"TSC" (space) message & send to 7575

جنت اور جہنم

قبرستان میں عموماً عمر رسیدہ لوگوں کے جنازے لائے جاتے ہیں۔ جو لوگ طویل طبعی عمرگزار کر انتقال کر تے ہیں، ان کے لواحقین بھی اپنے بزرگوں کو قبر میں اتارنے کا دکھ کبھی بھول نہیں پاتے۔ پشاورکے آرمی پبلک سکول اور وطن عزیزکے دوسرے شہروں میں شہید ہونے والے بچوں کو ان کے آبائی قبرستانوں میں دفنا دیاگیا ، چھوٹے چھوٹے جنازے اور ننھی منی قبریں قبرستان کی ویرانی کو اور بھی ویران کر گئی۔ سب کو ایک دن کفن پہننا ہے لیکن رنگ برنگے کپڑے پہننے اور کھیلنے کودنے کے دنوں میں ہی قبروں میں لیٹ جانے والوں کو ہم کبھی نہ بھلا پائیں گے۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچے نے‘ جو دہشت گردوںکی وحشیانہ فائرنگ سے شدیدزخمی ہوگیا تھا، اپنی ہوم ورک بک میں لکھا: ''میں یہ سب اللہ کو بتائوں گا‘‘۔ 
جی ایچ کیواور جنرل مشرف پر حملے کے دومجرموںکو فیصل آباد جیل میں پھانسی دے دی گئی ۔ پھانسی پانے والے مجرموں میں عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اورارشد محمود عرف ارشد مہربان شامل ہیں۔ عینی شاہدین نے بیان کیا کہ دونوں دہشت گرد اپنے کیے پر شرمندہ تھے اور پھانسی گھاٹ کو دیکھ کر تھرتھرکانپ رہے تھے۔ وہ اعتراف کررہے تھے انہوںنے ناحق بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا، پروردگار انہیں معاف فرمائے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ دونوں دہشت گرد پھانسی گھاٹ پر پُر سکون تھے اور تختہ دار پر جھولنے سے قبل انہوں نے مذہبی نعرے بلند کیے۔کسی بھی یک طرفہ اطلاع کو سچ نہیں سمجھ لینا چاہیے ۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ہمیں جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے وہ بھوک ، ننگ ، افلاس اورجہالت کے بطن سے جنم لے رہی ہے۔ خطے میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بچائو اور پھیلائو اور سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کے لیے افغانستان کو میدان جنگ بنایاگیا ۔ اس کاروبار میں ڈالروں کے عوض ، ہمارے کچھ مہربانوں نے ملا فضل اللہ اینڈ کمپنی جیسے ''روبوٹ اور ریموٹ کنٹرول مُلّا‘‘ پیدا کیے۔ جب ملافضل اللہ جیسے کوچ اور استاد پیدا ہوگئے تو پھر بڑی کھیپ تیارکرنے کے لیے مدرسوںکی 'پولٹریاں ‘ ان علاقوں میں انسٹال کی گئیں جہاں مخصوص طرز فکر کے چوزے پیدا کرنے کے لیے 'انڈے‘ انتہائی سستے داموں دستیاب تھے۔ اس گھنائونے جنگی کاروبار کا ناک نقشہ اس وقت بدلا جب امریکہ ، افغانستان سے واپس چلا گیااور اس نے جنگی انڈسٹری پر مزید انوسٹمنٹ بند کردی ۔ نائن الیون کا سانحہ اس گھنائونے ہاف ٹائم کی بعد کی فلم ہے، جب امریکہ اپنے اتحادیوں (نیٹو فورسز ) کے ساتھ افغانستان میں دوبارہ آ گیا۔ 
پا کستان اور افغانستان کے مابین 2,640کلومیٹر طویل سرحد مشترک ہے جس پر چھوٹے موٹے ٹیلوں اورگھاس پھوس کے سوا کچھ نہیں۔ سیکڑوں سال سے افغان جنگجواس خطے میں حملہ آور ہوتے اور لوٹ مار کر کے واپس جاتے رہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا تھا لیکن اس مائنڈ سیٹ میں شدت اس وقت آئی جب افغان جہاد میں اس کی سرپرستی ریاست نے فرمائی ۔ اس پیچیدہ شکل اورگھنائونی انڈسٹری کی دوانتہائیں ہیں۔۔۔۔ ایک طرف تواس کے پیچھے دنیا میں boss (سردار) سمجھی جانے والی اقوام کی ناجائز دولت ہے اور دوسری طرف بھوک ،ننگ ،افلاس اور جہالت ۔ یہی ریموٹ کنٹرول، ملا فضل اللہ کے سستے روبوٹ ہیں جو اس عارضی دنیا میں دو وقت کی روٹی اور دوسری دائمی دنیا میں جنت ملنے کے مستقل وعدے پر پشاور آرمی پبلک سکول میں 132معصوم بچوں اور 16بڑوں کو زندہ جلادیتے ہیں۔ ان وحشیوں کی ذہنی حالت کا اندازہ ان کی ظالمانہ کارروائی سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ معصوم بچوں کو قتل کرنے کا امتحانی پرچہ حل کرکے انعام میں جنت پانے کو اپناایمان سمجھے ہوئے ہیں۔ کیا اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کے لیے صرف پھانسیاں کافی ہوں گی۔۔۔ ؟
یہ ایک پیچیدہ بریڈ (نسل ) ہے جو ہمارے ہاں سستے داموں بہتات سے پیدا ہو چکی ہے۔ بات اتنی سیدھی نہیں جتنی سمجھی جارہی ہے۔گزشتہ 35 برسوں کی جہادی ڈاکٹرائن بدل گئی، سابق پیارے اور سٹریٹیجک اثاثے اب ملک وقوم کے دشمن سمجھے جارہے ہیں، لیکن اب بھی ان کے حق میں نعرے بلند ہورہے ہیں۔ 132بچوںکے قتل کے بعد بھی لال مسجد کے خطیب عبدالعزیز نے بڑی عجیب تاویل پیش کی۔ ہمارے ہاں ایسے ڈاکٹر اورعلما بھی عزت واحترام پاتے ہیں جو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سرعام قتال کا فتویٰ دینے سے نہیںکتراتے ۔ 
جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور جنرل مشرف پر حملہ کرنے والے ارشد مہربان کو تو پھانسی دے دی گئی، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکے ورثا کو انصاف کب ملے گا ؟ جنرل مشرف تو فول پروف سکیورٹی کے باعث زندہ سلامت ہیں لیکن سلمان تاثیر اپنے سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں سرعام قتل کردیے گئے۔ سویلین لیڈر شپ کو بھی قوم کا اثاثہ سمجھتے ہوئے ایسے مقدمات میں بھی انصاف کو متحرک کرنا ہوگا۔
اعداد وشمار کے مطابق کروڑوں بچے سکول اور تعلیم کی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں اورجو بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے لیے پانچ مختلف قسم کے تعلیمی نظام رائج ہیں۔۔۔۔ مہنگی اور امپورٹڈ ایجوکیشن، مڈل کلاس اور انگریزی میڈیم ایجوکیشن، پرائیویٹ اردو اور انگلش میڈیم ، سرکاری اردو میڈیم اور دینی مدارس وغیرہ ۔ جس ملک میں پانچ مختلف اقسام کی نظام تعلیم رائج ہوں گے وہاں ایک ایسی نسل اورقوم پیدا کرنا اممکن نہیں جس کی نگاہ میں دین اوردنیا کے مسائل اور فضائل ایک جیسے ہوں۔ جیساکہ عرض کیاگیا، دہشت گردی کا مسئلہ پیچیدہ ہے ، اسے آسان سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سانحہ پشاور کے سلسلے میں غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد بھی لی جارہی ہے جن کے نیٹ ورک نے اس سلسلے میں انتہائی اہم کھوج لگایا ہے۔
بتایا گیاہے کہ سانحہ پشاور جس میں 132معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل کیا گیا، دہشت گردوں کے اس ظالمانہ آپریشن کے ماسٹر مائنڈز میں پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر بھی شامل تھا جو گزشتہ سال برطانوی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائی کے پیش نظر فرار ہوکر طالبان میں شامل ہوگیا تھا۔ ڈیلی میل کے مطابق39 سالہ مرزا طارق علی تقریباً ایک دہائی تک لند ن اور کیمبرج میں بطور سرجن کام کرتا رہا اور مشرقی لندن کے مشہور شدت پسند انجم چودھری کے ساتھ مل کر شامی جنگجوئوں کے حق میں مہم چلانے پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیاگیا تھاجس کے بعد وہ برطانیہ سے فرار ہوگیا۔ سینئر انٹیلی جنس افسران کے مطابق آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے دوران دہشت گردوں کی درجنوں کالز ریکارڈ کی گئیں جن سے ڈاکٹر مرزا طارق علی کے اس سفاکانہ حملے میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
بم دھماکے ، لاشیں ، بارود، گولیاں اور خودکشوں حملے یہ ہمیشہ سے ہمارا مقدر نہیں تھا۔ ہمارا معاشرہ امن ، شانتی ، بردباری، بھائی چارے اور بین المذاہب عزت و احترام کی روایات پر گامزن تھا، لیکن 80ء کی دہائی کے آغاز میں اس دھرتی پر وہ فصل بوئی گئی جسے ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ امریکہ ، سوویت یونین، افغانستان اور بھارت کے علاوہ بعض '' برادرممالک ‘‘ بھی اس سفاک جنگ کے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ ہمیں امن کا رخ روشن دیکھنے کے لیے پھانسیوںکے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ 
اس مشکل گھڑی میں اگرچہ ملک کی سیاسی قیادت نے جس میں حکومت اوراپوزیشن دونوں شامل ہیں ، سنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے لیکن یہ طرز عمل مستقل طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اندیشہ ہے کہ ہفتے دوہفتے بعد کسی نہ کسی ٹاک شو میں کوئی نہ کوئی شہ دماغ اس غیر روایتی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''چپ کا روزہ‘‘ توڑ دے گا اور ہم 132معصوم جانوں کا نذرانہ فراموش کر کے پھر کسی سانحے کے لیے سرجھکائے قطار میں کھڑے ہو جائیں گے۔ باہر سے آنے والوں کو غازی اورفاتح سمجھ کر ہیرو قرار دینے کی نشاۃ ثانیہ کی کتابیں پھاڑکر ہمیں ایک ہی سبق پڑھنا ہوگا کہ زندگی ایک نعمت ہے ، ہم پُرامن لوگ ہیں لیکن جو ہمارے معصوم بچوں کا خون بہائے گا ہم اسے جنت میں نہیں جہنم واصل کریں گے۔ اس سے پہلے ان نرسریوں میں تیار ہونے والی کھیپ کو ایسی زندگی دینے کا اہتمام بھی کرناچاہیے جو اس زندگی کوجہنم سمجھ کر جلد سے جلد جنت جانے کے مشن پرگامزن ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں