بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف نے1961ء میں پاک فوج کی فرنٹیئر ڈیفنس فورس ریجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور مختلف ذمہ د اریوں پر ادارے کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1983ء میں جب وہ ایک انفینٹری بریگیڈ کی کمانڈ کر رہے تھے، ان کی تعیناتی ایک اہم ادارے میں افغان بیورو کے سربراہ کے طور پر کر دی گئی جہاں وہ 1987ء تک افغان مجاہدین کی تربیت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے اور اسی سال ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ بریگیڈیئر (ر) یوسف افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والوں سے قریبی رابطے میں تھے جس کا احوال انہوں نے اپنی کتاب Silent Soldier میں بیان کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی گئی تھی جو 1988ء کے طیارے حادثہ میں صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مارے گئے تھے۔ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ افغانستان میں مسلح گروہوں، ان کے اختلافات، مقاصد اور پیسے کی لالچ میں دھوکا دینے کی روداد بیان کی گئی ہے، دوسری طرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان میں مفادات اور اس جنگ میں شمولیت کے تمام حقائق بھی بیان کیے گئے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) یوسف نے افغانستان کے حوالے سے دوسری کتاب Afghanistan: The Bear Trap میجر مارک ایڈکن کے ساتھ مل کر لکھی۔ مارک ایڈکن برطانوی فوج کے عہدیدار تھے اور The Waterloo Companion اور The Sharpe Companion جیسی معروف سیریز کے علاوہ بھی ان کی بہت سے کتابیں شہرت پا چکی ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے بریگیڈیئر یوسف اور میجر مارک ایڈکن کی اس تصنیف میں افغان جنگجوئوں کی کامیابی اور روس کی شکست کی وجوہات کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ثقافتی، معاشی اور سماجی معاملات کو زیر بحث لایا گیا ہے جو جنگ کے دوران مقامی جنگجوئوں کی کامیابی میں مدد گار ثابت ہوئے۔ آج افغانستان پھر ایک ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ حالات 90ء کی دہائی سے زیادہ گمبھیر اور خطرناک ہیں تو قطعی بے جا نہ ہوگا۔ اس وقت افغانستان جو دو دہائیوں پر مشتمل جنگ کے اختتام پر پہنچ چکا ہے‘ اب ہولناک اندرونی خانہ جنگی کے خدشات کے گھیرے میں ہے۔ ان حالات کو سمجھنے کے لیے بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف کی دونوں کتابیں کافی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
افغانستان میں موجودہ صورتِ حال عالمی توجہ کی متقاضی ہے۔ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی اور افغان افواج کی برق رفتار پسپائی پر اپنے پرائے سب دانتوں میں انگلیاں دابے بیٹھے ہیں۔ کہیں سے آواز آتی ہے کہ افغانستان میں ایسی پیش رفت کی تو ہمیں توقع ہی نہیں تھی اور کہیں سے کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پالیسی صورتِ حال واضح ہونے کے بعد مرتب کی جائے گی۔ اس صورتِ حال کو انہونی یا غیر متوقع کہنا قطعی طور پر درست نہ ہو گا۔ اگر اس کا بغور جائزہ لیں تو افغان طالبان کی منصوبہ بندی کے خدوخال واضح ہوتے چلے جائیں گے۔
افغان حکومت‘ جو گزشتہ دو دہائیوں سے امریکی کاندھوں پر کھڑی تھی‘ اب بری طرح ڈگمگا رہی ہے۔ اس کی بنیادوں کو امریکا کے افغانستان چھوڑنے کے اعلان نے بری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 2.26 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے اور بڑی تعداد میں فوجیوں کی اموات کے بعد امریکا نے جب افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس سے افغان حکومت سمیت کئی ممالک کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت جیسے کئی ممالک‘ جنہوں نے امریکا کی موجودگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کیلئے افغانستان میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی‘ کو اپنا سرمایہ ڈوبتا نظر آیا تو انہوں نے دہائیاں دینا شروع کر دیں اور امریکا سے مزید قیام کرنے کے لیے درخواستیں کرتے رہے؛ تاہم امریکا نے فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد بالآخر افغانستان سے مرحلہ وار واپسی کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔
ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ طالبان نے اٹھایا۔ افغان طالبان‘ جو اپنی گزشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد زمینی حقائق اور دوستوں کے بدلتے رویوں کے باعث جنگ کے میدانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان کے دائو پیچ میں بھی مہارت حاصل کر چکے تھے‘ نے اپنے تمام مہرے بہت ہی بہترین انداز میں استعمال کیے۔ انہوں نے امریکا سے مذاکرات کے دوران آنے والے اتار چڑھائو کے باوجود امریکا کو مذاکرات سے بھاگنے نہیں دیا۔ ان مذاکرات کے دوران پانچ مواقع ایسے آئے جب ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔ جب بھی امریکا مذاکرات سے گریز کرتا تو طالبان کے حملوں میں تیزی اور شدت آ جاتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ طالبان سے مذاکرات غیر ملکی افواج پر حملے روکنے کی صورت میں جاری رہ سکتے ہیں۔ بہرحال مذاکرات ہوئے اور امریکا کے افغانستان چھوڑنے کا معاملہ حتمی شکل اختیار کر گیا۔
اس صورتِ حال کا ایک بار پھر طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ہر سال موسم بہار میں Spring Offence شروع ہو جاتا تھا جس میں افغان فورسز کے ساتھ ساتھ غیر ملکی افواج کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ جب امریکا سے مذاکرات کا دور شروع ہوا تو افغان طالبان کی جانب سے سپرنگ اوفینس ختم کرکے کم شدت کے حملوں کو اختیار کر لیا گیا۔ دو سال کے اس عرصے میں طالبان نے اپنی تمام قوت جمع کی اور افغانستان کے شمالی، جنوبی اور وسطی حصوں کی جانب پھیلنا شروع کر دیا۔ اس دوران افغان فورسز پر کمزور نوعیت کے حملے جاری رہے جس سے افغان حکومت اپنی کامیابی کے خمار میں مبتلا رہی۔ بیرونی دنیا سمجھتی رہی کہ طالبان جنگجوئوں کی قوت کم ہو گئی ہے اور حکومت بنانے کے لالچ میں وہ اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئے ہیں۔ طالبان نے خاموشی سے اپنی منصوبہ بندی کے تحت اپنا پھیلائو جاری رکھا۔ اب جب یکم مئی 2021ء سے امریکا نے افغانستان سے انخلا شروع کیا تو طالبان نے پوری قوت سے حملے شروع کر دیے‘ جن سے اندازہ ہوا کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 29کے بیشتر اضلاع براہ راست طالبان کے حملوں کی زد میں ہیں۔ ان کی تیز رفتاری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ مہینے میں 421 اضلاع میں سے 157 اضلاع پر طالبان قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ دیگر 147 میں گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ افغان فورسز بڑی تعداد میں ہتھیار ڈال کر جنگجوئوں کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں۔ ویسے تو لگ بھگ نصف افغانستان طالبان کے زیر تصرف آ چکا ہے؛ تاہم افغان طالبان کی جانب سے ابھی تک کسی بڑے شہر یا صوبے پر باقاعدہ قبضہ کرکے حکومت قائم نہیں کی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ بھی ان کی جنگی حکمت عملی کا ہی حصہ ہے جس پر انہوں نے 2009ء میں ہلمند آپریشن کے بعد عمل کرنا شروع کیا تھا۔
ہلمند وہ صوبہ تھا جو نیٹو فورسز کے تحت برطانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ افغان طالبان نے ہلمند پر ایک بڑا حملہ کیا اور برطانوی فوج کو جانی نقصان سے دوچار کرنے کے بعد اس پر قبضہ کرکے پورے صوبے کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ نیٹو فورسز کے لیے سخت ہتک کا باعث بنا۔ جوابی آپریشن میں امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے پوری شدت سے حملہ کیا اور طالبان قبضے کو ختم کرا کے علاقہ واپس حاصل کر لیا۔ اس آپریشن میں طالبان کو بڑی تعداد میں جانی نقصان برداشت کرنا پڑا اور ان کا مورال سخت متاثر ہوا۔ اس کے بعد 2013ء میں طالبان ترجمان کی جانب سے حکمت عملی تبدیل کرنے کا باقاعدہ ٹویٹ کیا گیا جس کے بعد جنگی صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ (جاری)