"TSC" (space) message & send to 7575

قوالوں کی لتا منگیشکر سے لڑائی

ہیجڑے اکثر ہمارے محلے پر'' میوزیکل حملہ‘‘ کیاکرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہیجڑے ہماری گلی میں عموماً اس وقت آتے تھے جب کسی کے ہاں کاکے (بیٹے) کی پیدائش ہوا کرتی تھی۔بیٹی کی پیدائش پر ہیجڑوں کا رقص ممنوع ہوا کرتاتھا جوآج بھی ہے۔ ہیجڑوں کی آمد کی دوسری وجہ بیاہ شادی بھی ہوا کرتی تھی ۔آبادی بڑھنے کا رجحان چونکہ ہمارے ہاں شروع سے ہے، اس لیے اکثر ہیجڑوں کی آمد کا ''خطرہ ‘‘ لاحق ہی رہتاتھا۔ اچانک ہمارے کانوں میں ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ ساتھ نسوانی اورمردانی قسم کی موسیقی کی آواز پڑتی ۔ گویایہ اعلان ہوا کرتاتھاکہ ہیجڑے اپنے گرو کے ساتھ آن پہنچے ہیں۔ اب کون مائی کا لال تھا جو انہیںناچنے سے روک سکتا ؟ وہ اینٹوں کی پکی گلی سے بھی ''گھٹّا‘‘(خاک) اڑادیا کرتے تھے ۔ہیجڑوں کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ناچتے اورگاتے ہوئے ایسی غزلوں اور گیتوں کا انتخاب کرتے ہیں جو عورتوں سے منسوب ہوتی ہیں یا جن میں نسوانی خواہشات کی تسکین ہوتی ہے ۔ہمارے وقتوں میں یہ گیت ہیجڑوںکا فیورٹ ہوا کرتاتھا جو فلم ''امرائو جان ادا ‘‘ کے لئے فلمسٹار رانی بیگم پر فلمبند کیاگیاتھا اور جس میں رانی ناچتے، ناچتے گیت کے اختتام پر قالین پر گر کر اداکار شاہد کی بانہوں میں جان دے دیتی ہیں ۔ یہ گیت ملکہ ترنم نورجہاں نے گایاتھا اور اس کی استھائی کچھ یوںہے: 
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں 
آخری گیت سنانے کے لئے آئے ہیں
گروپ کا مرکزی ہیجڑہ رانی بیگم کی نقالی کرتے ہوئے ناچتے، ناچتے قالین پر گرنے کے بجائے پکی گلی میں ہی گر کر اپنے گوڈے گٹے (گھٹنے اور ٹخنے ) چھیل لیاکرتا ۔ہم چونکہ اپنے بچپن سے ہی فن کے قدر شناس واقع ہوئے ہیں، اس لیے ہیجڑوں کی اسی جارحانہ قسم کی پرفارمنس کو کلاسیکل آرٹس کی کیٹیگری میں شمار کرتے رہے۔ ناہید صدیقی ، مہاراج کتھک ، ستارہ دیوی اور برجو مہاراج کے رقص سے لطف اندوز ہونے کے مواقع تو بعد ازاں میسر آئے۔ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے گیت ''ساڈا کیہ اے، اللہ ای اللہ‘‘ ''وے سونے دیا کنگنا ں ‘‘ اور ''لڈی ہے جمالو‘‘ہیجڑوں کے آل ٹائم فیورٹ سونگز ہیں۔کئی ایک دلیر اور کسرتی ہیجڑے آشا بھوسلے اور لتا منگیشکر کے گائے گیتوں کو بھی ہاتھ ڈالنے سے باز نہیں آتے تھے۔ ہیجڑے کا دل جب کلاسیکل آئیٹم سونگ پرفارم کرنے کو چاہتا تو وہ سیدھا ''رام تیری گنگا میلی ہوگئی ‘‘ کو مشقِ سخن بناتا ۔ہیجڑہ رومانٹک ہوتا تو بھارتی فلم ''فقیرا‘‘ کا شبانہ اعظمی پر فلمایایہ گیت پرفارم کرکے اپنی نسوانی خواہشات کو تسکین پہنچاتا ''دل میں تجھے بٹھا کے، کر لوں گی بند آنکھیں، پوجا کروں گی تیری ،ہوکر رہوں گی تیری ‘‘۔اس گیت میں کسرتی ہیجڑے کے پاس کلاسیکی رقص اور نرت بھائو کا پورا مارجن ہوا کرتا جس کا مظاہرہ وہ گلی محلے میں سرعام کرتے ہوئے اپنے ہیوی ڈیوٹی فنکارانہ جذبات کو تسکین پہنچایا کرتا۔ 
بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ اندھادھند ناچتے ہوئے کوئی ہیجڑہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور گرو کو زخمی کربیٹھا ۔بس پھر کیاہوتا‘ گرو اونچے سُروں میں اپنے کوڑھ چیلے کو مردانہ اورزنانہ قسم کی ایسی بد دعائیں دیا کرتا کہ الامان والحفیظ۔ ہیجڑوں کے بارے میں کہاگیاہے کہ ان کے ساتھ لڑنا نہیں چاہیے ،کیونکہ ان کی گالیاں زنانہ اورگھسن مر دانہ ہوتے ہیں۔موسیقی کے قواعد وضوابط کے مطابق ہیجڑے اُونچے سُروں میں گاتے ہیں لیکن قوالوں کے سُر سب سے اونچے ہوتے ہیں ۔ کیا کسی مخلوق کے سُر قوالوں سے بھی اونچے ہوتے ہیں ؟
میرے سوال پر نام صیغۂ راز میں رکھنے کے وعدہ پر ایک قوال نے مجھ سے کہاکہ اونچے سُروں کی مناسبت سے سیاستدان بھی قوال ہی ہوتے ہیں ۔میں نے وجہ پوچھی تو بولا جب تک کلام کو قوالی کی دُھن اور سُروں میں ترتیب نہ دیاجائے سامعین ( عوام ) متوجہ نہیں ہوتے۔قوال گرم دیکھا تو میں نے فوراً اگلاسوال داغا۔توپھر بتائیے عمران خان اور قادری کس سُر سے سیاست کررہے ہیں اور نوازشریف کن سُروں سے دفاعی سیاست کررہے ہیں؟قوال نے منہ میں رکھے پان کی پچکاری زمین پر ماری اور دائیں آنکھ مارتے ہوئے بولا! اپوزیشن چھوتے کالے (باجے کے انتہائی اونچے سُروں) کی سیاست کررہی ہے جبکہ حکومت تغزلیہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔ مراد یہ ہے کہ نوازشریف نیچے سُروں کی سیاست کررہے ہیں جس طرح مہدی حسن اور جگجیت سنگھ غزل گایاکرتے تھے۔ اس نے مثا ل دیتے ہوئے غزلوں کی دواستھائیاں نوٹ بھی کروادیں ''تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘‘ '' تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا‘‘۔ عمران خان کی ''پکڑتان‘‘ حکمرانوں کی کرپشن ہے جو ایک عرصہ سے مشہور ہے۔ پکڑ تان سے مراد وہ سُر ہیں جو راگ کی پہچان ہوتے ہیں اور کلاکار اس کا استعمال بار بار کرتاہے۔ قوال نے کہاکہ قادری صاحب اپنے انقلابی خطاب میں اکثر باجے کے چوتھے سُر کو دیکھتے ہیں ۔جوشِ خطابت میں ایسی چانگڑ (چنگھاڑنا) مارتے ہیں کہ 'قوال ہے محوِتماشائے لب ِبام ابھی‘۔ 
قوال تجزیہ نگار نے دیگر سیاستدانوں کی سیاست کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایاکچھ یوں ہے کہ چوہدری شجاعت کی آواز کو موسیقی کی اصطلاح میں دُربل سُر کہاجاتاہے جس کا مطلب کمزور سُر ہوتے ہیں لیکن ان کی سیاست کمزور نہیں۔ وہ اپنے دُربل سروں سے ہی ہربار بڑے آرکسٹرا میں شامل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بڑے کلاکار سمجھتے جاتے ہیں۔چوہدری پرویزالٰہی کو پاکستان کی سیاست میں آمریت کا قطب نما سمجھاجاتاہے ۔ان کے منشور میں 10باروردی کو قبول کرنے کا یک نکاتی ایجنڈا نمایاں رہا۔ ویسے باجے کے سُروں کے اعتبارسے پہلااور دوسرا کالاچوہدری پرویزالٰہی کی سیاست کے لئے مخصوص ہے۔ پہلا اور دوسرا کالا باجے کے نیچے سُرہوتے ہیں لیکن یہ سُر اگر بڑے آرکسٹر ا سے مل جائیں تو پھر پورے پانچ سال محفل قائم دائم رہتی ہے۔الطاف حسین کے سُر وں کو واشگاف کہاجاسکتا ہے۔وہ اونچے سُروں کی سیاست کرتے ہیں۔ کلام کا انتخاب کرتے ہوئے ف،ق اور عین غین صاف اور مصفیٰ ہوتا ہے۔ ان کی مترنم آواز کے بغیر جمہوریت کے گیت اور آمریت کے ترانے سجتے نہیں ہیں۔
خادم اعلیٰ کا اندازِ سیاست اور خطابت موسیقی کی اصطلاح میں (پلٹے بازی) جیسا ہے۔پلٹے سے مراد سرگم کرنا ہوتاہے جیسے قوال (گاما دھانی، گامادھانی،گامادھانی )کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری مدھ استھان (نیچے سروں) میں وزیر اعظم نوازشریف کے کان میں سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔شیخ رشید کی سیاست کا سُر قوالوں والا ہے۔ آپ حالیہ سیاست کی قوالی میں لیڈ ووکلسٹ کی حیثیت سے اپنا رنگ جمائے ہوئے ہیں۔ان کا شمار ایسے کلاکاروں میں ہوتا ہے جو فن کے اعتبار سے تو اساتذہ کے رتبے پر فائز ہیں مگر انہیں اپنی کلا کے اظہار کے لئے تان کپتان کے جلسوں میں قوالی کرنا پڑتی ہے۔وہ ہلکی پھلکی موسیقی سمیت پکے راگ لگانے کے بھی ماہر ہیں۔ ماضی میں جمہوریت کی غزلیں بھی گاتے رہے مگر آمریت کی کافیاں ،ٹھمریاں اور دادرے گانے میں ان کا کو ئی ثانی نہیں۔ کپتان کی قوالی پارٹی سے علیحدہ ہوکر استاد جاوید ہاشمی کی حیثیت (اک تارے) جیسی ہوگئی ہے جس سے صرف ( ٹونن ٹونن ٹونن) کے ایک ہی سُر کی آواز آتی ہے ۔ شاہ محمود قریشی کی پوزیشن بھی شیخ رشید جیسی ہے۔ وہ اونچے سُروں کی اپنی قوالی کپتان کے پنڈالوں میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ملتان میں عمران کھمبے پر چڑھے تو ان کا ہاتھ درجنوں چاہنے والوں نے تھاما، پیچھے شاہ محمود قریشی تھے جنہیں اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑا۔ 
آج کی آخری بات سن لیں ! 88ء میں جب آئی جے آئی بنائی گئی جس کے لیڈروں میں نوازشریف ، غلام مصطفیٰ جتوئی اورمولانا فضل الرحمن سمیت دیگر جماعتوں کی کل تعداد 9تھی ۔ اور سب کے سب محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سیاسی جنگ میں مصروف تھے‘ تب ایک سچے کلاکار نے کہاتھاکہ آئی جے آئی اور بے نظیر بھٹو کے مابین چھڑی جنگ ایسے ہے جیسے لتا منگیشکر سے قوال لڑرہے ہوں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں