اب افغانستان میں تمام گروپس 'مجاہدین‘ کے نام پر دوبارہ سرگرم ہو رہے ہیں۔ ان کا پہلا اجلاس افغانستان کے صوبہ قندھار میں ہوا جہاں ان گروپس نے طالبان کے سامنے مزاحمت کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ ان گروپس کے مشترکہ اتحاد کے قیام میں افغان انٹیلی جنس کا بھی اہم کردار بتایا جا رہا ہے جبکہ افغان حکومت بھی ان گروپوں کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ ان گروپس کا زیادہ اثر و رسوخ وسطی اور شمالی افغانستان میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح تیسری قوت کے طور پر وہ جماعتیں سامنے آ رہی ہیں جو جمہوریت کی حامی ہیں اور اسی بنیاد پر طالبان مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ کسی صورت ان کی حکومت نہیں دیکھنا چاہتیں۔ ان میں سب سے منظم اور عوامی سطح پر مضبوط جڑیں رکھنے والی حزب اسلامی بھی شامل ہے جس کے سربراہ گلبدین حکمت یار ہیں جسے افغانستان کی جماعت اسلامی بھی کہا جاتا ہے۔ حزب اسلامی بھی طالبان کا راستہ روکنے کی تیاری میں ہے اور اس نے اپنے زیر اثر علاقوں‘ جن میں وسطی افغانستان کے پشتون اور فارسی بانوں کی اکثریت ہے، میں اپنی قوت جمع کرنا شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں شوریٰ ہم آہنگی میں گلبدین حکمت یار کے اتحادی رہنے والے عبدالرشید دوستم‘ جو اس وقت ترکی میں ہیں‘ نے باہر سے بیٹھ کر افغانستان میں اپنے جنگجوئوں کو جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح ماضی میں احمد شاہ مسعود، برہان الدین ربانی اور دیگر چھوٹے گروپوں میں مشتمل شوریٰ نظار کے دھڑے بھی متحد ہو رہے ہیں۔ احمد شاہ مسعود جنہیں نائن الیون سے صرف دو روز قبل مبینہ طور پر القاعدہ نے ہلاک کردیا تھے، کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا ہے اور صوبہ تخار میں ہونے والے مسلح گروہوں کے اجلاس کی صدارت کرکے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ شمالی افغانستان کے صوبوں میں ان کے مسلح جنگجو تعینات کیے جائیں۔ سب سے بڑی مزاحمت افغانستان کے موجودہ وزیر آبپاشی اسماعیل خان کی جانب سے ہونے کی توقع ہے جنہوں نے ہرات میں اپنی رہائش گاہ پر مزاحمت کار گروہوں کا اجلاس منعقد کیا جس کی فیس بک پر لائیو کوریج کی گئی اور طالبان کا راستہ روکنے کا اعلان کیا گیا۔ اسماعیل خان کے زیر اثر علاقوں کی بڑی آبادی پر ایران کا خصوصی اثر ہے اور طالبان کے دورِ حکومت میں بھی وہاں سے مزاحمت کار کمانڈروں کی بڑی تعداد نے ایران میں پناہ لی تھی۔
اس سارے منظر نامے میں بین الاقوامی طاقتیں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ روس اور چین کو خطرہ ہے کہ افغانستان میں بدامنی ان کے Eurasian Economic Union اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ افغانستان میں ایک عوامی حکومت قائم ہو۔ پاکستان بھی افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن کے لیے عوامی حکومت کے قیام کا حامی ہے۔ اسی لیے یہ قوتیں تمام افغان سٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز تک لانا چاہتی ہیں۔ دوسری جانب غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیٹو فورسز نے قطر میں واقع اپنے بیس پر افغان فورسز کی تربیت کے لیے قطر حکومت سے اجازت طلب کی ہے جبکہ امریکی حکومت ترکی سے بھی بات چیت کر رہی ہے کہ امریکا کے افغانستان چھوڑنے کے بعد ترک فوج افغانستان میں ایئرپورٹس کی سکیورٹی کی ذمہ داری نبھاتی رہے۔
اس تمام صورتِ حال میں سب سے زیادہ منفی کردار بھارت کا ابھر کر سامنے آیا ہے۔ بھارت ماضی میں بھی افغانستان کی سرزمین کو پڑوسی ممالک میں بدامنی کے لیے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے خلاف عسکری کارروائیوں میں بھی مشغول رہا ہے۔ 80ء کی دہائی میں افغان کمیونسٹ رہنمائوں کو استعمال کرنے، 90ء کی دہائی میں افغان وار لارڈز کو پیسے کے ذریعے خریدنے اور مختلف گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت نے افغانستان میں 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارتی سرمایہ کاری امریکی چھتری تلے تھی اور اسے یقین تھا کہ امریکا افغانستان میں مستقل قیام کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پاک افغان سرحد کے ساتھ ملحق صوبوں میں دھڑا دھڑ اپنے قونصل خانے قائم کیے اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا۔ بھارت افغان فوج کو طالبان کے خلاف جنگ میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ خصوصی دستوں کی تربیت بھی کرتا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے 80 ملین ڈالر خرچ کیے۔
اب جبکہ امریکا نے افغانستان سے انخلا کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تو بھارت کو اپنی افغانستان میں کی گئی ساری سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ اب اس نے افغانستان میں اپنی پالیسی پر واضح یوٹرن لیتے ہوئے افغان طالبان سے مذاکرات کی راہ تلاش کرنا شروع کر دی ہے۔ 2018ء تک بھارت کی یہ کوششیں عمومی سطح پر تھیں اور ان میں خاص تیزی نہیں آئی تھی۔ اسی لیے افغانستان میں امن کے لیے جو ماسکو میں اجلاس ہوا‘ اس میں بھارت نے اپنے دو نمائندوں کو شرکت کے لیے بھیجا؛ تاہم افغان حکومت یا طالبان میں سے کسی فریق کی حمایت نہیں کی۔ اس کے بعد بھارت کی جانب سے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی گئی۔ جب امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات شروع ہو گئے اور امریکا کا افغانستان چھوڑنے کا حتمی فیصلہ سامنے آیا تو بھارت نے طالبان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ افغان طالبان‘ جو ہر حوالے سے بھارت سے خائف تھے اور کسی بھی سطح پر اس سے مذاکرات نہیں چاہتے تھے‘ بھارت سے بات چیت سے واضح انکار کرتے رہے۔ یکم مئی 2021ء سے جب امریکی فوج کا انخلا شروع ہوا تو بھارت کی طالبان سے روابط کی کوششوں میں خاصی تیزی آ گئی۔ افغانستان میں ماضی میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے وار لارڈز‘ جو طالبان کی تھرڈ لیئر شمار کی جانے والی قیادت سے رابطے میں تھے‘ بھارت طالبان مذاکرات کی کوششیں کرتے رہے جو ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ قطر میں افغان طالبان کی شوریٰ کے ذرائع کے مطابق‘ بھارت نے اعلیٰ سطح پر طالبان سے روابط کی کوششیں شروع کیں اور اس مقصد کے لیے تین نامور صحافیوں کے وفد کو بھی طالبان شوریٰ کی دوحہ میں موجود قیادت کے انٹرویوز کے لیے بھیجا؛ تاہم بھارتی صحافیوں کو انکار کر دیا گیا۔ طالبان کو رابطے بحال کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش میں مستقل ناکامی کے بعد بالآخر بھارت کو مبینہ طور پر اپنے وزیر خارجہ جے شنکر کو غیر سرکاری دورے پر افغانستان بھیجنا پڑا۔ اس رابطے میں طالبان شوریٰ کے نمائندوں نے بھارت کے افغانستان میں ماضی کے کردار پر سخت تنقید کی اور آئندہ کسی رابطے کو بھارت کی افغانستان میں غیر جانبداری سے مشروط کر دیا۔ اس مختصر اور عمومی رابطے کو بھارتی میڈیا نے بہت ہائی لائٹ کیا اور اپنی خصلت دکھاتے ہوئے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ طالبان اور بھارت کے مابین پاکستان کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ اپنی ہزیمت اور رسوائی کو بھارت نے پاکستان پر الزام تراشی سے موڑنا چاہا مگر یہ کوششیں بھی بارآور نہیں ہو سکیں۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ افغان طالبان نے اس رابطے کو اتنی اہمیت نہیں دی کہ اس حوالے سے کوئی بیان ہی جاری کر دیں یا اس موضوع پر کوئی بات کریں۔ بھارت کے علاوہ‘ پاکستان سمیت تمام ممالک علاقائی ممالک بالخصوص پوری طرح ان کوششوں میں مصروف ہیں افغانستان میں ایک مضبوط اور مستحکم قومی حکومت وجود میں آئے جسے افغان عوام کی مکمل حمایت بھی حاصل ہو۔ افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن صرف افغانستان کے پڑوسی ممالک میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں امن کی ضمانت ہے۔ (ختم)