز مشر ف کے دور میں چوہدری برادران کی جوڑی جب سپر ہٹ جارہی تھی‘ چوہدری شجاعت کی سفارش پر مشرف حکومت کی طرف سے خواجہ آصف کے ساتھ ''ہتھ ہولا‘‘(نرم رویہ ) رکھاگیاتھا۔ فوجی حکومت سے یہ رعایت خواجہ آصف کا استحقاق بھی ہے۔ اس کی وجہ ان والد محترم خواجہ محمد صفدر کی وہ سیاسی خدمات ہیں جو مرحوم نے جنرل محمد ضیا الحق کے مارشل لاکے لئے فراہم کی تھیں۔خواجہ صفدر کو 1981ء میں جنرل ضیاالحق کی طرف سے بنائی گئی مجلس شوریٰ کا چیئر مین مقرر کیاگیاتھا۔ضیا آمریت کی طرف سے بھٹو صاحب کی مقبول حکومت کو غیر آئینی طور پر ختم کیاگیاتھا‘ اس لیے مجلس شوریٰ آمریت کوسہارااور سیاسی جواز فراہم کرنے کی ایک بھرپور کوشش تھی۔85ء کے غیر جماعتی الیکشن میں خواجہ صفدر فوجی حکومت کی چھتری میں ہونے والے انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ مرحوم اس وقت کی قومی اسمبلی کے سپیکر کے امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہوئے اورفخرامام کو سپیکر منتخب کیاگیا۔بعدازاں خواجہ صفدر 85ء کی اسمبلی میں ہی وفاقی وزیر خوراک وزراعت 'منتخب‘ ہوئے۔ خواجہ محمد آصف 1991ء سے کاروبارِسیاست خاص طور پر نوازشریف کی ٹیم کے وہ اہم رکن ہیںجنہیںمقتدر قوتوں کا آشیر باد حاصل رہا ہے۔ لہذا کہاجاسکتا ہے کہ خواجہ محمد آصف غیر نہیں ہیں‘ اشرافیہ کے اپنے ہیں ۔چھوٹی موٹی غلط فہمیاں پیدا ہوجایاکرتی ہیں۔ خواجہ محمد آصف نے کہاہے کہ وہ کسی بھی کاغذکو پڑھے بغیر اس پر دستخط نہیںکرتے ،وہ کوئی انگوٹھاچھاپ نہیں ہیں،ایک میڈیا ہاوس کے خلاف دی گئی درخواست میں انہوں نے شواہد اچھی طرح دیکھے تھے۔ اشرافیہ کے اپنوں کو بالآخر ایک دن لوٹ کر واپس آناہوتاہے ،ایسے مہربانوں کی واپسی کا روٹ بھی پروین شاکر سے یوں ملتا جلتا ہوتا ہے کہ ع 
وہ کہیں بھی گیا‘ لوٹا تو میرے پاس آیا
ہماری سیاسی تاریخ میں بعض اپنے لوٹ کر واپس آتے رہے اورکچھ اپنے محسنوں کی نوازشات کو فراموش کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگایاجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے محسن فیلڈ مارشل ایوب خان سے بے وفائی کی تھی۔ بھٹو صاحب نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کمزور ہوئی اورانہیں اقتدار اپنے پیٹی باندھ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو سونپنا پڑا۔ایوب خان کے بعد جنرل محمد ضیاالحق نے آمریت کی ایک 
طویل اننگز کھیلی ۔جنرل ضیاالحق نے ایوب خان کی طرح بھرپور انداز میں راج کرنے کیلئے اپنی من پسند سیاسی لیڈرشپ پیدا کی۔ ایک اندازے کے مطابق آج کی 70 سے 80 فیصد لیڈر شپ ضیاء الحق اینڈکمپنی کی تیار کردہ ہے۔ریکارڈ کے مطابق چوہدری برادران، میاں برادران،شیخ رشید، یوسف رضا گیلانی،جاوید ہاشمی اور بہت سی دیگر سیاسی شخصیات کا تعلق جنرل ضیاالحق کیمپ سے جڑا ہواہے۔ اس نسبت سے اصلی فرزندِ پاکستان اعجاز الحق ہمارے آج کے بڑے بڑے سیاستدانوں کے ''خلیفہ ‘‘ ہیں۔کلاسیکی موسیقی اورفن پہلوانی میں خلیفہ سے مراد استاد کے نائب یا فرزند (بیٹے ) کے ہوتے ہیں۔اعجاز الحق کے والد محترم جنرل محمد ضیاالحق وہ فوجی حکمران تھے جو اس ملک کی بیشتر لیڈر شپ کے جدِامجد تھے۔جنرل ضیاالحق نے خیبرسے کراچی تک ہر ڈویژن، ڈسٹرکٹ، تحصیل،قصبے، گائوں اورگلی محلے سے ایسے ایسے لوگوں پر سیاست اور اقتدار کے دروازے کھولے جن کی ابتدائی زندگی کے مشاغل کچھ اورتھے مگر جب وہ سیاست کے منافع بخش صحرا میں آگئے تو پھر جوش جنوں میں انہیں پورا صحرا مُشت خاک دکھائی دیا:
جوشِ جُنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسد
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے
خواجہ محمد آصف اورنون لیگ کا لب ولہجہ جنرل ریٹائرڈ مشرف کے حوالے سے بھی بدلاہواہے۔چند دن پہلے جنرل مشرف کے حوالے سے خواجہ آصف کے خیالات کو شیخ رشید نے ''خواجہ سرائی ‘‘ کا عنوان دیاتھا۔اندر کی خبر ہے کہ سیالکوٹ میں عمران خان کے ''سپرہٹ ‘‘ جلسے کے بعد خواجہ آصف کو بھی محسوس کرایاجارہاہے کہ وہ اپنی پرفارمنس بہتر بنائیں۔ ایک اہم سرجوڑ میٹنگ میں نون لیگ کے بڑوں کا کہناتھا کہ فیصل آباد سے تو پی ٹی آئی جیتی تھی لیکن سیالکوٹ تو نون لیگ کاگڑھ سمجھا جاتاہے‘ وہاں جناح سٹیڈیم میں ہونے والاغیر معمولی جلسہ کیاخبر دے رہاہے۔خواجہ صاحب کی سیاسی باکس آفس پوزیشن کو متاثر کرنے والے اس جلسے کے پروڈیوسر اورمنتظم عثمان ڈار تھے۔یہ وہی عثمان ڈار ہیں جنہوں نے سیالکوٹ حلقہ این اے 110سے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا اور 70ہزارسے زائد ووٹ لے کر خواجہ آصف سے ہارے تھے۔ عثمان ڈار کے 6ہزار سے زائد ووٹ کینسل بھی ہوئے تھے۔خواجہ محمدآصف نے 2013ء کے الیکشن میں92ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ وہ اپنے آبائی کشمیری محلہ سے الیکشن ہارکر بھی الیکشن جیت گئے۔کشمیری محلہ سے خواجہ آصف کی ہار کامطلب ایسے ہی کہ ایم کیوایم نائن زیرو سے ہار جائے اورپیپلز پارٹی لاڑکانہ سے جیت نہ پائے۔خواجہ صاحب کا حلقہ این اے 110عمران خان کے ان چار حلقوں میں شامل ہے جن کے بارے میں عمران خان کو شک ہے کہ یہاں ''پنکچر‘‘ لگائے گئے ہیں۔ حلقہ 110میں خواجہ آصف کے رنر اپ عثمان ڈار نے بھی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے رٹ پٹیشن دائر کررکھی ہے‘ دیکھیںکیانتیجہ نکلتا ہے۔خواجہ محمد آصف اورخواجہ سعد رفیق یعنی دونوں خواجگان کے حلقے عمران خان اورپی ٹی آئی کی پٹیشنوں ،پریس کانفرنسوں اورجلسوں میں ہونے والی تقریروں کی زد میں ہیں ۔شیخ رشید ان دنوں خواجگان کی خواجگی پر اعتراض کرتے ہوئے اقبال ؒکا یہ شکوہ دہرا رہے ہیںکہ ؎ 
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیاہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں