"FBC" (space) message & send to 7575

اعمال کا کچرا

''کراچی سے کچرا ختم کردیا جائے گا‘‘خبر کی سرخی پر نظر پڑتے ہی میں سوچنے لگا کہ کراچی سے کس کچرے کو ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔گزشتہ 35سال میں تہذیب وتمدن‘ شعور وآگہی‘ نظریاتی تشخص ‘علم و اہلیت‘ سب کچھ ہی تو کچرے میں بدل دیا گیا ہے‘ یہ کس کچرے کے ختم کرنے کی بات ہورہی ہے؟ پھر سوچا جرائم بھی شاید انسانی اعمال کا کچرا ہی ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ‘اس کچرے کے خاتمے کی بات ہورہی ہو‘ مگرخبر کی تفصیل سے پتا چلاکہ ماحول پر اثر اندازہوئے بغیر شہر کے کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کی بات ہورہی ہے۔
خبر میں تو کچرے کی اقسام کا تذکرہ نہیں تھا‘ تو سوچا اس پر کالم میں ہی بات کرلی جائے۔ آج ایسا کرتے ہیں کہ یکساں طریقہ کار کے تحت انجام کو پہنچنے والے کچرے کی دو اقسام پر بات کرتے ہیں۔کراچی جو اب کچراکی نامی بستی کے نام سے جانی جانے لگی ہے۔ وہ بستی کہ جس کے ہر گھر کے سامنے کچرا ‘ ہر گلی میں ابلتے گٹر موجود ہیں اور جو بارش کے چند قطرے سنبھالنے کا ظرف بھی نہیں رکھتی ‘چند چھینٹوں سے غلاظت بھرا جوہڑ دکھائی دیتی ہے۔ غرض یہ کہ ایسی بستی‘ جس کے اپنے حاکم بھی اس میں سے گزرنا گوارہ نہیں کرتے ‘بلکہ بستی سے گزرنا لازم ہوجائے تو فضائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب یہاں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے‘ مگر صفائی کے ذمہ دار صرف 8ہزار ٹن کچرا اٹھاتے ہیں۔ روزانہ 4ہزار ٹن کچرا شہر کو آلودہ رکھنے کے لیے سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔اس میں زرعی‘طبی‘ صنعتی‘ گھریلو اور مائننگ سمیت ہر طرح کا کچرا شامل ہے‘جو کچرا اٹھایا جاتا ہے اسے 500ٹرکوں کے ذریعے جام چھاکرو لینڈ فل سائٹ سرجانی ٹائون اور گوندل دیہہ لینڈ فل سائٹ نادر بائے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔اس کچرے کو جلا دیا جاتا تھا‘ جس سے ماحول اور زیر زمین پانی آلودہ ہوجاتے‘ جبکہ انسانی صحت پر بھی منفی ا ثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے سربراہ اصغر محمود کہتے ہیں کہ مربوط نظام کو اپنائے جانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ شہر سے مکمل کچرا اٹھائے جانے کے ساتھ کوڑے کی تلفی کو سودمند بناتے ہوئے پانی و ماحول کو آلودہ کرنے سے روکا جاسکے اور کوڑے سے بجلی اور بائیو گیس بنائی جاسکے۔اس مقصد کی لئے ڈمپنگ پوائنٹس پر کوڑے کو نامیاتی اور غیر نامیاتی میں تقسیم کیا جائے اور نامیاتی فضلے کو جلا کر اس سے بجلی پیدا کی جائے۔ اس عمل کے ذریعے کوڑے کے خاتمے کو بھی سوسائٹی کے لیے سودمند بنایا جاسکتا ہے۔شہر سے کوڑے کی دو اقسام کے خاتمے کی ہماری بات جاری ہے۔ ایک قسم کی بات مکمل ہوچکی۔ کچرے کی دوسری قسم پر بات کرنے سے قبل پرانے کراچی کا تھوڑا سے تعارف ہوجائے؛اس شہر کی پہچان کسی بھی قسم کا کچرا قطعی نہیں تھی۔ یہ شہر اپنے مزاج میں دلی وممبئی کی تہذیبوں کا عکس لیے تھا۔کراچی کے ساحل کا شمار دنیا کے دس بہترین ساحلوںمیں ہوتا تھا۔ قومی ائیرلائن چار بڑی ائیرلائنز میں سے تھی۔ عالمی سفارتکاروں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ماضی سے نسبت رکھتی اس کی عمارتیں اپنے خالق کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔کشادہ سڑکیں بہترین انفرااسٹریکچر کی علامت تھیں‘ جبکہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا یہ شہر ملکی تجارتی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ ٹیکسٹائل‘ شپنگ‘فیشن کے حوالے سے کاروباری سرگرمیاں ابتداء میں صرف کراچی کی پہچان تھیں۔ سیاحت کے حوالے سے بھی کراچی کو خصوصی مقام حاصل تھا اور بین الاقوامی سیاح تسلسل سے کراچی کا رخ کرتے نظر آتے تھے۔1960ء سے کراچی نے ٹورازم میں اپنا مقام بنایا‘ جس کے بعد 1970ء میں ٹورازم ملکی زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بنا۔ حکومت نے 1972ء میں پہلی بار وزارت سیاحت قائم کی‘ جس کے دفاتر بھی کراچی میں بنائے گئے۔ پاکستان میں معیار تعلیم بہترین تھا اور افغانستان ایران‘ چین سمیت مشرق وسطیٰ اور افریقا سے لوگ تعلیم کے حصول کے لیے کراچی آتے تھے۔ بجلی و مواصلات کا نظام بہترین تھا‘ جبکہ سیوریج کا نظام بھی شاندار تھا۔ ۔مقناطیسی کشش رکھنے والا یہ شہر پردیسی کو اپنا لیتا اور پھر واپس نہ جانے دیتا‘مگر اب یہ شہر اجڑ چکا ہے۔ عروس البلادکراچی‘ شہروں کی ایسی دلہن بن گیا‘ جسے کوئی وارث نہ ملا‘ ہر حاکم لٹیرا نکلا۔ اسے مال بنانے کیلئے باری باری لوٹا گیا‘ کم ظرفوں نے نوچا اور پھراسکے سرپرستوں نے عصبیت کا تیزاب ڈال کر اس دلہن کا حسن تباہ کردیا۔ 
1985ء میں کراچی کے علاقے ناظم آباد میں کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی کی بس حادثے میں موت کو لسانی سیاست کی بنیاد بنایا گیااور پھر چند سال میں ہی کراچی کی سماجی‘ معاشی‘ ادبی اور مذہبی شناخت کو مسخ کردیا گیا۔ درسگاہیں ‘کمین گاہوں میں بدل جائیں‘ تو علم بانجھ ہوجاتا ہے۔ دنیا میں آکر فاروق ‘آفتاب ‘ فیصل کی شناخت پانے والوں کا ماحول کی کوکھ سے دوبارہ جنم دادا‘ چریا‘ موٹا اور کن کٹا کے روپ میں ہوتا ہے اور اس نئی شناخت کا خمیازہ شہر اور اس کے باسیوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
الغرض شہر کی شاہراہوں پر 92ہزار لاشیں گریں‘ 40ہزارلاشوں کو ناقابل شناخت قرار دیا گیا اور اس طرح فلک نے وہ مناظربھی دیکھے کہ شہر کے وارث لاوارث قرار دیکر دفنائے گئے۔ ارباب اختیار کی جانب سے کراچی کو اجاڑنے والوں کے خلاف پہلا آپریشن 1992ء ‘دوسرا آپریشن 1996ء اور تیسرا آپریشن 1998ء میں ہوا‘مگر ہر بار ذاتی مفادات کو قومی قرار دیکرآپریشن میں پکڑے جانے والوں کی باقیات چھوڑ دی جاتیں‘ پھر ارباب اختیار کو ہوش آیا اور ستمبر 2013ء میں کلین اپ‘ یعنی صفائی کیلئے آپریشن شروع کردیا گیا۔ نامعلوم مجرم اچانک معلوم ہوگئے۔ 14853 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں 11088مجرموں کو گرفتار کیا گیا۔معاشرے کے ان ناسوروں کو فورسز کی گاڑیوں میں بھر کرڈمپبنگ پوائنٹس ‘یعنی سینٹرل جیل اور لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا۔ باقیات رہ جائیں تو گندگی ضرور پھیلاتی ہیں۔آپریشن کے بعد؛ اگرچہ جرائم کی شرح کم ہوئی‘ مگر مکمل طور پر ختم نہ ہوسکی۔یہی وجہ ہے کہ 2018ء میں‘ اب تک شہریوں کو 1603گاڑیوں‘ 21413موٹرسائیکلوں اور 15360موبائلوں سے محروم کیا جاچکا۔ 
کراچی کو اس کا امن واپس دلوانے کے لیے جہاں شہر سے جرائم اور مجرموں کا مکمل طور پر خاتمہ ضروری ہے‘ وہیں جیل میں تربیتی نظام کے ذریعے مجرموں کو معاشرے کا بہترین فرد بنانے کی کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔ اس حوالے سے ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید کہتے ہیں کہ انہوں نے گرفتار مجرمان میں سے نشے کے عادی 2800مجرموں میں سے 1700پر کیس سٹڈی کی‘ تو معلوم ہوا کہ ان میں سے 688مجرم آٹھ جماعتیں پاس‘ جبکہ 80فیصد غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے جرائم پیشہ افراد کی باقیات کے خاتمے کے لیے تجویز دی کہ مجرمان کو صرف سزائیں پوری کروانے کے بجائے سزا کے دوران نشے سے بحالی کے مرکز میں رکھ کر اور تعلیم و ہنر سے آشنا کرواکر معاشرے کیلئے سودمند بنایا جاسکتا۔اس مقصد کے لیے حکومتی سطح پر جیلوں میں نشے سے بحالی کے مراکز کے قیام اورقیدیوں کو تعلیم و ہنر کی فراہمی پر توجہ دی جانی چاہئے۔
عروس البلاد کو دوبارہ اس کا اصل مقام دلوانے کیلئے کراچی سے کچرے کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ شہر کی سڑکوں پرروزانہ چھوڑ دیا جانے والا 4ہزار ٹن کچرا اصل مقدار سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اس کی روشنیاں تبھی واپس آسکتی ہیں ‘جب یہاں امن ہو اور سڑکیں ہر طرح کے کچرے سے پاک ہوں۔بس اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ارباب اختیار ماحول کو آلودہ کیے اور کسی بھی وجہ سے باقیات چھوڑے بغیر‘ کچرے کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں؟۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں