بجٹ کا دور دورہ ہے، ہر طرف عددی گورکھ دھندوں کا کھیل جاری ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں آئندہ سال کے بجٹ کے ساتھ میدان میں اترچکی ہیں۔ ایک ہفتہ ہونے کو آیاہے کہ سکرینوں پر مسلسل لمبے چوڑے اعدادوشمار دکھائے جارہے ہیں۔ رنگ برنگے ڈبے بنا کر ہندسوں کا ہیر پھیر عوام کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میڈیا پر تو یہ سب کچھ بیان کیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب بجٹ کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت ببانگِ دہل اسے عوام دوست جبکہ اپوزیشن اسے عوام دشمن قرار دیتی نظر آرہی ہے۔ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت‘ نمبروں کی ان بھول بھلیوں کو ظفر کمالی صاحب بہت خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں ؎
خسارے پر خسارے کا بجٹ تیار ہوتا ہے
معیشت کی ترقی کا مگر پرچار ہوتا ہے
اب ہوتا یہ ہے کہ جو بھی نمبروں کی جادوگری ہوتی ہے‘ عام آدمی کے مفاد میں بتائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے سر ڈال کر اپنی سیاست کرنے والے حکومتی و اپوزیشن اراکین‘ دونوں عوامی رائے جاننے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ کاش کہ اربابِ اختیار جان سکتے کہ ایک عام آدمی بجٹ کے حوالے سے اپنی رائے کیسے قائم کرتا ہے؟ دراصل عام آدمی کو بالکل بھی حکومت اور اپوزیشن کے دعووں سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ ٹی وی پر بتائے جانے والے حکومتی اعدادوشمار سے زیادہ اس کی دلچسپی محلے کے سٹور پر آویزاں اس نرخ نامے میں ہوتی ہے جو براہِ راست اس کے گھریلو اخراجات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ سکرینوں پر جگمگاتے رنگ برنگے ہندسوں سے زیادہ توجہ پرانے سے کاغذ پر ٹیڑھے میڑھے انداز میں درج ان نمبروں کو دیتا ہے جو کسی بھی سبزی یا پھل فروش کی ریڑھی پر آویزاں ہوتے ہیں۔ یہ اس کے پیمانے ہوتے ہیں جن پر وہ بجٹ کی جانچ کرتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کی دلیل میں جب کنڈیکٹر پٹرول کے بڑھتے نرخ بتاتا ہے تو عام آدمی بجٹ کے عوام دوست یا عوام دشمن ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ بچوں کی فیسیں، بجلی و گیس کے بل، کم ہوتی تنخواہیں، غرض یہ کہ اس کے ماہانہ اخراجات اسے بتاتے ہیں کہ حکومتی دعووں میں کس حد تک حقیقت ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ عوام دوست ہونے کے دعوے میں اتنی ہی حقیقت ہے جتنی انتخابات سے قبل اس حکومت کے عوامی ہونے کے دعوے میں تھی۔ بجٹ پر سرسری نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے نام پر پیش کیے گئے اس بجٹ میں اربوں روپے براہِ راست عوام کی جیبوں سے آئندہ سال گزارنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں پٹرول کا جس سے براہ ِراست ہر عام و خاص متاثر ہوتا ہے۔ پٹرولیم لیوی صفر کرکے پٹرول سستا کردینے کے دعوے کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے ایسی قلابازی کھائی ہے کہ سب حیران ہیں۔ حکومت سنبھالتے وقت 170ارب کی پٹرولیم لیوی کو تین سال میں 450ارب تک پہنچانے کے بعد آئندہ سال کے لیے اس کا ہدف 610ارب روپے کردیا گیا ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا جائزہ پندرہ روز بعد لیا جارہا ہے۔ امکان یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آئندہ دنوں میں عوام کے ہوش اڑانے میں اہم کردار ادا کریں گی جس کا آغاز ہوچکا ہے۔ بجٹ آنے کے محض چار دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے بجٹ کے ''عوامی ‘‘ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ مزید یہ کہ ماہرین رواں سال یہ نرخ 125سے 130روپے تک پہنچنے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ بجٹ‘ جس کو عام آدمی کا دوست بجٹ قرار دیا جارہا تھا‘ کی دستاویزات پر نظر دوڑائیں تو ڈائریکٹ ٹیکسز، جن کے ذریعے کاروباری اور مالدار افراد سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے‘ کے آئندہ سال کے ہدف میں صرف 139ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اِن ڈائریکٹ ٹیکسز‘ جس کا براہِ راست اثرروزمرہ کی اشیا کے نرخوں میں اضافے کی صورت سامنے آتا ہے اور جن سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے‘ کے آئندہ سال کے ہدف میں 727ارب روپے کا اضافہ کرکے متوسط طبقے کی جیب کو ہدف بنایا گیا ہے۔ جب اس اضافے کے اثرات سامنے آنے شروع ہوں گے تو یقینی طور پر عام آدمی اپنے محلے کے جنرل سٹور پر آویزاں ریٹ لسٹ اور سبزی و پھل فروشوں کے ٹھیلوں پر نصب نرخ ناموں پر ہونے والی تبدیلیوں سے خود ان کا مشاہدہ کرے گا۔ پھر جب عوام دیکھیں گے کہ جنرل سیلز ٹیکس کو 17سے 7فیصد پر لانے کا دعویٰ کرکے اقتدار سنبھالنے والے تین سال میں اسے ایک فیصد بھی کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو دعوے اور کارکردگی کا معیار جانچنا قطعی مشکل نہ ہوگا۔
حکومت کی بجٹ دستاویزات میں ایک حصہ متفرق آمدنی کا بھی ہے جسے دیکھ کر مجھے اپنا کالج کا وہ دوست یاد آگیا جو کسی بھی پکنک وغیرہ کے لیے انتظامات کرتا تھا۔ اس کا حساب کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سو روپے کا کھانا، سو روپے کی ٹرانسپورٹ اور پانچ ہزار کے متفرق اخراجات۔ جب اس سے پوچھا جاتا کہ متفرق اخراجات کی تفصیل دو تو اس کا جواب ہوتا تھا کہ متفرق کا حصہ ہوتا ہی اس لیے ہے کہ جو ڈنڈی مارنی ہے اس حصے میں مار لو‘ اس کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔ اب حکومت نے جو متفرق آمدن کا حصہ رکھا ہے‘ اس کا مکمل انحصار بھی عام آدمی کی کمائی پر ہی ہے۔ گزشتہ سال کی متفرق آمدن 727ارب روپے تھی جس میں 373ارب روپے کا اضافہ کرکے اس کا ہدف آئندہ مالی سال کے لیے 1100ارب روپے کردیا گیا ہے۔ اب یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ متفرق آمدن میں ہی ایک اور کالم ''دیگر آمدن‘‘ کا شامل کرکے اس میں 14ارب روپے کی وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے بلندبانگ دعوے اب بھی جاری ہیں کہ جی ڈی پی 47709ارب روپے ہونے کے بعد فی کس آمدن بھی 2لاکھ 15ہزار سے 2لاکھ 46ہزار روپے ہوگئی ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں، مگر حکومتی ماہرین یہ بتانے سے کیوں قاصر ہیں کہ اگر واقعی ترقی کی صورتحال خوش کن ہے تو عام آدمی کی قوتِ خرید کیوں کم ہوتی جارہی ہے۔ بجٹ دستاویزات سے نکل کر فی کس آمدن میں اضافہ حقیقی طور پر نظر کیوں نہیں آرہا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل اضافہ تو ان گنے چنے افراد کے بینک اکائونٹس میں ہورہا ہو جن کے ہاتھوں میں کل سرمایے کا ہیرپھیر ہے۔ باقی رہی بات عام آدمی کی تو اس کا کردار صرف ''فی کس اوسط‘‘ نکالنے کے لیے محض گنتی میں شمار کیے جانے کی حد تک ہے۔ اس فی کس آمدن کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ متوسط طبقہ تقریباً ختم ہوکر خطِ غربت کو چھونے لگا ہے۔ عام آدمی کے گھر کی صورتِ حال اس درجہ ابتر ہو چکی ہے کہ اسے لمبے چوڑے حساب کتاب میں دلچسپی ہی نہیں رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے کتنا قرض لیا، ملک پر کتنا قرض ہوچکا ہے اور اس قرض کی وجہ سے ہر شہری پر کتنا قرض بڑھ رہا ہے، بین الاقوامی اداروں سے لیا جانے والے قرض کہاں استعمال ہورہا ہے، ان سب اعدادوشمار کو وہ اس وقت دیکھے گا جب اپنے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کیلئے لیے گئے قرض سے چھٹکارا حاصل کرسکے گا۔ کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو بجٹ دستاویزات کے بجائے ماہرین کی زبانی پتا چلتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ''دستِ شفقت‘‘ کے باعث آئندہ سال بجلی کے نرخوں میں تین سے چار روپے فی یونٹ اضافہ متوقع ہے۔ عوام دوست حکومت جو ایئرکنڈیشن کے بجائے پنکھوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی تھی‘ لگتا ہے کہ اب وہ ہاتھ کا پنکھا استعمال کرنے کی جانب لے جارہی ہے۔ عوام تو بس اپنی دوست حکومت سے بزبانِ میرؔ یہ کہہ رہے ہیں کہ ؎
خلافِ وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تو وعدہ وفا کرو اب
ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب