ہلمند کے معرکے سے سبق سیکھتے ہوئے طالبان نے ویت نامی گوریلا وار کی حکمت عملی کو اپنا لیا۔ صوبوں اور بڑے شہروں پر قبضہ کرکے انتظام سنبھالنے کے بجائے بڑے شہروں کے اطراف کے اضلاع اور جنگی نقطہ نظر سے اہمیت کے حامل اضلاع پر قبضہ کرکے وہاں مقامی عمائدین کے ذریعے شیڈو انتظامیہ کی تعیناتی شروع کر دی۔ اس طریقے سے انہوں نے افرادی قوت بچانے کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں کو مفلوج کر کے رکھ دیا اور کسی ضلع یا علاقے سے پسپائی کی صورت میں زیادہ نقصان بھی نہیں اٹھایا۔ اسی حملے کو افغان طالبان کی جانب سے آج تک جاری رکھا گیا ہے اور بڑی تعداد میں اضلاع پر قبضوں کے باوجود کسی بڑے شہر پر قبضہ نہیں کیا گیا ہے۔ دنیا کے لیے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ طالبان نے اپنے سابقہ علاقوں کے ساتھ ساتھ شمالی اور وسطی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے جس نے جنگی ماہرین کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کا پہلا ہدف پڑوسی ممالک کے ساتھ متصل صوبوں میں پیش قدمی رہی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ چمن اور طورخم کے ساتھ پاک افغان سرحد پر نمروز اور ہرات کے بیشتر اضلاع طالبان کے قبضے میں آ چکے ہیں جبکہ فرح پر بھی ان کا مکمل قبضہ ہو چکا ہے۔کنڑ اور ننگرہار بھی افغان حکومت کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ترکمانستان کی سرحد کے ساتھ بدغز، فریاب اور جوزان، ازبکستان کی سرحد کے ساتھ بلخ میں بیشتر اضلاع طالبان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔ تاجکستان کی سرحد کے ساتھ بدخشاں صوبے پر گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ اسلام قلعہ پر بھی طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ افغانستان کا شمالی زون‘ جس میں ماضی میں شمالی اتحاد سرگرم تھا‘ وہاں بھی طالبان نے پیش قدمی کر کے فریاب، سری بل، بغلان اور قندوز کے اضلاع میں لڑائی چھیڑی ہوئی ہے۔
افغان فوج کی طالبان کے سامنے ناکامی کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ افغان طالبان کے گھیرے میں آنے کے بعد افغان حکومت اپنے فوجیوں کو کمک پہنچانے میں ناکام رہتی ہے جبکہ امریکا کے جنگ سے نکلنے کے بعد فضائی قوت تقریباً صفر ہوکر رہ گئی ہے۔ افغان طالبان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور روایتی سیاسی دائو پیچ استعمال کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ اس کا نتیجہ بڑی تعداد میں افغان فوجیوں کے سرنڈر کرنے کی صورت میں سامنے آیا جس نے افغان حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ افغان حکومت کا سارا نزلہ افغان فوج کے سربراہ، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ پر گرا جنہیں اس صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح امریکی حکومت کی جانب سے ایسے تمام افغانوں سے بیرونِ ملک منتقل ہونے کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کسی بھی طرح امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس امریکی پیشکش کے بعد اب تک ایک لاکھ سے زائد افغانوں کی جانب سے امریکا کی مدد کرنے پر انہیں طالبان کی جانب سے جان کے خطرے کے پیش نظر درخواستیں جمع کرائی گئی ہیں۔ یہ امریکی اعلان سامنے آتے ہی افغان طالبان نے فوری طور پر ایسے تمام افراد کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ حکومت میں انہیں اہم ذمہ داریاں دینے کی پیش کش کر دی۔ افغان طالبان کے اس نوعیت کے اقدامات بتاتے ہیں کہ انہوں نے سیاسی دائو پیش کا استعمال بھی سیکھ لیا ہے اور اب وہ ماضی کے اپنے سخت گیر تاثر اور تشخص کو بدلنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
دوسری جانب افغان حکومت کی بڑی کمزوری یہ رہی کہ اسے امریکی بے ساکھیوں نے عوام میں جانے سے روکے رکھا اور افغان سیاسی رہنمائوں نے کبھی افغانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کو لڑائی کے دوران کسی قابل ذکر عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال سے پریشان ہو کر افغان حکومت کے اہم رہنما امریکا پہنچ گئے اور امن مذاکرات کے لیے امریکی مدد کے خواہاں ہوئے؛ تاہم امریکا نے کورا جواب دیتے ہوئے کہا ''افغان اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں گے‘‘۔ اس جواب سے انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ اب افغان رہنمائوں کے حوالے سے یہ افواہیں گردش کرنا شروع ہو گئی ہیں کہ اگر کابل طالبان کی جھولی میں گرتا ہے تو افغان رہنما سیاسی پناہ کے لیے امریکا کی جانب پرواز کر جائیں گے۔
دیکھا جائے تو بظاہر طالبان کی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے قبل افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیں تاکہ اسی حساب سے حکومت میں اپنا حصہ وصول کر سکیں؛ تاہم اگر طالبان کی یہی رفتار رہی جیسے کہ وہ تیزی سے کابل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اگر کابل پر ان کا قبضہ ہو جاتا ہے تو پھر شاید طالبان کسی کو حکومت میں حصہ دینے پر راضی نہ ہوں۔ اسی باعث عالمی برادری کی نظریں ایک بار پھر پاکستان، امریکا، چین اور روس پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں تاکہ کسی مستقل اور پائیدار امن معاہدے کی جانب سفر کا آغاز ہو سکے۔
افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں سب سے زیادہ فکرمند وہ ممالک ہیں جو اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) یوسف اپنی کتاب Silent Soldier میں لکھتے ہیں کہ افغانستان میں ہر دور میں مسلح گروہ موجود رہے ہیں جو لوٹ مار اور بیرونی ممالک کی کٹھ پتلی بن کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ افغان امن کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں۔ اب جیسے جیسے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہوتا جا رہا ہے‘ اسی نوعیت کے مختلف گروہوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ان گروہوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک بھی متحرک ہو گئے ہیں جبکہ پاکستان نے واضح طور پر افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اپنی پالیسی کا اعلان کیا ہے کہ کسی بھی طور کسی مسلح گروہ یا طاقت کے بل بوتے پر حکومت قائم کرنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ افغانستان میں حکومت کا قیام افغان عوام کا حق ہے اور پاکستان افغان عوام کے ساتھ ہے۔ اگر کسی مسلح گروہ کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پاکستان اپنا افغان بارڈر بند کردے گا۔ پاکستان کی جانب سے 2640 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کے بڑے حصے پر باڑ لگانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے دوسری طرف افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے بین الاقوامی کھلاڑی ایک دفعہ پھر سرگرم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
افغانستان میں ایک مسلح گروہ افغان طالبان پر مشتمل ہے جس میں اب حقانی نیٹ ورک اور غیرملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ جنگجو کالعدم القاعدہ سے تعلق رکھتے تھے؛ تاہم امریکا کی جانب سے طالبان سے مذاکرات میں القاعدہ کے غیر ملکی جنگجوئوں کو افغانستان سے نکالنے کی شرط کے بعد طالبان نے ان سے بیعت لے کر انہیں باقاعدہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ اس طریقہ کار سے طالبان نے القاعدہ کے جنگجوئوں کے اپنے ساتھ شامل کرکے القاعدہ کے افغانستان سے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے اور افغانستان میں کئی دہائیوں سے برسرپیکار حقانی نیٹ ورک بھی اب باقاعدہ طور پر طالبان میں شامل ہو چکا ہے اور اپنی الگ شناخت ختم کر چکا ہے۔ اسی طرح دوسرا گروہ افغان وار لارڈز پر مشتمل ہے جو افغانستان کے مختلف صوبوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور ماضی میں روس کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔ یہ گروپس 90ء کی دہائی میں طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی کے بعد پس منظر میں چلے گئے تھے اور طالبان حکومت کے دوران ہلکی پھلکی مزاحمت تک محدود رہے تھے۔ (جاری)