حکومتی وزرا کو اس وقت ایسی صورتِ حال کا سامنا ہے کہ جس کے سبب ان کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں۔ زبانیں گنگ ہو گئی ہیں اور چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ اب کیا کریں گے۔ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ان پانچ سالوں کے دوران ایسی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ ایسے موقع پر کہ جب اپوزیشن اتحاد ٹکڑوں میں بٹ کر اب اپنے ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہے اور ایک دوسرے کے مخالف کو سلیکٹڈ قرار دینے میں مصروف ہے‘ حکومت کو خوشیاں منانا چاہیے تھیں مگر وہ سراسیمگی کا شکار ہے ۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ حکومت کی بقیہ نصف مدت ختم ہونے تک بظاہر تو کوئی اپوزیشن نظر نہیں آتی الّا یہ کہ ہونہار بروا کے یہ چکنے چکنے پات خود اپنے لیے ہی اپوزیشن نہ ثابت ہوں۔ ایسی مثالی صورتِ حال میں بھی‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی وزرا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اچانک ہی ان کی پریس کانفرنسز میں ناصرف کمی آگئی ہے بلکہ دن میں درجنوں بار ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونے والوں نے اب یہ کام وزرائے اطلاعات پر چھوڑ دیا ہے۔ سب ایسے غائب ہو گئے ہیں جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہ رہا ہو۔
چند روز پہلے کا ذکر ہے کہ وزیراعظم نے‘ دو حصوں پر مشتمل‘ ایک بیان دیا۔ پہلے حصے میں اپنے کھلاڑیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اب اہمیت نہیں رکھتی‘ اس لیے اپوزیشن کے خلاف بیان بازی ختم کر دی جائے۔ یہاں تک تو بات بالکل ٹھیک اور بلاشبہ قابلِ ستائش بھی ۔ یہ اعلان بہت پہلے کر دینا چاہئے تھا‘ بہرحال دیر آید درست آید۔ اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں کہ حکومت اور حکومتی زعما کی نظروں میں نمبر بنانے کے لیے اپوزیشن پر تبرا کرنے کی روایت میں کمی آ گئی ہے۔ حکومت جو مسلسل ''کنٹینر موڈ‘‘ پر چل رہی تھی اور قومی معاملات میں بھی سیاسی ہم آہنگی کی قائل نظر نہ آتی تھی‘ وزیراعظم کا یہ بیان اس پالیسی میں یوٹرن ثابت ہوا ہے جسے بہرحال مثبت یوٹرن ہی کہا جانا چاہئے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ وزیراعظم نے یہ نہیں کہا تھا کہ ٹی وی سکرینوں سے مکمل طور پر غائب ہو جائیں بلکہ انہوں نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں کہا تھا کہ اپوزیشن پر بیان بازی کے بجائے عوام کو اپنی وزارتوں اور حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کریں۔ اب وزیراعظم کے بیان کے دوسرے حصے کے بعد تو میڈیا کے مائیکس سے بھری میزوں کے سامنے کرسیوں پر براجمان ہونے کے لیے آپس میں الجھنے والوں کو چاہیے تھا کہ اب زیادہ جوش و جذبے سے عوام کے سامنے آتے، حکومتی اور اپنی کارکردگی بتانے کے لیے بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک وزیر ٹی وی سکرین پر نمودار ہوتا اور اپنی وزارت کے حوالے سے تمام تفصیلات عوام سے شیئر کرتا کہ کیا انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں، اڑھائی سال میں کیا تبدیلیاں لائی گئیں، نتائج کیا رہے، خسارہ کتنا کم ہوا۔ میں منتظر تھا کہ جس تند وتیز زبان و بیان کے ساتھ اپوزیشن پر تنقید کی جاتی تھی اور دن میں کئی کئی بار اسے ملامت کی جاتی تھی، اب اسی طرز پر اپنی وزارتوں کی کارکردگی اور حکومتی کار ہائے نمایاں بتانے کے لیے بھی اسی تعداد میں پریس کانفرنسز ہوں گی مگر یہ خواہش حسرت ہی رہ گئی۔وہ جو اپوزیشن پر طنز و تشنیع کے تیر برسانے کے لیے جمع ہوتے تھے، اب پردۂ سکرین سے مکمل طور پر غائب ہیں۔ جس دن سے وزیراعظم نے ''کنٹینر سیاست‘‘ سے گریز کا تاثر دیتے ہوئے اپنی کارکردگی بتانے کی ہدایت کی ہے، ماضی میں اپوزیشن کو رگیدنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے والوں میں سے مجال ہے کہ کسی ایک نے بھی پریس کانفرنس کرکے اپنی وزارت یا حکومت کی کارکردگی بتانے کی کوشش کی ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں ان سے کارکردگی سے متعلق سوال نہیں ہوئے۔ ہوتے تھے مگر لفظوں کے جادوگر سائل کو گھن چکر بنا دیتے تھے۔ سوال ہوتا کہ جناب اب تک پیٹرول مافیا، چینی مافیا، آٹا مافیا پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا سکا تو فوری طور پر جواب آتا کہ اصل مافیاز تو اپوزیشن رہنما ہیں۔ کوئی بھولا بھٹکا یہ سوال داغتا کہ آپ کے دور میں ریلوے کا خسارہ 35 ارب روپے سے بڑھ کر 46 ارب تک کیسے پہنچ گیا تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ اپوزیشن والے چور ہیں۔ جب پوچھا جاتا کہ قواعد کے خلاف ریلوے کے افسران دیگر محکموں میں اہم عہدوں پر کیسے تعینات ہو گئے اور جو لوگ ریلوے کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں‘ وہ دوسرے محکمے کو کیسے چلائیں گے تو جواب ملتا کہ اپوزیشن والے ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ کوئی پوچھ بیٹھتا کہ اطلاعات ہیں کہ سوئی سدرن، پشاور الیکٹرک سپلائی، ناردرن پاور جنریشن سمیت خسارے کے شکار اداروں کے فرانزک آڈٹ میں کیوں لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا تو کھڑاک سے جواب ملتا کہ اپوزیشن رہنمائوں کی بیماری محض ایک ڈرامہ ہے۔ پریس کانفرنسز کی یکسانیت سے اکتا کر صرف منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کو ہی اگر پوچھ لیا جاتا کہ سینیٹ کا الیکشن لڑنے کے بعد حفیظ شیخ کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کرنے کے بعد فارغ کیوں کر دیا گیا جبکہ معاشی پالیسیوں کی تعریف بھی کی جا رہی تھی تو جواب ملتا کہ ماضی کی حکومتیں خزانہ لوٹ کر کھا گئی ہیں۔ خارجی امور کے ذمہ داران سے سوال ہوتا کہ 28 فروری کو معاملہ وزیراعظم کے علم میں لانے کے بعد ای سی سی سے منظوری حاصل کی گئی اور پھر 26 مارچ کو وزیراعظم بطور وزیر تجارت بھی اس کی منظوری دیں، پھر وزیر خزانہ بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کریں تو اسے واپس کیوں لے لیا گیا تو گھما پھرا کہ یہ ثابت کیا جاتا کہ ماضی کے حکمران مودی کے یار تھے اور جو مودی کا یار ہے وہ غدار ہے۔ حد تو یہ کہ بزدار حکومت سے بھی جب یہ پوچھا جاتا کہ اڑھائی سال میں 5 آئی جی پنجاب اور 4 چیف سیکرٹری پنجاب تبدیل کیے جانے کے باوجود پنجاب میں نہ تو جرائم کی شرح میں کمی ہوئی ہے اور نہ انتظامی معاملات کی صورت حال بہتر ہوئی ہے، جواب ملتا کہ سابق حکمرانوں نے پنجاب کے سرپلس بجٹ کو خسارے سے دوچار کیا۔
غرض یہ کہ پریس کانفرنسز صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ مخالفین پر لعن طعن کے لیے ہوتی تھیں۔ سوال گندم جواب چنا کی عملی تصویر! حکومتی ٹیم میں عمومی تاثر یہ تھا کہ جو اپوزیشن پر جس قدر زیادہ، سخت تنقید کرے گا وہ لیڈرشپ کی نظروں میں اتنا ہی معتبر رہے گا، اسے اتنا ہی قرب ملے گا۔ اب جب ان کھلاڑیوں سے کہا گیا کہ حکومت کی کارکردگی بتائیں تو وہ سکرینوں سے ہی غائب ہو گئے۔ اب وہ بھیڑ کہیں نظر نہیں آتی جو مائیک کے سامنے پڑی کرسی پر قبضہ کرنے کے لیے ایک دوسرے پر جھپٹا کرتے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ تمام وزیر اور مشیر اس بیان پر اپنے کپتان کی جانب دیکھ رہے ہیں جیسے شکایت کر رہے ہوں کہ یہ تو طے نہیں ہوا تھا، یہ ہمیں کس امتحان میں ڈال رہے ہیں۔ خدارا! ایسا نہ کریں، کنٹینر طرزِ سیاست ہی جاری رکھیں کہ اسی میں ہماری بقا ہے ۔ کارکردگی پر بات آ گئی تو ہم دامن جھٹک دیں گے، ہم سے صرف مخالفین پر طنز و تنقید کے نشتر چلانے کا کام لیتے رہیں، کوئی اور کام نہ کہیں کہ ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا