"TSC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کے پسندیدہ مزاحیہ شوز

طبع زاد کالم نگار اور دانشور ہارون الرشید نے دنیانیوز کے پروگرام میں وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف پر ایک اور ڈھب سے تنقید کی ہے۔دنیا نیوز میں صبح سویرے پیش کئے جانے والے اپنے پروگرام میں ہارون الرشید نے کہاکہ ''امورِحکومت میں وزیر اعظم غیر سنجیدہ ہیں‘ وہ رات دیر گئے ''حسب حال‘‘ اور ''مذاق رات ‘‘ جیسے غیر سنجیدہ اور مزاحیہ ٹی وی شو دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں‘ انہیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں ‘‘۔سیاسی طنز ومزاح پر مشتمل درج بالا دونوں شوز دنیا نیوز کے مقبول پروگرام ہیں۔ ذاتی طور پر ''مذاق رات ‘‘ کا سکرپٹ ایڈیٹر ہونے کی حیثیت سے مجھے ہارون الرشید صاحب کی طرف سے اپنے پروگرام کو غیر سنجیدہ قراردینے پر اعتراض نہیں۔ظاہر ہے کہ کسی مزاحیہ پروگرام کو 'ہارر شو‘ یا پھر رات دیر گئے دکھائے جانے والے 'کرائم شو‘ تو نہیں کہاجاسکتا ۔مزاحیہ پروگرام کو بہر حال مزاحیہ ہی سمجھا جانا چاہیے ، مزاحیہ پروگرام اس وقت سالانہ عرس اور برسی کا روپ دھار جاتے ہیں جب وہ اپنی طبعی مزاحیہ عمر پوری کرکے وینٹی لیٹر پر ہوتے ہیں ۔ کچھ نوزائیدہ قبل از وقت پیدا ہوتے ہی وینٹی لیٹر پر آجاتے ہیں ،بہرحال مزاح کی انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج مزاحیہ بیماروں کے حق میں دعا ہے کہ 
''مزاح کاروں‘‘ کو میری آہِ سحر دے 
اور کوئی ان کے مزاح کو دودھ پتی کر دے
ادب کی دنیا میں اس مسلمہ حقیقت کو تسلیم کیاگیاہے کہ المیہ لکھنا مزاح تخلیق کرنے سے بہت آسان کام ہے جو بہت سے پیشہ ور انجام دے رہے ہیں ۔صحافتی مارکیٹ میں نظر دوڑائیے‘ خیبر کے قصہ خوانی سے لے کر کراچی کے تین تلوار تک کتنے ہوں گے جو مزاح کی شب دیگ پکانے کے ماہر ہوں گے،وگرنہ سینہ کوبی ،ماتم گری اور نوحہ خوانی کی ریڈی میڈ دیگیں چڑھانے والے تو ہر صحافتی آستانے پر دسیتاب ہوتے ہیں۔بحیثیت قوم ہم ایک طویل عرصہ سے تجہیز وتکفین ،رسم قل ،رسم چہلم سمیت دیگر ماتمی رسومات ادا کرنے میں مصروف ہیں،ایسے میں ہنسنے ہنسانے کا کام تو باقاعدہ مسیحائی قرارپاچکا،احمد ندیم قاسمی نے کہاتھاکہ ؎
اس قدر قحط ِوفا ہے مری دنیا میں ندیم 
جو ذرا ہنس کے ملے اس کو مسیحا سمجھوں 
برصغیر میں مستند ادبی شخصیات نے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کو سیریس لٹریچر سے بہت بڑا فن پارہ قراردیا۔ڈاکٹر محمد حسن کے خیال میں یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے اوریہ معراج نثر نگاری کی معراج بھی ہے اور طنز ومزاح کی بھی کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر وانبساط سے پیش کیاجاسکتا ہے۔ ڈاکٹر نور الحسن نقوی کہتے ہیں کہ یوسفی کی تحریروں کامطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چپ ہوجاتاہے ۔اکثر ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ یہ کونسا مزاح ہے جس سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔شاید مزاح کی وہ قسم جو سچ کو سچ سے زیادہ سچی کردکھاتی ہے۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے فقط اتنا کہاکہ ہم اردو مزاح کے عہدِیوسفی میں جی رہے ہیں۔ 
خود ہارون الرشید صاحب کا بھی یہ کہنا ہے کہ یوسفی صاحب کا مزاح ادب اعلیٰ کادرجہ رکھتا ہے۔ابن ِ انشا، پطرس بخاری، مجیدسالک ،سید ضمیرجعفری ، کرنل محمد خان اور مجیدلاہور ی بھی مزاح کے میدان کے شہسوار ہیں ۔ٹیلی وژن کے مزاح میں انور مقصود اور ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے نام بھی نمایاں ہیںجبکہ پاکستان میں ابتدا میں یہ چشمے ریڈیولاہور سے پھوٹے۔ جہاں اوم پرکاش، مرزا سلطان بیگ المعروف نظام دین ،ظریف اور سلطان کھوسٹ سمیت دیگران نے اس دھرتی کوسیراب کئے رکھا۔فلم میڈیم میں کنگ آف کامیڈی منور ظریف کے نام کے بغیر مزاح کی تاریخ ادھوری ہے۔ 
بہت سے دوسرے علوم اور فنون کی طرح Political satireکی ابتدا بھی یونان سے ہوئی تھی ۔Aesopاور Aristophanes اس فن کے جد ِامجد تھے ۔سیاست سے مزاح کشید کرنے کے فن کو سیاسی مزاح نگاری کا نام دیاگیاہے۔یہ ایسے معاشروں میں جنم لیتی ہے جہاں جمہوریت سے زیادہ سیاست ہو،آمریت ہو، بے جا اختلاف رائے ہو،ثقافتی اور سماجی رسومات کو حلال اور حرام قرار دیاجاتاہو۔آزاد اور روشن معاشروں میں اس صنف سے اصلاح کا کام جبکہ ہمارے جیسے بیمار معاشروں میں اسے صرف تفریح اوربھانڈبازی ہی سمجھاجاتاہے۔طبقات میں تقسیم معاشروں میں تفریح کو بھی اعلیٰ اور گھٹیا تفریح میں تقسیم کیاجاتاہے۔ماضی میں اشرافیہ کا پسندیدہ شغل اعلیٰ فن قرار پاتا تھا جبکہ رعایامیں قبول عام پانے والافن اور فنکاردونوںبھانڈاور بھانڈ بازی کہلاتے تھے لیکن وقت بدلنے کے ساتھ تصورات بدل گئے۔قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں پنپنے والی اشرافیہ میں جمہوری اور آمری حکمران شامل رہے ۔جمہوری اشرافیہ میں جاگیردار ،وڈیرے اور صنعت کار جبکہ آمری اشرافیہ مڈل کلاسیوں پر مشتمل رہی ۔اسٹیبلشمنٹ نے آرڈر پر مال تیار کرنے کے مصداق جملہ اقسام کی لیڈر شپ تیار کی۔ اس کھیپ میں جدید اشرافیہ کے تمام فیچر ز انسٹال کئے گئے ماسوائے نیشنل ازم کے۔ 
نیشنل ازم یا حب الوطنی کا پرچار جتنا ہمارے ہاں کیاگیاہے شاید ہی دنیا میں کوئی دوسرا خطہ ہو۔ہمارے ہاں سب سے زیادہ ملی نغمے تخلیق کئے گئے لیکن نجانے کیوں یہ جذبہ ناپید ہوتاچلاگیا۔ مستند لیبارٹیرز سے مکمل چیک اپ کرانے پر بھی حب الوطنی کا ٹیسٹ پازٹیو نہیں آتا۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کے بعد حکمرانی کا تاج صنعت کاروں اورتاجروں کے سر پر سجا دیاگیاجنہوں نے اس ملک کی سیاست کو تجارت کی طرح منافع بخش کاروبار سمجھ کر چلایا۔تاجر اور صنعت کار اشرافیہ تو بن گئے لیکن ان کا ذوق ِسلیم ''عوامی‘‘ ہی رہا۔لاہور سے تعلق رکھنے والے منیرحسین المعروف منیرے بھانڈ نے بتایاکہ اس نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر میاںگھرانے میں شامل سب قائدین تک کو ہنسایا ہے۔ منیرے نے بتایاکہ وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے والد محترم میاں شریف صاحب اداس ہوتے تو میں انہیں ہنسایا کرتا تھا۔ منیرے نے اس ملک کی سیاسی ایلیٹ کے ساتھ ساتھ آمری رجیم کو بھی ہنسایاہے۔منیرے کے بزرگ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں بھی ہنسایاکرتے تھے ۔ایک دادا نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بھرے دربار میں کانا( ایک آنکھ والا) کہنے پر انعام واکرام پایاتھا۔یہ جہاں اس بھانڈ کے فن کو داد ہے وہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بھی بڑائی ہے جس نے اپنی کج نظری کی نشاندہی پر جلال میں آنے کے بجائے دادا کو انعام سے نوازا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرح ہمارے آج کے حکمران بھی مہاراجہ ہی ہیں بلکہ ان سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ جن دنوں حالت ِجنگ میں ہوتے ہوں گے تب دربار سجانے کے بجائے مسلح اور چوکنا رہتے ہوں گے۔ہارون الرشید صاحب کو بھی وزیر اعظم کے ''حسب حال ‘‘ اور ''مذاق رات ‘‘دیکھنے پر اعتراض نہیں ہوگا‘ انہیں اعتراض اس بات پر ہوگا کہ طائوس ورباب سے پہلے شمشیر وسناں والی ترتیب اور ترکیب پر عمل کیوں نہیں کیاجارہا ؎
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول‘ طائوس و رباب آخر
درج بالا اقبالی ترتیب کی بات کی جائے تو جنرل آغا محمد یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اس پر عمل نہیں کیاتھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل محمد ضیاالحق اگرچہ ہمارے انتہائی سنجیدہ حکمران تھے مگر دونوں کے سنجیدہ طرز ِحکومت نے ہمارے ثقافتی، معاشرتی اورمعاشی ڈھانچے پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ۔ضیاالحق کے زمانے میں دہشت گردی کے بیج بوئے گئے‘ پرویز مشرف نے اسے کاٹا اور باقی ماندہ ٹھیکہ آنے والوں کے حوالے کرکے ایک عرصہ سے قانون سب کے لئے برابرہے کی نمائشی ڈرامہ سیریل میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ زیر نظر کالم میں مزاح نگاری کے علاوہ تھیٹرکی کامیڈی پر بات نہیں ہوسکی‘ اس کے عروج وزوال پر بات پھر ہوگی۔بات کو سمیٹتے ہوئے اگر مزاح نگاری اورسنجیدہ کاری کی ہی بات کی جائے تو ہمارے ہاں ناصح اورناسور میں فرق اس لیے بھی نہیں رہاکیونکہ حکمرانوں کے وعدوں کی طرح لفظ،تحریریں اور کالم بھی بے اثر ہی ہوتے ہیں۔جالب نے جنرل ضیاکے فراڈ ریفرنڈم اور صحافت میں ہاتھ کی صفائی کویوں عنوان دیاتھا ؎
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
دن انیس دسمبر کا 
بے معنی بے ہنگم تھا
یا وعدہ تھا حاکم کا 
یا اخباری کالم تھا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں