پیچ افغانستان کے صوبہ کنڑ کا ایک ضلع ہے۔ یہ ضلع نوکدار اور خطرناک ڈھلوانوں سے پُر پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کے صدر مقام اسد آباد سے 32 کلومیٹر مغرب کی جانب وادیٔ کونگال ہے۔ 2005ء میں امریکی انٹیلی جنس کو اطلاع ملی تھی کہ افغانستان میں شکست کے بعد فرار ہونے والے طالبان کا ایک گروہ محمد اسماعیل نامی کمانڈرکی قیادت میں ان پہاڑیوں میں روپوش ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکا افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کا اعلان کرچکا تھا اور مفرور طالبان کو تلاش کرکے ختم کرنے کے مشن پہ تھا۔ اس اطلاع کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کی ہائی کمان کی جانب سے اپنی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد فورس 'نیوی سیلز‘ کو یہ مشن سونپا گیا۔یہ فورس سمندر، صحرائوں، جنگل، پہاڑوں اور شہروں میں دہشت گردوں کے خلاف چھوٹے آپریشنز کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور تھی اور کبھی ناکام نہیں ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مفرور طالبان کے خلاف پہلے بڑے آپریشن کے لیے بھی اسی فورس کا انتخاب کیا گیا تھا۔ 27 جون 2005ء کو شروع کیا گیا یہ آپریشن جولائی کے وسط تک جاری رہا۔ یہ افغانستان میں داخلے کے بعد امریکی فوج کی طالبان جنگجوئوں کے خلاف پہلی بڑی زمینی کارروائی تھی جس میں کسی اتحادی فوج کے اہلکار موجود نہیں تھے۔ اس کارروائی کو ''Operation Red Wing‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ کارروائی کا آغاز چار نیوی سیلز کو'' کونگال وادی‘‘ میں اتار کر کیا گیا۔
آپریشن شروع ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ چاروں امریکی اہلکار طالبان کے گھیرے میں آگئے اور تین اہلکار موقع پر ہی مارے گئے جبکہ ایک اہلکار مارکس لوٹرل شدید زخمی ہوگیا۔ جھڑپ شروع ہوتے ہی ان اہلکاروں نے بگرام ایئر بیس سے مدد طلب کی ؛تاہم امریکی نیوی سیلز کو کمک دیر سے پہنچی۔ اس ٹیم کی مدد کے لیے دو ہیلی کاپٹرز میں نیوی سیلز کے مزید اہلکاروں کو بھیجا گیا۔ جیسے ہی امریکی ہیلی کاپٹر اس مقام پر پہنچے‘ جہاں جھڑپ ہوئی تھی اور ایک امریکی زخمی اہلکار مارکس لوٹرل موجود تھا‘ اچانک طالبان جنگجوئوں کی جانب سے ایک امریکی ہیلی کاپٹر گرادیا گیاجس میں سوار نیوی سیلز کے 16اہلکار مارے گئے۔یہ منظر دیکھتے ہی دوسرا ہیلی کاپٹر آپریشن ادھورا چھوڑ کر بگرام ایئربیس واپس چلا گیا۔امریکاکی تاریخ میں اسے سیاہ دن سے تعبیر کیا گیا اور امریکی نیوی سیلز میں سوگ منایا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی اس سپیشل فورس کو دنیا بھر میں سینکڑوں مشن سرانجام دینے کے دوران کبھی بھی کسی ایک کارروائی میں اس قدر جانی نقصان نہ اٹھانا پڑا تھا۔زخمی امریکی اہلکار مارکس لوٹرل کو قریبی گائوں سالار بن کے ایک رہائشی گلاب خان نے اٹھایا اور اپنا مہمان بنا کر اس کی تیمارداری کرتا رہا۔ جب مارکس کو ہوش آیا تو اس نے گلاب خان کو ایک خط دے کر بگرام ایئر بیس بھیجا جس کے پانچ روز بعد امریکی فوج نے اپنے زخمی اہلکار کو بحفاظت وہاں سے نکالا۔ یہ واقعہ امریکا کے لیے اس قدر اہمیت کا حامل رہا کہ اس پر امریکا کے مشہور ناول نگار پیٹرک رابنسن نے ایک کتاب ''Lone Survivor‘‘ لکھی جس کا بڑا حصہ امریکی نیوی سیلز کے واحد بچ جانے والے اہلکار مارکس لوٹرل کی یادداشتوں پر مشتمل تھا۔ امریکی حلقوں میں اس نقصان کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ امریکی فلم ڈائریکٹر پیٹربرگ نے 40 ملین ڈالر سے ''Lone Survivor‘‘ نام سے ہی ایک بائیوگرافک وار فلم بھی بنائی۔ یہ تمام کوششیں نیوی سیلز کے مورال کو بلند کرنے اور عوام میں اس کی ساکھ کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے تھیں۔اس کتاب اور فلم میں مہمان نوازی اور مہمان کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگادینے کی افغان روایات کی تعریف بھی کی گئی۔
اسی طرح آپریشن ریڈ ونگ طرز کا ایک اور آپریشن ''میڈوسا‘‘ 2006ء میں ہوا جسے نیٹو کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن قرار دیا جاتا ہے۔ طالبان جنگجو جب پیش قدمی کرتے ہوئے قندھار کے قریب پہنچ گئے تو صوبے میں تعینات نیٹو کی شمالی کمان کے سربراہ کینیڈین فوج کے میجر جنرل ڈیوڈ فریزیر کا ٹکرائو اِن جنگجوئوں سے ہوا۔ اسے نیٹو افواج اور طالبان جنگجوئوں کی سب سے خون ریز لڑائی قرار دیا جاتا ہے۔ اس لڑائی میں ایساف کے تحت کینیڈا، امریکا، برطانیہ، ہالینڈ، ڈنمارک اور افغان فوج کے اہلکار حصہ لے رہے تھے۔ اس کارروائی میں طالبان پسپا ہوگئے؛ تاہم اتحادی افواج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس لڑائی کا احوال افغانستان میں نیٹو کی شمالی کمان کے سربراہ میجر جنرل ڈیوڈ کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ''Operation Medusa: The furious battle that saved Afghanistan from Taliban‘‘ برائن ہننگٹن نے لکھی جبکہ نیٹو کی اس خون ریز معرکے پر ہی دوسری کتاب ''Lions of Kandhar‘‘ امریکی صحافی کیوین میرر نے لکھی۔
ایک اور آپریشن جو بہت مشہور ہوا‘ افغانستان کے صوبے نورستان میں کیا گیا تھا جس میں امریکی چیک پوسٹ پر افغان طالبان کے حملے میں 14امریکی اور 8افغان فوجی مارے گئے تھے۔چیک پوسٹ کا دفاع کرنے و الے ایک امریکی اہلکار کو فوجی اعزاز دیا گیا تھا۔ اس کا احوال ''Red Platoon: A True Story of American Valor‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک اور فوجی آپریشن مشرقی افغانستان کی برف پوش پہاڑیوں کی 10 ہزار 449 فٹ بلند چوٹی پر ہوا۔ ایک پہاڑی چوٹی پر قبضے کے لیے لڑی گئی اس جنگ میں ایک اہلکار ہیرو قرار پایا اور اس ''معرکے‘‘ کا احوال Alone At Dawn میں درج کیا گیا۔ اسی طرح Into the Fireطالبان جنگجوئوں کے اچانک حملے میں غیرملکی افواج کی کہانی بتاتی ہے تو One Million Stepsایسی یونٹ کی داستان ہے جس نے افغان جنگ کے دوران سب سے زیادہ افراد کھوئے مگر لکھاری کے مطابق ان کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ Outlaw Platoon بھی غیرملکی لکھاریوں کا اپنے اہلکاروں کو خراجِ تحسین ہے۔
اگرچہ امریکا و اتحادیوں نے افغانستان میں 32بڑے اور سینکڑوں چھوٹے آپریشنز کیے اور یقینی طور پر ان آپریشنز پر مزید کتابیں بھی موجود ہوں گی مگر یہ وہ چند کتب ہیں جوافغان جنگ کے حوالے سے میری نظر سے گزریں۔ انہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ افغانستان جنگ میں شامل رہنے والے نیٹو ممالک کے عوام کی آنکھوں میں ان لکھاریوں نے کس طرح دھول جھونکی اور کیسے ناکامیوں کو بڑھا چڑھا کر کامیابیاں بنا کر پیش کیا گیا۔ حقائق کو اس قدر مسخ کیا گیا ہے کہ طویل عرصے تک افغانستان پر حملہ کرنے والوں کی کامیابی کا فسوں دنیا پر قائم رہا مگر آج امریکا کا اپنا اتحادیوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں بگرام ایئر بیس سے نکل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کتابوں میں محض لفاظی کی گئی تھی۔اگر ان میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو افغانستان کی صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی۔ امریکا جو افغانستان میں امن قائم کرنے، جمہوری حکومت لانے اور دہشت گردوں کے خاتمے کے اہداف لے کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا‘اس جنگ میں 2.26ٹریلین ڈالر جھونک دینے کے باوجود کچھ حاصل نہ کرسکا۔ اب جبکہ اس کی واپسی آخری مراحل میں ہے تو صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں دہشت گرد قرار دیے گئے طالبان جنگجو 85 فیصدافغانستان پر قبضے کا دعویٰ کررہے ہیں اور امریکا نے ان دہشت گردوں سے ہی محفوظ راستہ مانگ کر افغانستان چھوڑا ہے۔ افغانستان کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں لیکن اس ساری تباہی کی ذمہ دار صرف امریکا و اتحادی ممالک کی افواج ہی نہیں بلکہ وہ قلمکار بھی ہیں جو حقائق بتانے کے بجائے شکست کو فتح ثابت کرنے میں جتے رہے۔جنگ کی تباہ کاریوں سے ہیروازم کشید کرکے عوام کو گمراہ اور جنگی جنونیوں کی تسکین کا سامان کرنے والے قلمکار بھی افغانستان کی بربادی اور قتلِ عام میں برابر کے شریک ہیں۔