"TSC" (space) message & send to 7575

اُدھر تم اِدھر ہم

پیپلز پارٹی کو میں ''نیک پروین‘‘ کہاکرتاہوں۔ پروین اوپر سے نیک بھی ہو تو سچوایشن وہی بن جاتی ہے جس کے لئے ملیکا شیراوت کو بھی کہنا پڑاتھا کہ ''رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی‘‘۔ قومی اسمبلی میں چودھری اعتزاز احسن نے اپنے متعلق چودھری نثار علی خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جواب تفصیل سے دے دیا ہے۔ بیرسٹر صاحب نے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اگرچہ غالب اور داغ دہلوی کے اشعار بھی استعمال کیے لیکن وہ اپنے تندوتیز لہجے سے مولاجٹ بھی لگے۔ چودھری اعتزاز سے پہلے اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے بھی وزیر داخلہ پر تابڑتوڑ حملے کئے لیکن افسوس انہوں نے بھی چودھری نثارعلی خان کی ہی خبرلی ؛ حالانکہ چودھری نثار سے زیادہ اس جواب دعویٰ کی بھی اشد ضرورت تھی جس کے تحت پروفیسر طاہرالقادری نے تاریخ کے بوسیدہ اور لغو مقدمے میں عوام کے محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹوکے متعلق کہا کہ انہوں نے ''ادھر تم ادھر ہم‘‘کا نعرہ لگا کر ملک کو دو ٹکڑے کردیا تھا۔
''اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ ایسا جھوٹا الزام ہے جو ڈکٹیٹروں اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ رائٹ ہینڈ ڈرائیو میڈیا نے بھٹو صاحب پر لگایا تھا۔ یہ وہ من گھڑت سیاسی اور نصابی تاریخ ہے جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے دائیں بازو کے نام نہاد مورخین سے مرتب کروائی تھی۔ ایسی درسی کتب اور گیس پیپرز اسی لئے مرتب کرائے گئے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی اور گناہ سیاستدانوں خاص طورپر مقبول عوامی لیڈر بھٹو پر ڈال دی جائے۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی نے اپنے بانی چیئرمین اور تیسری دنیاکے عظیم لیڈر سے منسوب اس گھٹیا پروپیگنڈا کا جواب دینے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیںکی۔ اُدھر تم ادھر ہم کی اصطلاح بھٹو صاحب نے کبھی استعمال نہیں کی تھی، اس سرخی کے خالق سید عباس اطہر مرحوم المعروف شاہ جی تھے جو اس وقت روزنامہ ''آزاد ‘‘ سے وابستہ تھے۔ یہ حقیقت شاہ جی نے اپنی زندگی میں متعدد مرتبہ بیان کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آئی اے رحمان، حسین نقی، عبداللہ ملک اور عباس اطہر مرحوم جیسے نامور صحافی روزنامہ ''آزاد‘‘ میں اکٹھے کام کررہے تھے جہاں کبھی کبھی نثار عثمانی بھی آجایا کرتے تھے۔ شام کے وقت ان سب صحافی حضرات کے سامنے بھٹو صاحب کی کراچی میں کی گئی تقریرکا متن آیا جو انگریزی میں تھا۔ عباس اطہر مرحوم نے ملک کے سیاسی حالات اور اپنے احباب کی گفتگو کو ''ادھر تم ادھر ہم‘‘ کاعنوان دے دیا۔ وہ اکثر اپنی اس سرخی کو اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے لئے ''صحافتی شرارت ‘‘ کہا کرتے تھے۔ روزنامہ ''آزاد‘‘ میں جمائی گئی اس سرخی کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے لئے کلین چٹ جانا اور پھر ایک منظم پروپیگنڈا کے تحت یہ الزام بھٹوپر تھوپ دیا گیا۔ شاہ جی کہا کرتے تھے کہ بھٹو ایک عظیم محب وطن لیڈر تھے جنہیں کھوکر ہم نے اپنے آپ سے بہت بڑا ظلم کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پر عمل کیا جاتا تو پاکستان کے چھ ٹکڑے ہوجاتے۔ اس وقت دوہی آپشن تھے، اول مجیب الرحمن کے نکات پر عمل کرکے پاکستان کے ٹکڑے کرلئے جاتے، دوم مغربی پاکستان کوہی پاکستان سمجھ کر صبر شکر کرلیا جاتا۔
دسمبر70ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا تھا اور ملک کے مغربی حصے میں بھٹوکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ مجیب الرحمن عام انتخابات سے بہت پہلے 25 مارچ 1966ء کو ہی اپنے 6 نکات پیش کرچکے تھے اور چار سال بعد 70ء میں معمولی ردوبدل کے ساتھ یہی نکات عوامی لیگ کے انتخابی منشورکی اساس بنے تھے۔ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات صدرفیلڈ مارشل کو بھی پیش کرچکے تھے اور اب الیکشن جیت کر وہ اس پر مکمل عمل درآمد چاہتے تھے۔ مجیب الرحمن کے 6 نکات درج ذیل تھے:
1۔ ملک کا آئین پارلیمانی ہو جس میں مقننہ کو بالادستی حاصل ہو۔
2۔ وفاقی حکومت کے پاس صرف دومحکمے (دفاع اور خارجہ) ہوں باقی تمام محکمے صوبوں کے زیر اہتمام ہوں۔
3۔ دونوں صوبوں کی کرنسی علیحدہ ہو۔
4۔ ٹیکسوں کے نفاذ اور حصول کا اختیار صوبوں کو ہوگا اور یہ کہ وفاقی حکومت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
5۔ دونوں صوبوں میں زرمبادلہ کے ذخائر علیحدہ رکھے جائیںگے۔
6۔ مشرقی پاکستان کے لئے ملیشیا یانیم فوجی فورس کا قیام لازم ہوگا۔
بنگلہ بندھوکہلانے والے بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمن نے اپنے صوبے جسے بعد ازاں بنگلہ دیش کا نام دیا گیا کے لئے علیحدہ فوج کا مطالبہ بھٹو سے نہیں بلکہ فیلڈمارشل ایوب خان سے کیا تھا اور مجیب نے یہ مطالبہ 70ء میں نہیں 1966ء میں کیا تھا، لہٰذا شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرا لقادری کی طرف سے یہ کہنا کہ ''ادھر تم ادھر ہم‘‘ کانعرہ بھٹو نے لگایا تھا صریحاً غلط ہے۔ اپنے تئیں نام نہاد علم کے کندھوں پر اعزازات اور القابات کے سونے، چاندی، کانسی، پیتل اور رولڈگولڈ کے تمغات سجانے والوںکوگھسے پٹے اورمتروک ٹیسٹ پیپروںکے الزامات خواہ مخواہ دہرانا نہیں چاہئیں۔ رہی بات عوام کے محبوب لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹوکی تو تیسری دنیا کا عظیم لیڈر شاید اپنی ''نیک پروین‘‘ جماعت کی وکالت کا محتاج نہیں ہے۔
چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، کوچیئر مین آصف علی زرداری، سید خورشید شاہ ، سید قائم علی شاہ ، مخدوم امین فہیم، چودھری اعتزاز احسن، سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ، قمر زمان کائرہ ، خان زادہ خان ، ندیم افضل چن، نذر محمد گوندل، رضا ربانی اور پیپلز پارٹی کے ''ناقابل تسخیر ‘‘ جنرل سیکرٹر ی جناب جہانگیر بدرمیں سے کس نے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ لڑا ہے ؟ مردانہ ڈبے کے بعد اگر زنانہ کمپارٹمنٹ میں جھانکیں جہاں پارٹی کی باجی فریال تالپور، شیری رحمان، رخسانہ بنگش اور فہمیدہ مرزا صف آرا دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی اپنے اس فرض سے سبکدوش ملتی ہیں۔ بھٹو جیسے محب وطن کے کفن پر لگے ''ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا داغ کون دھوئے گا؟ تیسری دنیا کے اس عظیم لیڈرکا مقدمہ لڑناکس کا فرض تھا؟ شاید اس کی بہادر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کا‘ جوگڑھی خدا بخش میں خود بھی کفن اوڑھے ابدی نیند سلادی گئی ہے۔ 
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کاکہناہے کہ وہ حکومت کی نہیں بلکہ جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ وہ نوازشریف پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر احسان کریںگے۔ انہوں نے کہاکہ اعتزاز احسن ، چودھری نثارکو جواب دینے میں حق بجانب ہیں ۔ چودھری اعتزاز نے کہاکہ چودھری نثار نے چاند پر تھوکا ہے۔ چودھریوں کی آپس کی لڑائی میں حکومت اور جمہوریت کی نیا (کشتی ) ڈوبنے کااندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ کاری گروں کا ( پلان A) چونکہ فیل ہوگیا ہے لہٰذا اب ( پلان B) پر عمل کیاجائے گا۔ چودھری نثار اورچودھری اعتزاز کے مابین چھیڑی گئی جنگ سے کہیں پلان بی کامیاب تونہیں ہوجائے گا؟
چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیاہے، اب چینی صدر صرف بھارت تشریف لے جائیںگے،اس سے قبل مالدیپ اور سری لنکا کے سربراہان کے دورے بھی ملتوی ہوچکے ہیں۔ مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو کے نعرے لگانے والے کیا بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کے فائدے اورنقصان کی جنگ لڑرہے ہیں؟ ''اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کے نام پر ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی،اپنے ماضی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے حال میں لائی جانے والی تبدیلیوں اور انقلابات کو بھی پرکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں