"TSC" (space) message & send to 7575

تحفہ

پشاورکے بعد راولپنڈی کاجلسہ طے تھا۔ 27 دسمبر کو راولپنڈی کے جلسے کے اگلے روز محترمہ بے نظیر بھٹو کو لاہور آنا تھا جہاں عباس اطہر المعروف شاہ جی اور میری ان سے ملاقات طے تھی ۔ ہم دونوں محترمہ کو ایک تحفہ دینا چاہتے تھے۔ 2008ء کے عام انتخابات سے قبل شاہ جی نے مجھے اپنی نظم سنائی جس کا عنوان تھا ''بھٹو دی بیٹی آئی جے‘‘ ، آئیڈیا یہ تھاکہ شاہ جی کی لکھی نظم 2008ء کے انتخابات میں انتخابی ترانہ بن کر گونجے گی جس سے محترمہ کی واپسی اور انتخابی مہم ایک تحریک کی صورت اختیار کرجائے گی ، لیکن محترمہ کو قتل کردیاگیا اور یہ نظم نوحہ بن گئی :
ظلم دیاں زنجیراں توڑن
مظلوماں دے رشتے جوڑن 
دُکھ دے دریاواں چوں گزرکے
اپنی جان تلی تے دھرکے
بھٹو دی بیٹی آئی سی
انج جان دی نذر چڑھائی سی
سارے جگ وچ پئی دہائی سی
بھٹو دی بیٹی آئی سی
( ظلم کی زنجریں توڑنے، مظلوموں سے رشتے جوڑنے ، دکھ کے دریائوں سے گزرکے،اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے بھٹو کی بیٹی آئی تھی، یوں جان کی نذر چڑھائی تھی،دنیا میں مچی دہائی تھی، بھٹو کی بیٹی آئی تھی۔)
شاہ جی کی لکھی یادگار نظم کا یہ پراجیکٹ میں نے بڑے شوق سے ڈیزائن اور پروڈیوس کیاتھا ۔27 دسمبر کی سہ پہر موسیقار ساجد حسین چھکو نے اس نظم کا فائنل آڈیو ورژن میرے حوالے کیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دیے جانے والا تحفہ (آڈیو سی ڈی ) میرے ہاتھ میں تھا اور میں پنڈی لیاقت باغ کے جلسے والی بی بی کی تقریر سننے کے لئے ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ گیا۔ شام کے سائے لمبے ہورہے تھے ، ایک اور بھٹوکو قتل کرنے کے لیے لیاقت باغ کو قتل گاہ بنانے کے انتظامات کرلیے گئے تھے۔ بھٹو کی بیٹی نے اپنے خون کی روایت برقرار رکھی اور رجعتی طاقتوں کے خلاف عوامی حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے قربان ہوگئیں۔ بی بی کے ساتھ موقعہ پر ہی 30 پارٹی ورکر بھی شہید ہوگئے جبکہ اتنی ہی تعداد میں پارٹی کارکن ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوگئے ۔ حادثے کے اگلے روز شائع ہونے والے اخبارات میں سنگل کالم خبر مجھے آج بھی یاد ہے : ''جائے حادثہ کو کچھ دیر بعد پانی سے دھودیاگیا ‘‘۔ 
محترمہ کی زندگی کو شدید خطرہ تھا۔ پنڈی سے پہلے پشاور کے جلسے میں بھی ایک خودکش دہشت گردکو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس سے قبل کارساز میں تو پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی ہوئی تھی ۔ 18اکتوبر کو جب بی بی جلا وطنی ختم کرکے کراچی آئیں تو رات 12بجے کارسازکے مقام پر یکے بعد دیگرے دو خود کش دھماکوں میں 155افراد جاں بحق اور 555 سے زائد شدید زخمی ہوگئے،وہ بچ تو گئے مگر ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوگئے ۔ مشرف حکومت کی وزارت دفاع کو 22 مرتبہ تحریری طور پردرخواست کی گئی کہ محترمہ کی زندگی کو خطرہ ہے، ان کے لیے فول پروف سکیورٹی انتظامات کیے جائیں مگر ایسانہ کیاگیا۔ 
محترمہ مسلمان ملک کی پہلی منتخب وزیر اعظم تھیں، وہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی لیڈر تھیں لیکن ریاست اور حکومت نے ان کی حفاظت کرنے کا فرض ادا نہ کیا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ کسی عوامی لیڈر کے حصے ایسا پرجوش استقبال نہ آیاہوگا۔ دشمن قوتیں بھی توقع کررہی تھیں کہ لاکھوں لوگ اپنی لیڈرکو جی آیاں نوںکہنے کے لیے آئیں گے ؛ چنانچہ منصوبہ بندی کے تحت رات 12 بجے کارساز کے مقام پرخودکش دھماکے کرائے گئے جن کا ٹارگٹ محترمہ تھیں مگر وہ ان میں محفوظ رہیں اور بالآخر 27 دسمبر کی شام راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انہیں قتل کردیا گیا۔ 
محترمہ کے قتل کے بعد جائے واردات کو چندگھنٹوں میں پانی سے دھودیاگیا مگر اس سانحے کارنگ اتنا گاڑھا ہے جوکبھی دھویا نہ جاسکے گا۔ محترمہ کے قتل کا معمہ قانون نافذکرنے والے اداروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے جسے کبھی مٹانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ محترمہ کا قتل ان کی سیاسی سوچ اوراپروچ کا قتل ہے جسے شدت پسند اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے، اس لیے انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ 
ہمارے ہاں دہشت گردی کی کہانی بھٹو صاحب کے قتل سے شروع ہوتی ہے۔ اس کہانی کا ایک کردار جنرل ضیاء الحق تھے جن کے گیارہ سالہ دور میں شدت پسندی اور دہشت گردی پروان چڑھی اور پھر ہمارے لیے مستقل عذاب بن گئی۔ 60ہزار سے زائد شہریوں اور آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے قتل کی روح فرسا واردات نے بالآخر عسکری و سیاسی قیادت کے ذہنوں کو بدلا ہے۔ عسکری وسیاسی قیادت دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے اور 1977ء سے جاری داستان کو تبدیل کرنے پر متفق ہوچکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سویلین اور فوجی قیادت صحیح معنوں میں پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست میں کیسے بدلتی ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹوکو ان کے والد ذوالفقار علی بھٹوکی طرح انتخابات کے ذریعے شکست دنیا ممکن نہیں تھا،اس لیے انہیں ختم کردیاگیا۔
ریاست ، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں صف آرا ہوکرکہہ رہی ہیں: ''دہشت گرد ی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے‘‘۔ سوال یہ کہ یہی نعرہ اس وقت کیوں نہیں لگایا گیاجب محترمہ کو قتل کیاگیا ؟ یا ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے جن میں محترمہ جیسی لیڈرکو بچایانہ جا سکا؟ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دورکے اختتام پر بھی محترمہ کو وزارت عظمیٰ سونپی گئی تو اسٹیبلشمنٹ کے وفادار اسحاق خان صدرکے روپ میں ساتھ نتھی کردیے گئے ۔ غلام اسحاق خان وہ صدر تھے جن کے پاس 58 ٹو بی والی جادوکی چھڑی بھی تھی ؛ چنانچہ انہوں نے لگ بھگ پونے دوسال بعد ہی اس آمری چھڑی کے زور سے محترمہ کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ کا رستہ روکنے کے لیے آئی جے آئی بھی بنائی ۔ جنرل ریٹائرڈ حمیدگل ببانگ دہل اقرار کرتے ہیںکہ وہ آئی جے آئی کے خالق تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکو اس ملک کے عوام نے دومرتبہ وزیر اعظم منتخب کیا،اپنی زندگی کے تیسرے انتخاب کے لیے وہ وطن لوٹیں تو بھی عوام کا والہانہ پن بتا رہا تھاکہ ان کا نعرہ بدلا نہیں کہ ''یا اللہ، یارسولﷺ‘ بے نظیر بے قصور‘‘، لیکن انہیں قتل کردیاگیا ۔ محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی قیادت کے فقدان کاشکار ہوگئی۔ پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی افہام وتفہیم کی سیاست کی بدولت پانچ سال اقتدارمیں تو رہی لیکن وہ ریجنل سیاسی پارٹی بن کر سندھ کی حد تک سکڑ گئی جہاں شہری آبادی میں ایم کیوایم کا راج ہے۔ 
1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں محترمہ اور پیپلز پارٹی کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اور انہیں باورکرایا گیاکہ وہ عملی سیاست سے دور رہیں ۔ جنرل ضیا کے گیارہ اور جنرل مشرف کے آٹھ سالہ اداوار میں شدت پسندی اور دہشت گردی ضرب در ضرب زیادہ ہوتی رہی ۔ جن لوگوں کایہ کہنا ہے کہ جنرل مشرف ، جنرل ضیا سے مختلف ثابت ہوئے، ان کی سوچ شاید اس لیے درست نہیں کہ دونوں ادوارکے نتیجے میں شدت پسندی میں اضافہ ہوتا رہا۔ جنرل ضیا کے دور میں انہیں سیاست سے دور رکھاگیا اور جنرل مشرف کے دور میں انہیں قتل کردیا گیا ۔ 
محترمہ کو لیاقت باغ کے جلسے سے ایک رات قبل پیغام دیاگیاکہ وہ اس میں نہ جائیں مگر بے نظیر بھٹو نے کہا : '' میں جانتی ہوں، خطرہ سر پر ہے، میں یہ بھی جانتی ہوںکہ وہ میری جان لینا چاہتے ہیں، یہ مجھے لوگوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں، یہ ہمارے خون میں شامل ہی نہیں ہے، میں بھٹو کی بیٹی ہوں، میں گھر بیٹھنے سے اپنے لوگوں کے سامنے مرنے کو ترجیح دوں گی‘‘۔ محترمہ کو بالآخر شہیدکردیا گیااورگزشتہ چاردہائیوں سے سیاست میں بھٹو فیکٹرکوکم کرنے کے لیے اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کردیاگیا۔ لولے لنگڑے اقتدار، نام نہاد افہام وتفہیم اوران گنت سازشوں کے تحت محکوم طبقات کی واحد نمائندہ جماعت ، پیپلز پارٹی کو ایک ریجنل پارٹی بنادیا گیا۔ عوامی نمائندہ جماعت کے'' سیاسی کریاکرم‘‘ کا بندوبست توکرلیا گیا مگر انتہاپسندی کا بھوت اور بھی توانا ہوگیا ۔ دہشت گردی کے جس جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ سویلین اور عسکری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ یہ کام کیسے کرتی ہے۔ اچھے اور برے طالبان کو اگر شیرکی نگاہ سے دیکھنے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے توہماری دعا ہے کہ قوم اس امتحان سے سرخروہو۔کاش ایسا پہلے کیا جاتا تو ہم محترمہ بے نظیر بھٹو اور اپنے ان ہم وطنوں کی قیمتی جانوں سے محروم نہ ہوتے جو اس جنگ کے بھینٹ چڑھا دی گئیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں