"TSC" (space) message & send to 7575

X-Factor

ہر نسل کا اپنا رومانس ہوتاہے، اپنی جمالیات اور X-Factor ہوتاہے ۔کیمبرج ایڈوانس ڈکشنری کے مطابق The X factor کویوں بیان کیاگیاہے: A quailty that you can not describe that makes some one very special. آکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق X-Factor کی اصطلاح کسی ایک صورت حال میں استعمال نہیںہوتی۔ مختلف صورت حال اس کے معنی اورمفہوم کو وسعت بخشتی ہے؛ تاہم یہ اصطلاح عموماً پسندیدہ فنکاروں کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بولی جاتی ہے۔ ممی ڈیڈی بچوںکو ہالی وڈ اوربالی وڈکے جن سٹارز میں X-Factor ملتا ہے ہمارے لئے وہ عموماًََ پسندیدہ نہیںہوتے۔ نسلوں اورعمروںکے اس تضاد کو جنریشن گیپ بھی کہاجاتاہے۔ میں کسی ینگسٹر کو لاکھ سمجھاتا رہوںکہ بھارتی سنگر سونو نگھم ماضی کے گیتوں کے بادشاہ محمدر فیع کی درجہ سوم اورنسوانی قسم کی کاپی ہے لیکن وہ میرا تھیسس بالکل اس طرح ماننے سے انکار کردے گا جیسے ماضی میں خادم اعلیٰ پنجاب سابق صدر آصف علی زرداری کی صدارت کو ماننے سے یوں انکاری تھے کہ ''میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘‘۔ اسی طرح لتا منگیشکر کی ہیرے جیسی چمکتی آواز جس میں دودھ اورشہد جیسی مٹھاس اورنجانے کتنی ہی راحتیں یکجا ہیں،کسی کُوڑدماغ کو اگریہ سب شریاگھوشال کی آواز میں میسر آجائے تو نصیب اپنااپنا اور پسند اپنی اپنی کی بحث چھڑ سکتی ہے۔ لتامنگیشکر اورشریاگھوشال کی فنی مراتب کے حوالے سے خواص میں درجہ بندی اورتقسیم موجود ہے لیکن عوامی سطح ، مختلف ادوار اورکمرشل ازم کے تقاضوں کے تحت فنکاروں کے ٹیلنٹ سے زیادہ باکس آفس پوزیشن کاX-Factor زیادہ اہم سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک ریکارڈنگ کمپنی کے کرتادھرتا نے کہاکہ عاطف اسلم کے ایک گیت سے مبینہ طور پر اٹھارہ کروڑ روپے کا بزنس ہوا۔ لہٰذا عاطف اسلم ہمارے نزدیک کشورکمار اورمحمد رفیع سے زیادہ بڑا گلوکار ہے۔ میوزک لورز کے لئے یہ بات ایسے ہے جیسے کوئی کہے شیدا پستول، مہابھارت کے عظیم یودھا ارجن سے بڑا سورما ہے۔اس بد تہذیبی کا سیکنڈ ورژن یہ بھی ہوسکتاہے کہ گلوبٹ کی فتوحات سکندر اعظم سے زیادہ ہیں۔
برصغیرکے حوالے سے کندن لال سہگل المعروف کے ایل سہگل پہلے ہیرو تھے جن میں X-Factor دیکھا گیا ۔ اسی دور میں برصغیر میں عظیم مغنیہ مختار بیگم کا طوطی بول رہاتھا۔ بے بی نورجہاں المعروف ملکہ ترنم نورجہاں اپنے ابتدائی دور میں مختار بیگم سے متاثر ہوئیں۔ تینوں فنکاروں میں اپنے دور کاX-Factor موجود رہا۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے اپنی گائیکی اورX-Factor سے کئی نسلوںکو متاثرکیا۔
کے ایل سہگل اپنے دورکے سٹار تھے لیکن اس کے بعد برصغیرکو دلیپ کمار نصیب ہوئے ۔کے ایل سہگل شاید ایک یا دونسلوں کے ہیروتھے لیکن دلیپ کمارکا سٹارڈم نسل در نسل تسلیم کیاگیا۔ 40ء کی دہائی کے اختتام پر جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو جواں سال دلیپ کمار''جوار بھاٹا‘‘ اور''جگنو ‘‘ کی وساطت سے سٹار تسلیم کر لئے گئے تھے۔ دلیپ کمار کے سٹارڈم اورX-Factor کوکئی نسلوں تک تسلیم کیاگیا۔ان کا یہ گراف غیر معمولی طویل ثابت ہوا وگرنہ ایک نسل کا ہیرودوسری نسل کے لئے ایک پہیلی ہوا کرتاہے۔ 
انٹرٹین منٹ ورلڈ کی طرح یہ X-Factorہمارے سیاسی سٹارز میں بھی پایا جاتا ہے اوربعض گھرانوں میں تو نسل درنسل پایاجاتا ہے۔ 
میاں برادران میں X-Factorموجود ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے ایکس فیکٹر کو ہمیشہ ''رسک فیکٹر ‘‘ کا سامنا رہا۔ وہ ہر دورِ حکومت میں رسک فیکٹر سے بچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے تاہم کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے۔ موجودہ حکومت میں بھی ان کا ایکس فیکٹر '' رسک فیکٹر ‘‘ سے بھر پور ہے اور انہیں ماضی کی نسبت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اب چودہ اگست کو ڈی چوک اسلام آباد میں جلسے کا فیصلہ ان کے رسک فیکٹر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستانی سیاستدانوںکے ایکس فیکٹرکی بات کریں تو ایک نام جو ذہن میں بڑی شدت سے سٹرائیک کرتا ہے وہ شیخ رشید احمد کاہے۔ ٹاک شوز میں شیخ صاحب کی باتیں سن کر معروف بالی وڈ اداکار نانا پاٹیکر کی فلم ''یشونت ‘‘کی اس کویتا کی گونج سنائی دیتی ہے''گِرو سالو گِرو لیکن گرو تو اس جھرنے کی طرح جو پربت کی اونچائی سے گرکر بھی اپنی سُندرتا کو کھونے نہیں دیتا ‘‘۔ لیکن کام نہ ملنے کی وجہ سے جس طرح نانا پاٹیکر اداکار سے ''ماضی کے اداکار ‘‘ بن چکے ہیںاسی طرح شیخ صاحب کا ایکس فیکٹر بھی اب ایسے ہی ہے جیسے ایکس ہزبنڈ ، ایکس بوائے فرینڈ ، ایکس فیانسی وغیرہ وغیرہ ۔ ایک بات تو ہے،گو شیخ صاحب کی سیاسی پوزیشن باکس آفس پر ویسی نہیں رہی جیسی ماضی میں تھی البتہ ان کا ''پرسونا‘‘ اتنا ہے کہ اب وہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ''جیوری ‘‘ کے فرائض انجام دیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ٹی وی کے پروگرام X-Factor میں سینئر گلوکار یا اداکار پرفارم کرنے والوں کی صلاحیتوں کو سراہتے بھی ہیں اور تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں ۔ شیخ صاحب میں یہ صلاحیت علی عظمت اوربشریٰ انصاری سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان کے سیاسی X-Factorکا ذکرکریں تو چوہدری شجاعت حسین کی حیثیت اداکار بھگوان جیسی دکھائی دیتی ہے۔ بھگوان بالی وڈ کے وہ سٹار تھے جنہوں نے اپنے کیریئر میں ہیرو سے لے کر ایکسٹراتک کے سبھی رولز نبھائے۔ چوہدری شجاعت کے کیریئر پر نظر ڈالیں تو ''حلالہ ‘‘ وزیر اعظم سے لے کر پروفیسرڈاکٹرقادری کے انقلاب کی فلم میں ہمنوا کا کردار نبھاتے دکھائی دیتے ہیں۔چوہدری پرویز الٰہی کا موازانہ بالی وڈ سٹار پردیپ کمار اورلالی وڈ کے اداکارکیفی سے کیاجاسکتا ہے جن کے کریڈٹ میں کامیاب فلمیں ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی میں ایکس فیکٹر پایاجاتا ہے لیکن یہ دیسی برینڈ ہے جس میں علاقائی سٹائل موجود رہتاہے۔ ایم کیوایم میں X-Factor بدرجہ اتم پایاجاتاہے۔ یہ فیکٹر الطاف بھائی کی پرسنیلٹی سے لے کر ٹیلی فون کالز تک میں پایاجاتا ہے اوریہ فیکٹر ٹیم کے باقی 
ارکان کے بھی سرچڑھ کر بولتاہے۔ مولانا فضل الرحمن تو سیاسی ایکس فیکٹرکے منبع ہیں۔ یہ حکومت میں موجود ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن میں ہوتے ہیں اوراپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومتی آسائشوں کے حق دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا سارا X-Factor کپتان عمران خان کا مرہون منت ہے۔ عمران خان تو ایکس فیکٹرکی فیکٹری سمجھے جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسے صحیح طور پرکیش نہیںکر پارہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ 14اگست کو اپنے ایکس فیکٹر کے سیکوئل کی نمائش اسلام آباد میں کرپاتے ہیں یا نہیں؟
بر صغیر کے بیشتر فلمسٹارزکی اگلی جنریشن یا تو ایکس فیکٹر سے محروم ہے یا اس کا تناسب پچھلی جنریشن کی نسبت کم رہا ہے۔ دیوآنند ، راج کمار، محمود،امجد خان، ونودکھنہ ،امیتابھ بچن، فیروزخان، متھن چکرورتی،انیل کپور، سچترا سین، ہیما مالنی سمیت کئی بالی وڈ سٹارزکی اگلی نسل میں وہ پوٹینشل نظر نہیں آیا جو ان کے بڑوں میں تھا۔ اگر پاکستانی فلمسٹارز کی اگلی جنریشن کی آؤٹ پٹ دیکھیں تو خاصی مایوسی ہوتی ہے، جیسے لالہ سدھیر، اکمل ،کمال ، وحید مراد ،سلطان راہی، منور ظریف سمیت کئی نامور اداکاروں کے بچے فلم انڈسٹری میں اپنا مستقبل نہ بنا سکے۔ اس کے برعکس سیاستدانوں کے بچوں کا مستقبل روشن ہے جس کی زندہ مثال حمزہ شہباز، مونس الٰہی، بلاول بھٹو اور مریم نوا ز ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری سیاست کی اگلی جنریشن میں ایکس فیکٹر نہیں پایا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایکس فیکٹر نہ بھی ہوتا تو ان کا مستقبل روشن ہی رہتا۔ ہمارے خطے کے سیاستدانوں کے بچوں کو یہ ایڈوانٹج ہے کہ انہیںسیاسی میدان میں کسی 'بگ بی‘ یا 'کنگ خان‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس کا سحران کے کیریئر پر اثر انداز ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں