"TSC" (space) message & send to 7575

2015ء کے سیاسی حروف تہجی

بعض اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے موجودہ سیاسی نظام اورجمہوریت کو گالی دینے پر محسوس کیا گیا ہے کہ معاشرے میں سیاست، جمہوریت ، عدا لت اور عام انتخابات سے متعلق عوام خصوصاً نوجوان نسل میں احترام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی اہمیت کو اجاگر کیاجائے۔اس ضمن میں وزیر اعظم میاں نوازشریف نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کی مناسب مشاورت سے اردو،انگریزی اور مطالعہ پاکستان کے پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک کے نصاب میں ترامیم کریں ۔اس اہم کام کیلئے انہوں نے صرف 2ماہ کا عرصہ دیا ہے۔ بیان میں تجویز کیاگیاہے کہ ملک کی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لئے جمہوریت کے کلیدی کردار کو اجاگر کیاجائے ۔نصاب میںترامیم لانے کیلئے میڈیا کی آزادی ،آزادی اظہار، انتخابات اور عدلیہ جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔ترمیم شدہ نصاب کو ملک کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے اگلے تعلیمی سال میں شامل کرنے کی ہدایت کی گئی جس میں سرکاری اورنجی دونوں ادارے شامل ہوں گے۔
آئیے غور کرتے ہیں کہ نواز لیگ کی حکومتی اورجمہوری ترجیحات کے مطابق اردو میڈیم ''ٹاٹیرین سٹوڈنٹس‘‘ ( ٹاٹ سکولوں کے بچے)کو 2015ء میں کیا پڑھنا چاہیے؟ انگریزی میڈیم سکولوں میں بچے کیا پڑھیں گے اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا سلیبس ہمیشہ کی طرح برطانیہ اور امریکہ سے امپورٹ ہی کیاجائے گا۔ وزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے نئے سلیبس کے لئے چونکہ صرف 2ماہ دئیے گئے ہیں‘ اس لیے یقینا ہمارے آج کے قومی معمار سر جوڑ کر شبانہ روزمحنت کررہے ہوںگے کہ ایسا تعلیمی نصاب اور سلیبس وضع کر لیاجائے جسے رائج کرنے کے بعدقوم ووٹ کی اہمیت اورجمہوریت کی اصل روح کو پہچان لے۔جہاں یہ ضروری ہے کہ قوم کو جمہوریت کے اسباق پڑھائے جائیں وہاں یہ بھی خیال رکھاجانا چاہیے کہ وہ کون سے غیر جمہوری باب ہیں جنہیں قاعدوں اور کتابوں کے ساتھ ساتھ کم سن اور بالغ ذہنوں سے مٹاناضروری ہے ۔اس خیال اور احتیاط کا دبیز عکس پہلی جماعت سے لے کر ایم اے تک دکھائی دینا چاہیے۔ 2015ء کاماڈل قاعدہ اور اس میں تحریف کئے حروف تہجی کیاہوں گے اس کانمونہ حاضر ہے۔
''الف‘‘ سے استعفیٰ، ایمرجنسی، انقلاب، امپائر اور اسٹیبلشمنٹ جیسی اصطلاحات سے احتراز برتتے ہوئے ''الف‘‘ سے انتخابات ، ایوان بالا اور ایوان زیریں جیسے اداروں کی عزت ،احترام اور قومی زندگی میں ان اداروں کی اہمیت کو اجاگر کیاجائے گا۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قاعدو ں کتابوں اور قصے کہانیوں میں سچائی کا علم بلندرکھاجاتا ہے مگر معروضی اور سیاسی حقیقتیں کچھ اور ہوتی ہیں ۔ہم اپنی کتابوں میں اسٹیبلشمنٹ کا تذکرہ چاہے نہ کریں لیکن سیاست سے صحافت تک ریاست کے ہر ادارے پر اس کا اثر ایک اٹل حقیقت ہے۔الف کے بعد ''آ‘‘ ہوتاہے جس سے آئین تشکیل پاتا ہے لیکن اگر ''آ‘‘ سے آمر بنادیاجائے تو پھر ''الف‘‘ سے لے کر ''ی‘‘ تک باقی سب حروف تہجی سکڑ کر اسی میں سماجاتے ہیں۔ 
نئے قاعدے میں بھی ''ب‘‘ سے بجلی اور بحران جیسے الفاظ لکھنے کی بجائے سانحہ بارہ اکتوبر کا حوالہ دیا جائے گا۔یہ وہی سانحہ ہے جب جنرل پرویز مشرف نے نون لیگ کی ہیوی مینڈیٹ حکومت پر قبضہ جمایاتھا۔ہمارے ہاں ''ب‘‘ سے باغی ، بوٹ، بلا (بیٹ) اوربلاول بھٹو بھی اہمیت کے حامل ہیں۔نئے قاعدے میں بھی ''ب‘‘ سے بھارت کو ازلی دشمن ہی قراردیا جائے گا۔ایسا نہ کیاگیاتو حب الوطنی پر مبنی ملی نغموں اور قومی گیتوں پر مشتمل گریٹ آرکائیوکے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے‘ لہٰذا ایسانہیں ہوناچاہیے۔نئے حروف تہجی کے مطابق ''پ‘‘ سے پاکستان اور پارلیمنٹ کے تقدس پر زور دیاجائے گا۔ ''پ‘‘ سے پرویز رشید بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ ''پ‘‘ سے پرویز مشر ف بھی ہوتا ہے‘ اس لیے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ نہ کیاجاسکے گا۔ ''پ‘‘ سے پاکستان پیپلز پارٹی بھی ہوتی ہے جو ''پ‘‘ سے پنجاب میں اپنے دوسرے جنم کے لئے کمربستہ دکھائی دیتی ہے۔ ''پ‘‘ سے پنکچر بھی ہوتے ہیں۔ سیاست میں یہ اصطلاح عمران خان نے متعارف کرائی ہے جس کے معنی انتخابی دھاندلی کے ہیں۔ یقین ہے کہ ایسے غیر ضروری الفاظ کو سلیبس سے دور رکھاجائے گا۔ ''ت‘‘ سے تخت لاہور ہوتاہے جس کے وجود کو ''ت‘‘ سے ہی تحریک انصاف سے خطرات لا حق ہوجاتے ہیں۔ ''ت‘‘ سے تبدیلی بھی ہوتی ہے لیکن واضح کیاجائے گاکہ تبدیلی کے لئے جمہوری اور آئینی راستہ ہی اپنانا ہوگا۔لانگ مارچ، دھرنے، تقریروں اورتوڑ پھوڑ والی تبدیلی عوام کے لئے مضر ہے۔ اس کوشش میں ''ت‘‘ سے تخریب کارقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
''ٹ‘‘ سے ٹرم ہوتی ہے جس کی میعاد ہر حالت میں 5سال رہنی چاہیے۔ ہمارے ہاں ووٹوں کے ساتھ قائم کئی گئی واحد زرداری حکومت تھی جس نے اپنی 5سالہ ٹرم پوری کی مگر اس کے لئے انہیں اس قدر سمجھوتے کرنا پڑے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کی ساکھ ہی کھوبیٹھے۔ ''ٹ‘‘ سے ٹارگٹ کلنگ، ٹیئر گیس اورٹارچر سیل بھی ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں سرکاری اورنجی ٹارچر سیل موجود ہیں۔ ''ث‘‘ سے جمہوریت کے ثمرات بتائے جائیں گے۔ ''ج‘‘ سے جمہوریت کی افادیت بیان کی جائے گی اورثابت کیاجائے گاکہ کس طرح ''ج‘‘ سے جلسے اچھے اوربُرے ہوتے ہیں ۔عمران خان نے تو اپنے جلسوں کو سستے جلسے اور پیپلز پارٹی کے جلسوں کو مہنگے بھی قراردیاہے۔''ج‘‘ سے جن حقیقتوں سے خواہ مخواہ احتراز برتاجائے گا ان میں جنرل جیسا بھاری لفط شامل رہے گا۔ ''ح‘‘ سے حکومت اور حمام دونوں ہی ہوتے ہیں اور حکومتی حمام میں بھی انسان اتنا ہی باپردہ ہوتاہے جتنا کہ اردو کے محاوراتی حمام میں ہوتا ہے۔ ''خ‘‘ سے خادم اعلیٰ ہوتا ہے جن کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ ''خ‘‘ سے خادم اعلیٰ کے سامنے باقی ماندہ تمام اصطلاحات جیساکہ خالی خزانہ اور خیالی پلائو ہوتی ہیں اپنی اہمیت اور افادیت کھودیں گی۔ ''د‘‘ سے دھاندلی ہوتی ہے جس کے ثبوت مٹادیے جائیںتوپھر وہی نظام ِحکومت قبول کرنا ہوتا ہے۔ ''د‘‘ سے دھرنا بھی ہوتا ہے۔ یہ کم از کم 72دن کا ہوتا ہے لیکن کپتان اگر ضد پر اتر آئے تو مرتے دم تک دھرنا جاری رہنے کا اعلان کرتاہے۔
نئے حروف تہجی میں ''ڈ‘‘ سے دی گریٹ ڈار ہوگا‘ جسے لکھنے میں 'اسحاق ڈار ‘ لکھا اورپکارا جائے گا۔ ''ڈ‘‘ سے ڈرون اورڈرامے بازی بھی ہوتی ہے لیکن ایسے الفاظ کو غیر شائستہ قراردے کر سلیبس سے دور رکھاجائے گا۔ ''ذ‘‘ سے ویسے تو ذلت ہوتی ہے لیکن اسے نظر انداز کرتے ہوئے ''ذ‘‘ سے ذرائع ابلاغ کی اہمیت ،افادیت اور فعالیت کادرس دیاجائے گا۔ ''ر‘‘ سے ریاست ، راج دھانی اور راج پاٹ کے علاوہ ریفرنس ہوتا ہے ۔ریفرنس اگر مس ہینڈل ہوجائے تو چیف جسٹس کی جیت اورجنرل کی ہار ہوتی ہے۔ ''ر‘‘ سے ریل بھی ہوتی ہے جو ہمارے ہاں عجائب خانے میں رکھے جانے کے لائق ہے۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اپنے محکمے کے لئے کچھ کریں یا نہ کریں اپنے تیزابی بیانات سے حکومت کے لئے خطرات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ''ڑ‘‘ سے ویسے تو کچھ نہیں ہوتامگر رائی کا پہاڑ ''ڑ‘‘ کے بغیر نہیں بنایاجاسکتا ۔توڑ پھوڑ ، اکھاڑ پچھاڑ ، پکڑ دھکڑ اور لگڑ بگڑ جیسے اہم جانور اور ضروری کام ''ڑ‘‘ کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتے۔ ''ز‘‘ زرداری ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہاجاتاہے ایک زرداری سب پہ بھاری۔ ''س‘‘ سے سلطنت اور سپریم کورٹ کے علاوہ سینئر بھی ہوتاہے ،ہمارے ہاں تاریخ میں اکثر سینیارٹی کا خیال نہیںرکھا گیا۔ ایک مرتبہ 8 سینئرز جرنیلوں کو پیچھے چھوڑ کر جونیئر کو چیف بنایاگیا جس نے اپنے اور قوم کے محسن منتخب وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیاتھا۔دوسری مرتبہ جونیئر کو سینئرز پر فوقیت دی گئی تو بارہ اکتوبری بھی ہوئی اور کارگل بھی برپا ہوا۔ ''ش‘‘ سے شیر ہوتاہے جو نون لیگ کا انتخابی نشان ہے۔ کسی زمانے میں شیر کو جنگل کا بادشاہ تصور کیاجاتاتھا مگر نیشنل جیوگرافک چینل میں پیش کی جانے والی ڈاکومنڑیزمیں دکھایاگیاہے کہ چارپانچ لگڑ بگڑ اگر اتحاد کرکے شیر پر حملہ آور ہوجائیں تو شیر کو نہ صرف بکری بنادیتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں وہ اسے چیر پھا ڑ کر ڈکا ربھی نہیں مارتے ۔باقی ماندہ حروف تہجی اور نیاسیاسی سلیبس آئندہ پیش کروں گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں