یہ بھی ہوا کہ بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے جس طرح گندم اور چینی دگنی قیمت پر برآمد کی گئی اسی طرح ان چینی کمپنیوں کے ساتھ بھی سودا دگنی قیمت پر کرنا پڑا کیونکہ جب قیمتیں کم تھیں اُس وقت ہم مفت کی ویکسین کا انتظار کر رہے تھے۔ حکمرانوں کی نااہلی کی داستان یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی‘ گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ ایمونائزیشن (گاوی) کے تحت مارچ میں بھارت کی تیار کردہ Oxford-AstraZeneca نامی ویکسین کی ساڑھے چار کروڑ ڈوزز پاکستان کو ملنی تھیں۔ ان ڈوزز کی پاکستان آمد کی خبریں ایسے سنائی جارہی تھیں جیسے ہمالیہ سر کرلیا گیا ہو ‘مگر یہاں بھی کام اُلٹا ہوگیا۔ کورونا کی تیسری لہر نے جب تباہی پھیلائی تو بھارت بھی بری طرح متاثر ہوا۔ انڈیا سیرم انسٹی ٹیوٹ نے فوری طور پر پیغام بھجوا دیا کہ ہم سب سے پہلے بھارتی شہریوں کو ویکسین فراہم کریں گے اس کے بعد کسی کی ویکسین فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے‘ اس لیے پاکستان کم ازکم مئی تک تو ویکسین بھول جائے۔ حکمرانوں نے اس سے بھی سبق نہ سیکھا‘ نجی دواساز کمپنیاں ویکسین کی فراہمی کے لیے میدان میں اتریںتو حکومت نے اپنی اہلیت کے مطابق ان کے ساتھ بھی ویکسین کے نرخوں کے حوالے سے تنازع پیدا کرلیا۔ یہ موجودہ حکومت ہی ہے جو ایسے ہنگامی حالات میں بھی مسائل کو حل کرنے کے بجائے تنازعات کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روسی ویکسین سپوتنک کی دو خوراکوں کی قیمت 8449اور چینی کمپنی کین سائنو کے ایک انجکشن کی سیل پرائس 4225مقرر کی۔ اس تنازعے کے بعد نجی دوا ساز کمپنیاں خاموش ہوگئیں۔
اب جب حکمرانوں نے دیکھا کہ کہیں سے بھی ویکسین نہیں مل رہی‘ مارکیٹ میں شارٹ ہوگئی ہے تو ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ حکومتی اتحادی چودھری پرویز الٰہی بھی بول اُٹھے کہ کہاں ہے کورونا کی ویکسین؟ حکومت کو اور تو کچھ نہ سوجھا فوری طور پر اپنے سر سے بلا ٹالنے کے لیے نیا ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ صوبے اپنے طور پر ویکسین کا انتظام کرسکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہے۔یہ حکومتی ہدایت سندھ اور وفاق کی ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال نہیںبلکہ وفاقی حکومت کی نااہلی کا نمونہ ہے۔ یہ ہدایت نامہ اس وقت جاری کیا گیا جب بہت دیر ہوچکی تھی۔
اب کورونا کی تیسری لہر آئی ہے تو حکمران خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے ہیں۔ عوام سے احتیاط کے متقاضی ہیں۔حکومت کو چاہئے تو یہ تھا کہ جب عوام پہلی اور دوسری لہر کے بعد کسی حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے تھے تو ان ایس او پیز کو جاری رکھتی۔ اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے کے بجائے عوام کو ماسک کو کم از کم اپنے لباس کا حصہ بنا لینے کی ترغیب دیتی۔ کاروباری طبقے کو جن پابندیوں کا عادی بنایا گیا تھا اس میں معمولی نرمی دے دی جاتی مگر اسے ختم نہ کیا جاتا۔عوام کو یہ باور کرایا جاتا کہ خطرہ موجود ہے اور ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اسد عمر صاحب جو اَب فرمارہے ہیں کہ کورونا میں تشویشناک پھیلائو کا سبب عوام کی لاپروائی اور غیر محتاط رویہ ہے‘ وہ اُس وقت کہاں تھے جب حکومتی اجلاس اور نجی محافل میں وزراء بغیر ماسک کے شرکت کررہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل صاحب جو کورونا سے نجات پانے کے بعد اسلام آباد میں اپنے جنم دن کی مختصر پارٹی رکھتے ہیں اور اس میں شریک وزراء بغیر ماسک کے نظر آتے ہیں تو کیسے عوام کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ کورونا سے بچنے کے لیے ماسک پہنیں۔ وفاقی وزراء بغیر ماسک کے پریس کانفرنسز کرتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ کیسے لوگوں کو قائل کریں گے کہ کورونا خطرناک وبا ہے۔ وزیراعظم احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر قرنطینہ میں ہی اجلاس کرلیتے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی اور وزیردفاع پرویز خٹک بھی کورونا کا شکار ہوکر سوشل میڈیا کے ذریعے دعائے صحت کی اپیل کرتے پائے گئے۔ اللہ اِن سمیت تمام مریضوں کو شفا دے۔ کوئی ان رہنمائوں سے پوچھے کہ جن محافل میں آپ نے شرکت کی کیا ان محافل کے شرکا کا کورونا ٹیسٹ کرایا گیا ہے؟جب حکومتی نمائندے بغیر ماسک اور ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے نظر آئیں گے تو عوام کو کیسے سمجھائیں گے کہ وبا سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
کورونا کی تیسری لہر کے اثرات ظاہر ہونے کے ساتھ ہی سندھ حکومت کی جانب سے بہتر اقدامات کئے گئے تھے‘اسی لیے دیگر صوبوں کی نسبت کورونا کی تیسری لہر سے متاثر ہونے والوں کی تعدادبھی کم ہے۔ صوبائی حکومت نے بیرون ملک سے آنے والوں کی سکریننگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور برطانیہ سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کے دوران جن 73مسافروں میں کورونا کی تشخیص ہوئی انہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔ سندھ میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی ایس او پیز پر عمل درآمد بھی جاری رکھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ جب پنجاب میں کورونا کے ایکٹو کیسزکی تعداد 30 ہزار516 تک پہنچ چکی ہے اس وقت سندھ میں ایکٹو کیسز کی تعداد 5ہزار 227ہے۔
صورتحال اب یہ ہے کہ کورونا کی تیسری لہر خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے۔ یہ وبا اب صرف بڑوں کو ہی نہیں بچوں کو بھی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ملک بھر میں دس ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سات دن کے بچے سے لے کر ایک سال تک کے سینکڑوں بچے نازک حالت میں ہیں۔ یہ وبا اس تیزی سے پھیل رہی ہے کہ ہسپتالوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ یہ بات تو طشت از بام تھی ہی کہ پاکستان کا صحت کا ڈھانچہ کسی وبا کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اسلام آباد کے دوسرے بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرز سمیت 152نرسیں اور طبی عملہ قرنطینہ میں ہے۔ لاہور کے سروسز ہسپتال میں بھی 110ڈاکٹر اور طبی عملہ کورونا کا شکار ہوچکاہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ وباکس تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ جو مریض لائے جارہے ہیں ان میں اکثر نازک حالت میں ہوتے ہیں‘ انہیں آکسیجن اور دوسری ہنگامی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے‘ حکومت جو اقدامات آج کر رہی ہے اسے چاہیے تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے متحرک ہوتی ‘ یوں یہ نوبت نہ آتی۔
طبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کورونا کی تیسری لہر کے بعد چوتھی اور پانچویں لہر بھی آئے گی۔ اگر ایس او پیز کو مستقل نہ کیا گیا اور حکومت نے غیر سنجیدہ رویہ ختم کرکے بے لچک انداز نہ اپنایا تو اس وبا کو قابو کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اب دوسروں پر الزام دھرنے سے کام نہیں چلے گا‘ اس بار اپنی انتظامی نااہلی کا الزام جب اپوزیشن جماعتوں پر نہیں ڈالا جاسکتا تھا تو عوام پر ڈالنا شروع کردیا۔ حکمران اپنے گریبان میں بھی جھانک لیںاور یہ ثابت کرنا چھوڑ دیں کہ انہیں تو عوام بھی ٹھیک نہیں ملے۔ دوسری طرف عوام کو بھی چاہئے کہ زندگی خدا کی عطاکردہ امانت ہے‘ اس کا خیال رکھیں۔ احتیاط کا دامن چھوڑ کر ہم غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گزشتہ برس کی اذیت کو یاد رکھیں اورایسے حالات نہ پیدا ہونے دیں کہ دوبارہ مکمل لاک ڈائون کی جانب جانا پڑے۔ کسی بھی لاک ڈائون کی صورت میں پہنچنے والے معاشی دھچکے سے سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ دنیا تو اس وبا سے نمٹ لے مگر ہم پولیو کی طرح اس وبا میں گھرا رہ جانے والا آخری ملک ثابت ہوں اور ہمیں دوسرے ملکوں کے سفر کے لیے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت پیش آئے۔ حکومت انتظامی ذمہ داریاں ادا کرے اور عوام احتیاط کریں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔ (ختم)