"TSC" (space) message & send to 7575

ٹائیگر نیازی اور جنگی ترانے

ایک ٹاک شو میں پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا اور پی ٹی آئی کے مراد سعید کے مابین ''تو تو میں میں‘‘ سنی تو وہ پاکستانی فلمیں یاد آ گئیں‘ جن کی وجہ سے قومی فلم انڈسٹری مرحومہ اور مغفورہ کا درجہ پا چکی ہے۔ ان فلموں میں موضوعاتی، تکنیکی اور جمالیاتی خامیاں تو بدرجہ اُتم پائی جاتی تھیں‘ مگر جذباتی ڈائیلاگ اور ہیوی بیک گراونڈ میوزک کے باعث کانوں پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی۔ ٹاک شوز بھی ہماری پنجابی فلموں کا روپ دھار چکے ہیں۔ ان پر تفصیل سے بات پھر کسی دن ہو گی‘ مذکورہ ٹاک شو کی طرف چلتے ہیں۔ دونوں سیاسی سلیبرٹیز ایک ساتھ بول رہیں تھیں۔ شہلا رضا بار بار عمران خان کو ''عمران نیازی‘‘ کہہ رہی تھیں جبکہ مراد سعید اپنے پشتو لہجے میں تیزی سے اردو بولتے ہوئے اصولوں کی سیاست اور سچائی کا سبق دے رہے تھے۔ مراد سعید کی اردو سن کر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے قول زریں کا ردیف قافیہ یاد آیا کہ ''اردو اردو ہوتی ہے‘ چاہے مراد سعید بولے‘ چاہے شہلا رضا‘‘ 
شہلا رضااور مراد سعید دونوں اہل زبان ہیں۔ شہلا رضا اُردو سپیکنگ ہیں جبکہ سعید مراد پشتو سپیکنگ‘ لیکن دونوں کو اگر اہل زبان کا درجہ نہ دیا گیا تو کہا جائے گا کہ وفاق صوبے سے زیادتی کر رہا ہے۔ شہلا رضا جب بھی عمران خان کو نیازی کہتیں‘ مراد آگ بگولا ہو کر نون لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی کے مبینہ میثاق جمہوریت کے طعنے دینے لگتے۔ شہلا رضا پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان کو طنزاً عمران نیازی کہہ رہی تھیں‘ جس سے گرم باز مراد سعید شعلہ بیاں ہو رہے تھے۔ سب سے پہلے آصف علی زرداری نے عمران خان کو عمران نیازی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد شرجیل میمن اور شہلا رضا سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے بھی عمران خان کے اصلی اور سیاسی برانڈ نیم کی بجائے انہیں عمران نیازی کہنا شروع کر دیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے لاہور، فیصل آباد، کراچی اور پاکستان بند کرنے کی تاریخ 4، 8، 12 اور 16 دی گئی تھیں۔ پاکستان کا بچہ، بچہ جانتا ہے کہ 16 دسمبر کے دن مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تھا۔ یہ دن ہمارے ہاں سقوط مشرقی پاکستان کے نام سے پوری قوم کو یاد ہے۔ نامور صحافی عباس اطہر شاہ جی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ''مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تاریخی المیہ کو ''سقوط‘‘ کے مشکل لفظی تابوت میں دفن کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے‘‘۔ تاریخی حقائق اور قومی سانحات کو مبہم عنوانات دینے سے تکلیف کم ہو سکتی ہے‘ نہ ہی حقیقت بدل سکتی ہے۔ 
16دسمبر 1971ء کی صبح کے 9 بجے ہیں۔ ڈھاکہ شہر پہ اُداسی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں کہیں سے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ہزاروں افراد ہاتھوں میں نیزے اور آنکھوں میں شعلے لئے ریس کورس میدان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اچانک انسانوں کے ہجوم میں فوجی گاڑیاں رونما ہوتی ہیں۔ 9 بجکر 10 منٹ پر پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی المعروف ٹائیگر نیازی ریس کورس میدان میں پہنچتے ہیں‘ جہاں بھارتی افواج کے سامنے پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کئے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے کچھ دیر پہلے تک ریڈیو لاہور سے عنایت حسین بھٹی کا گایا یہ جنگی ترانہ گونج رہا تھا: 
غازیاں اُتے کرم نبی دا (غازیوں پر کرم نبی کا) 
رب دے رنگ نیارے نیں (رب کے رنگ نیارے ہیں)
ساڈے صرف بتالی شیراں (ہمارے صرف بیالیس شیروں نے) 
پنج سو چالی مارے نیں (پانچ سو چالیس مارے ہیں)
اس جنگی ترانے کے انترے میںکورس اونچے سُروں میں یہ مصرعہ بار بار دہراتا تھا ''مشرق دے میدان دے اندر گجیا خان نیازی جے‘‘ (مشرق کے میدان کے اندر خان نیازی گرجا ہے)۔ مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہو رہا تھا جبکہ ریاست کا تابع فرمان میڈیا اسے محبت کے زمزم کا بہنا قرار دے رہا تھا۔ عوام کو بتایا جا رہا تھا کہ بنگالی ہم سے علیحدگی نہیں چاہتے‘ وہ ہمارے ساتھ محبت کے اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، علاوہ ازیں مشرق میں ٹائیگر نیازی نے باغی بنگالیوں اور بھارتیوں کو شکست فاش دی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے کہا تھا کہ مشرقی پاکستان جانے والے میری لاش پر سے ہی گزر کر جائیں گے۔ وزیراعظم کی تقریر لکھنے والوں کو مطالعہ پاکستان کے ٹیسٹ پیپر اور گیس پیپرز پڑھ لینے چاہئیں۔ یہ تاریخی ڈائیلاگ جنرل یحییٰ نے نہیں جنرل ٹائیگر نیازی نے بولا تھا۔ ٹائیگر نیازی نے یہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ ڈھاکہ کے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں ادا کیا تھا۔ سول نافرمانی، قتل و غارت گری اور بغاوت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ پاکستانی حکومت انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل ڈھاکہ میں سکڑ گئی تھی۔ ٹائیگر نیازی کے ڈائیلاگ کی گونج ابھی فضائوں میں سنائی دے رہی تھی کہ یہ منحوس خبر آ گئی کہ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا ہے۔
مشرقی پاکستان کے سانحے کے وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی‘ لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت کے میڈیا‘ جو ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور ڈائجسٹ وغیرہ پر مشتمل تھا‘ میں تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ ہم ناقابل تسخیر قوم ہیں، ہم ہمیشہ جیتنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن حقیقت یہ نہیں تھی، قیام پاکستان کے صرف 24 سال بعد پاکستان کا نصف سے زیادہ حصہ ہم سے علیحدہ ہو چکا تھا۔ وہ حصہ جہاں سب سے پہلے انڈیا کے مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھائی گئی اور جو پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا اصل مقام تھا۔ تین روز بعد 16دسمبر کے دن ہم اس سانحے جسے ''سقوط مشرقی پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ کا سوگ منائیں گے۔ 16دسمبر وہی دن ہے جس دن عمران خان نے پورا پاکستان (جو دراصل آدھا رہ گیا ہے) بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے رہنما سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے اور اس کے ذمہ داران میں شامل جنرل ٹائیگر نیازی کے تاریخی کردار کی مناسبت سے عمران خان کو ان کی گوت‘ جو نیازی ہے‘ کا طعنہ دے رہے ہیں۔ 
وزیر اعظم کی طرح عمران خان کے مشیروں کا حافظہ بھی کمزور لگتا ہے‘ اسی لئے انہوں نے 16دسمبر اور اس نحس دن کے ساتھ منسوب ٹائیگر نیازی کے کردار کو فراموش کر دیا۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جنگی اور ملی ترانوں سے ملک و قوم کی تقدیر نہیں بدلا کرتی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما عمران خان کو نیازی ہونے کا طعنہ دے کر انہیں ٹائیگر نیازی سے منسوب کر رہے ہیں حالانکہ نیازیوں میں گلوکاروں اور گلوکارائوں کے لالہ بھی شامل ہیں۔ عطااللہ عیسی خیلوی فنکار برادری کے لالہ ہونے کے ساتھ ساتھ نیازی بھی ہیں اور اپنے دوست اور لیڈر عمران خان کے لئے قبل از منصبِ وزیراعظم گیت اور ترانے گا رہے ہیں۔ عطااللہ نیازی کا گایا ترانہ بھی عنایت حسین بھٹی جتنا ہی مقبول ہو چکا ہے: 
جب آئے گا عمران‘ سب کی جان 
بڑھے گی اس قوم کی شان 
بنے گا نیا پاکستان 
یہ محض اتفاق ہے کہ عمران خان نیازی ہیں اور عطااللہ عیسی خیلوی کا تعلق بھی پٹھانوں کے نیازی قبیلے سے ہے۔ اور یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ عمران خان اور عطااللہ دونو ں سے پہلے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان بھی نیازی تھے۔ اس نسبت کا طعنہ آج پاکستان بند کرنے پر عمران خان کو دیا جا رہا ہے۔ فنِ موسیقی کے حوالے سے 65ء کی جنگ کی فاتح نور جہاں تھیں‘ جنہیں اس کے بعد ملکہ ترنم کا خطاب دیا گیا تھا۔71ء کی جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں اور عنایت حسین بھٹی کے ساتھیوں نے کئی ایک جنگی ترانے گائے تھے‘ جن میں بھارتیوں کو شکست دی جا رہی تھی مگر حقیقت میں ہم ہارے تھے۔ عمران خان نے غالباً انجانے میں 16 دسمبر کے دن پاکستان بند کرنے کا اعلان کیا تھا‘ جسے بعدازاں واپس تو لے لیا گیا مگر کراچی، لاہور اور پاکستان بند کرنے کا پلان سی واپس نہیں لیا گیا۔
لالہ عطااللہ نیازی سے میری درخواست ہے کہ جس طرح سینئر گلوکار عنایت حسین بھٹی مرحوم نے پاکستان کی فتح ٹائیگر نیازی سے منسوب کی تھی، پاکستان کی تعمیر و ترقی اور فتح کو صرف عمران خان کی جیت سے منسوب نہ کریں۔ نئے پاکستان کی تعمیر میں عمران خان سمیت سب کو شامل ہونا چاہیے اور لالے عطااللہ نیازی کو پاکستان کی جیت کے گیت گانے چاہئیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں