جب مقاصد بڑے ہوں اور ان کے حصول کے لیے مکمل یکسوئی ہو تو پھر ہر دانا و بینا اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اگر کہیں جھاڑ وغیرہ سفر میں رکاوٹ پیدا کریں تو حکمت و دانش سے کام لیتے ہوئے وہ اپنا دامن الجھنے سے بچاتا ہے تاکہ فضولیات میں پڑ کر اپنی منزل کھوٹی ہونے سے بچا سکے۔ واضح اہداف رکھنے والے لوگ دورانِ سفر بے مقصد چیزوں میں الجھ جانے کی صورت میں وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ حصہ ہی کاٹ ڈالتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ وہ قبیل ہے جو جانتی ہے کہ طے کردہ اہداف کیسے حاصل کرنے ہیں اور اس کے لیے ماحول کیسے تیار کرنا ہے۔ یہ ذکر ہو رہا ہے ان لوگوں کا جو دانا و بینا ہوتے ہیں، یہ تذکرہ ہے عقل و شعور رکھنے والوں کا، یہ طریق ہے عظیم مقاصد کے حصول کی سعی کرنے والوں کا۔ مگر جو ہمیں میسر ہیں‘ ان کے تو کیا ہی کہنے، طور طریقے اور رنگ ڈھنگ ہی الگ ہیں۔ ایسے راستے پر سفر کرتے ہوئے بھی کہ جہاں سے رکاوٹیں پہلے ہی ہٹا دی گئی ہیں‘ وہ ڈھونڈتے ہیں کہ الجھنے کو کوئی شے مل جائے۔ اس کوشش میں انہیں دور کہیں کوئی کانٹا نظر آ جائے تو اس کے پاس جا بیٹھتے ہیں اور اپنا دامن اس میں زبردستی الجھا لیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اس کے بعد دامن چھڑانے کے لیے ہلچل کرتے ہیں مگر جو الجھائو پیدا ہی خود کیا گیا ہو‘ اسے سلجھانا قطعی آسان نہیں ہوتا۔ سو ایسی ہڑبونگ مچتی ہے کہ الامان والحفیظ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسمبلی کا فلور ہو یا ٹاک شوز، تنے اعصاب اور سرخ چہروں کے ساتھ اپنی کج فہمی کو چرب زبانی سے ڈھانپنے پر ساری صلاحیتیں صرف کر دیتے ہیں۔ بقول شمیم کرہانی ؎
وہاں کھلے بھی تو کیونکر بساط حکمت و فن
ملے ہر اک جبیں پر جہاں شکن ہی شکن
حکومت اور تنازعات لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے اتنے ضروری ہیں کہ حکومت ایسے معاملات کو جو بالکل سیدھے طریقے سے حل ہو رہے ہوں‘ اپنے ''فہم‘‘ کے کڑاہے میں ڈال کر ان کی ''جلیبی‘‘ بنا دیتی ہے۔ عام تو رہے ایک طرف، حکومت ملکی سطح کے حساس معاملات پر بھی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے بجائے نت نئے تنازعات کو جنم دیتی ہے اور پھر ان میں پھنس کر زمانے اپنے تمسخر کا سامان پیدا کرتی ہے۔ مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہو یا فیٹف کے معاملات پر قانون سازی، ان مسائل میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی مگر ہمارے ''دور اندیشوں‘‘ نے معاملے کو ایسا الجھایا کہ سب حیران رہ گئے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی ایک بین الاقوامی معاملہ تھا جس پر ملکی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے اور اسمبلی کے فورم سے باہم اتفاق رائے سے بھارت کو جواب دینے کی ضرورت تھی مگر حکومت نے اس اہم اور حساس ترین ایشو پر بھی اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح قومی احتساب آرڈیننس، سینیٹ کے انتخابات میں اوپن بیلٹنگ، کلبھوشن یادیو ایشو، غرض یہ کہ ہر بین الاقوامی و قومی سطح کے معاملے کو معاملہ فہمی کے بجائے طبل جنگ بجا کر حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ پھر کورونا کی وبا سے نمٹنے، اہم اداروں کے سربراہ تعینات کرنے، میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی سمیت نئے قوانین بنانے کے لیے بغیر مشاورت کے جو طریقے اپنائے گئے وہ اس حکومت کا سرورق بن گئے۔ حاصل یہ ہوا کہ اب حکومت کی کسی کوشش کو نہ تو اپوزیشن سنجیدہ لیتی ہے اور نہ ہی عوام۔ اپنی انائوں کے خول میں مقید رہنما مشاورت تو دور‘ ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔
اسی صورتِ حال میں اچانک انتخابی اصلاحات متعارف کرا دی گئی ہیں اور اس معاملے میں ایسی تیزی دکھائی گئی کہ انتخابی اصلاحات کا یہ بل ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ متنازع بل بن گیا۔ انتخابی ترمیمی بل 2020ء الیکشن ایکٹ 2017ء میں 72 ترامیم پر مشتمل ہے جو پارلیمانی امور کی سٹینڈنگ کمیٹی میں 8 جون 2021ء کو اس وقت پیش کیا گیا جب اس کمیٹی کے 21 میں سے صرف 8 اراکین موجود تھے۔ 10 جون کو یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا اور 20 دیگر بلوں کے ساتھ اسی روز اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کر لیا گیا۔حکومتی بنچوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس اہم ترین و حساس معاملے پر بحث کرانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ اسی طرح خاموشی سے ایک اور بل 8 مئی 2021ء کو آرڈیننس بنا دیا گیا جس میں دو اہم ترامیم شامل تھیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ دونوں بل سینیٹ میں ہیں جہاں امکانی طور پر سینیٹ کمیٹی کو بھیجے جاسکتے ہیں یا اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں لائے جا سکتے ہیں۔ اب اگر حکومتی تاریخ دیکھی جائے تو چونکہ ان بلوں کی سینیٹ سے منظوری مشکل نظر آتی ہے اس لیے حکومت انہیں مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کی کوشش کرے گی جہاں اسے عددی برتری حاصل ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کی مخالفت صرف اپوزیشن ہی نہیں کر رہی بلکہ الیکشن کمیشن نے بھی اپنے تحفظات کا نہ صرف برملا اظہار کیا ہے بلکہ پریس ریلیز کی صورت انہیں عوام تک بھی پہنچایا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 72 میں سے 15 ترامیم کو کمیشن کے آئینی اختیارات، 5 ترامیم کو الیکشن ایکٹ 2017ء سے متصادم ہونے اور 17 ترامیم کو انتظامی بنیادوں پر مسترد کیا ہے جبکہ 8 ترامیم کو چند مزید ترامیم کے ساتھ اور 27 کو مکمل طور پر قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے اور رجسٹرڈ ووٹوں کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے حوالے سے کی گئی ترامیم پر اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن ان پر بات کرنے سے ہی انکاری ہو۔ بات چیت کے لیے اپوزیشن تیار ہے اور متبادل تجاویز بھی دے رہی ہے مگر حکومت نے بل کو جیسے اَنا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کے تحفظات کے بعد حکومت اس بل پر غور و فکر کرتی اور انتخابی اصلاحات جیسے نازک اور حساس معاملے پر اسمبلی میں بحث کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتی؛ تاہم اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت نے بل کو واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے ایک نئے تنازع کو جنم دے دیا۔ یقینی طور پر حکومتی ریکارڈ اس حوالے سے خاصا طویل ہے۔ یہ تنازع ایسے موقع پر پیدا ہوا ہے جب انتخابی اصلاحات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔حکومت دور اندیشی سے کام لینے کے بجائے ایک بار پھر اس مسئلے پر سیاست کر رہی ہے۔ وزرا اپوزیشن کو خاطر میں لائے بغیر انتخابی اصلاحات کے بل کی حمایت میں ہر حد تک جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔
اپوزیشن جو اندرونی اختلافات کے باعث کمزور ہو چکی ہے اور حکومت کی راہ میں مزاحم نہیں ہو پا رہی‘ بجٹ کے بعد مزید بیک فٹ پر چلی گئی تھی؛ تاہم انتخابی اصلاحات کے تنازع نے اسے ایک بار پھر سیاسی محاذ میں نمایاں ہونے کا موقع دیا ہے۔ یہ اپوزیشن کی بہت بڑی کامیابی ہو گی اگر وہ حکومت کو آئندہ دو سال تک تنازعات میں الجھائے رکھے۔ ابھی تک اپوزیشن اس میں کامیاب نظر آ رہی ہے اور اس فتح کے پیچھے اپوزیشن کی قابلیت نہیں بلکہ حکومتی نااہلی ہے۔ صورتحال ایسے ہی رہی تو حکومت اپنی باقی دو سالہ مدت بھی اسی طرح تنازعات کی نذر کر دے گی اورلگتا ہے کہ جب انتخابی میدان میں اترے گی تو توقع کے عین مطابق‘ اس کا دامن خالی ہوگا۔