"TSC" (space) message & send to 7575

کُھل جا سم سم

برادرم رئوف کلاسرا اشرافیہ کے لئے ریاض بسرا ثابت ہو رہے ہیں۔ انفرادی شخصیات اور اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں کی کارستانیوںکا تیا پانچاکرتے رہتے ہیں۔ 29 جنوری کے کالم میں لکھتے ہیں: پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں نئے ارب پتی پیدا کئے تھے، لیکن موجودہ حکمران سمجھ دار ہیں، یہ اپنے خاندان کے سواکسی کو مال نہیں کمانے دیتے۔ خاندان کا ایک فرد بے روزگار ہو گیا تھا،اس کے لیے بھی اہتمام کردیاگیا ہے۔ کیپٹن صفدر 6 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈکے مالک بنادیے گئے ہیں ۔ وہ اس کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جو ہر ایم این اے کو دوکروڑ روپے کا فنڈ دے گی۔ دوکروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈکے نام پر ان کا منہ بھر دیا جائے گا۔ اب یہ ایم این ایز پر ہے کہ وہ ماضی کی طرح لکی مروت میں دوکروڑ روپے کا فنڈکرپٹ ٹھیکیداروں کو بیچ کر 20 فیصدکے حساب سے چالیس لاکھ روپے کا کمیشن نقد کماتے ہیں یا اپنے علاقے کے ٹھیکیدار کے ساتھ مل کردوکروڑ روپے میں سے ایک کروڑ ہڑپ کرناچاہتے ہیں۔
ملک کی90 فیصد سیاسی ایلیٹ اسٹیبلشمنٹ کے پولٹری فارم ہائوسز کی پیداوار ہے۔ ہم پولٹری کاذکر توکرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انڈے اور مرغے کا تعلق کس فارم ہائوس سے ہے؟ اسلام آباد میں میرے ایک دوست'' کو ہ قاف ‘‘ کے کارندوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ان کے پاس اندر بلکہ پچھلے اندرکی خبریں بھی ہوتی ہیں ، رازدارانہ لہجے میں گویاہوئے: سابق گورنر چودھری محمد سرورکے استعفے کے بعد کام رکے گانہیں۔
اس نے میری صحافت کی چھٹی حس کوچھیڑدیا، میں نے پوچھا آنے والے دنوں میں کیاہوگا؟دوست نے آئندہ نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم کے ''ٹریلر‘‘ کا خلاصہ کچھ یوں سنایاکہ 36کروڑ روپے کے چیک کا سکینڈل سامنے آئے گا جوایک معروف ریٹائرڈ شخصیت کو جاری کیاگیاہے۔بظاہر اتنی بڑی رقم کا چیک Consultancy Fee (پیشہ ورانہ معاونت کے معاوضے )کے طور پر ادا کیاگیا لیکن دراصل یہ اس سیاسی نظام کے''سلیپنگ پارٹنر‘‘کا حصہ ہے جو اسے گھر بیٹھے ادا کر دیاگیا۔ عمران خان بھی اس شخصیت کے حوالے سے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ یہ معاملہ اب جلسوں،دھرنوں اور میڈیا سے نکل کر عدالت میں جاچکا ہے۔ اس چیک کی فوٹوکاپیاں اب میڈیا کوفراہم کردی جائیںگی توسرخیاں جمیں گی ،کالم لکھے جائیںگے اور ٹاک شوزبرپا ہوںگے۔ 
ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
وصل کی شب اور اتنی کالی 
ان آنکھوں میں کاجل ہو گا 
اس کیس میں آنکھوں کا ذکر بطورخاص سمجھیے گا۔
منوبھائی نے چودھری محمد سرورکے استعفے کے بارے میں لکھا ہے کہ انہیں سابق لکھنا درست نہیں، وہ پنجاب کے پہلے گورنر ہیں جوریٹائرہوئے ہیں۔ چودھری سرور نے اپنا استعفیٰ دیتے ہوئے اس سیاسی نظام کے چیچک زدہ چہرے کی نقاب کشائی بھی کی ہے: 
'' لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ گورنر سے زیادہ طاقتور ہیں، لوگوں کے بچے قتل کیے جارہے ہیں، قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور مقتولین کے ورثا ٹھوکریںکھارہے ہیں۔کیسی جمہوریت ہے جہاں بلدیاتی نظام ہی نہیں، اوورسیز پاکستانیوں سے معافی چاہتاہوںجو سالانہ 25 ارب ڈالر بھیجتے ہیں لیکن ان کے گھروں اور پلاٹوں پر قبضے ہورہے ہیں، آدھی آبادی کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں، سیاسی کارکن صرف نعرے لگانے کے لئے رہ گئے ہیں اور پاکستان میں سچ کا قحط ہے‘‘۔ چودھری سرور نے یہ بھی کہا کہ موجودہ نظام میں فرشتہ بھی وزیر اعظم بن جائے تو عوام کوکچھ نہیں ملے گا۔ اس شقی القلب اور ٹکا تھیٹرکے بعد عوام کو دکھوں کے سمندر سے نجات دلانے کا ڈرامہ بند ہوجانا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ دکھیارے عوام کے نیم بسمل لاشے کی مزید بے حرمتی کی جائے گی ، تجہیز وتکفین اور دعائے مغفرت کرنے کے بجائے میت کو سرعام رکھ کر کوئی نیا ٹیکنوکریٹ یا لوٹ مارکا کوئی نیا بازار مصر سجایا جائے گا۔
کس کس سانحے پر آنسو بہائیں،کراچی کا نوحہ پڑھیں یا شکار پورکا ماتم کریں۔ متحدہ نے اپنے کارکن سہیل احمد کے قتل پر شہر بند کرنے کاالٹی میٹم دیا تو وزیر اعظم کراچی پہنچے، ابھی کراچی میں قتل ہونے والے کارکن کے ورثا سے اظہار افسوس کررہے تھے کہ شکارپور میں 60 لاشیں گرادی گئیں۔ آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردوںکواگرچہ محدودکیاگیا ہے لیکن ابھی وہ پاکستان کے کسی بھی صوبے اور خاص مسلک سے وابستہ مسلمانوںکا قتل عام کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ شکار پور میں دہشت گردی کے وحشیانہ واقعے سے متعلق ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ اسے دہشت گردی کے اسی وسیع کھاتے میں درج کیاجائے یا مسلمانوں میں جاری مسلمان یا کافر ہونے کی لڑائی کے رجسٹر میں درج کیا جائے؟ پاکستان کایہ حال اس کے غلط حکمت کاروں کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن افسوس کہ ان کے منہ سے کبھی اعتراف گناہ تو درکنار شرمندگی کے چند الفاظ بھی ادا نہیں ہوسکے ۔ وہ آج بھی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ عدالت انہیں بلائے تو وہ بتائیں گے آئی جے آئی کیوں بنائی اور جہادیوںکو''مینوفیکچر‘‘ کیوں کیا؟
کراچی کا بھوت بھی انہی کی پٹاری سے نکلاہے جن کی لیبارٹریوں میں طالبان پیدا ہوئے تھے۔ بابائے نیوزکا کہنا ہے کہ ''کراچی کا مسئلہ اونر شپ کا تنازع ہے‘‘۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں جتنا بھتہ وصول کیا جاتا ہے حکومت اتنا ٹیکس وصول کرے تو صوبے کے لئے مالیاتی بحران ختم ہوجائے۔ کراچی کو عروس البلادکہا جاتا تھا، اندھیرں کے کھیل کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا۔ لسانی بنیادوں پر سیاسی اور معاشی حقوق کی جنگ میں بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان ، بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ سب کچھ جائز سمجھاگیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں صرف 12مئی کے ایک دن میں صبح سے لے کر شام تک 54 شہریوں کی لاشیں گرادی گئیں ۔ وہ شام ِغم جب رات میں ڈھلی تو اسلام آباد میں صدر جنرل پرویز مشرف نے مکا لہراتے ہوئے کہا تھا: ''عوامی رستے میں آنے والے کراچی میں کچلے گئے ہیں‘‘۔
12مئی 2007ء کے دن بیرسٹر اعتزاز احسن اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو لاہور سے کراچی لے گئے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں آزاد عدلیہ کے نام پر افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرانے کی تحریک چلائی جارہی تھی ۔ چودھری اعتزاز احسن ان دنوںاپنی انقلابی نظم ''ریاست ہوگی ماں کی جیسی‘‘ پڑھ کر بڑی داد وصول کیا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اکا دکا لکھاریوں کے علاوہ صحافت کا پورا جہان اس تحریک کے بطن سے نئے پاکستان کا ظہور دیکھ رہا تھا۔ان دنوں میں نے ''آزاد عدلیہ یا افتخار عدلیہ ‘‘ کے نام سے ایک کالم لکھا تھا جس کے باعث میری برادری نے مجھے اچھا خاصا ''صحافتی سنگسار‘‘ کیا تھا۔ اہل وطن نے دیکھاکہ آزاد عدلیہ کی عظیم الشان تحریک کی دبیز تہوں سے جو خزانہ برآمد ہوا، پارلیمنٹ نے اسے فوجی عدالتوں سے ملنے والا فوری انصاف قراردیاہے۔ 12مئی کوکراچی میں بے موت مرنے والوں میں پیپلز پارٹی ،اے این پی، متحدہ اور پی ٹی آئی سبھی کے کارکن شامل تھے مگر ان لاوارثوں کا مقدمہ کسی نے نہیں لڑا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی نہیںجو 12مئی کے واقعہ کے ایک محرک بھی تھے۔
بابائے نیوزکہتے ہیں کہ کراچی میں مارشل لا نافذکرنے کا مطالبہ کرنا راست عمل نہیں ہے۔ شہر میں ایک عرصہ سے رینجرز، سندھ پولیس کے ساتھ مل کر آپریشن کررہی ہے۔ یہ ایک نیم مارشل لائی کیفیت ہے، اس کے بعد مارشل لا نافذکرنے کا مطالبہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ ویسے بھی کراچی کا مسئلہ تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دورکی پیداوار ہے جسے جنرل مشرف کے دور میں کھل کھیلنے کے سنہری مواقع فراہم کئے گئے۔ نیوز بابا کاکہنا ہے کہ اب علی بابا کو کراچی کے خزانوں کے دہانے پر کھڑے ہوکر ''کھل جاسم سم‘‘ کہنے کی مزیداجازت نہیں دی جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں