"FBC" (space) message & send to 7575

راشن کا مجرم

''میں جیل کی اس کال کوٹھری میں بیٹھ کر تمہارے لیے اور تو کچھ نہیں کرسکتا ‘ہاں! اتنا ضرور کرسکتا ہوں کہ اگر تم لوگ بھوکے ہو تو میں بھی بھوکا رہوں‘‘یہ جملہ ایک خط کے متن کا تھا ‘جو سینٹرل جیل کراچی میں ڈکیتی کے الزام میں قیدایک ملزم نے اپنی بیوی کو لکھا تھا اور یہ خط لکھنے کے بعد اس نے کھانا پینا بند کردیا تھا‘ جس سے جیل انتظامیہ کیلئے شدید مشکلات کھڑی ہوگئی تھیں۔جیل انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ واقعے سے اعلیٰ افسران کو آگاہ کیا گیا ‘تو اس معاملے کی انکوائری کراچی پولیس کے افسر ایس ایس پی عرفان بہادر کے پاس آگئی۔انہوں نے جب اس معاملے کو کریدا تو جو حقیقت سامنے آئی ‘وہ سوسائٹی کے منہ پر طمانچہ تھی۔ 
ایس ایس پی عرفان بہادر بتاتے ہیں کہ اس قیدی کی جانب سے اپنے اہل خانہ کے نام لکھے گئے خط اور اس کے کیس کی تفصیل پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی عادی مجرم نہیں ۔ معاملے کی جانچ کیلئے جب ملزم کے گھرواقع ملیر کھوکھرا پار گئے تو ایک کمرے پر مشتمل مکان جس کے صحن کے ایک کونے میں کچن اور دوسرے میں غسل خانہ تھا۔ ملزم کے تین چھوٹے بچے اور بیوی اس گھر میں رہتے تھے۔ اس کی بیوی نے بتایا کہ ملزم گدھا گاڑی چلاتا تھا ۔کراچی میں ہونے والی ایک ہڑتال کے دوران زبردستی ہڑتال کرانے والوں نے ملزم کے واحد زریعہ روزگار گدھے کو گولی مار دی ‘ جس کے بعد بے روزگاری نے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی۔ بچوں کی بھوک سے تنگ آکر میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ بچے کی روزی روٹی کا بندوبست کرنا اس کا کام ہے‘ وہ کہیں سے بھی روٹی کا بندوبست کرے۔ اس کے بعد وہ گھر سے چلا گیا اور مجھے پتا چلا کہ وہ قریب ہی ایک گھر میں ڈکیتی کرتے ہوئے گرفتار ہوگیا ہے۔ 
ملزم کی بیوی کے بعد انکوائری ٹیم نے اس گھر کا رخ کیا‘ جہاں ملزم نے ڈکیتی کی تھی اورمتاثرہ خاندان میں سے کوئی فرد اس کیس کی پیروی نہیں کررہا تھا۔ یہ بات عجیب تھی۔ جب متاثرہ گھروالوں سے اس کیس کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ملزم ایک پستول کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تھا ۔ اس وقت گھر میں صرف خواتین تھیں اور خواتین نے زیورات بھی پہن رکھے تھے۔ مسلح شخص سے گھر کی بزرگ خاتون نے کہا کہ گھر میں صرف خواتین ہیں تمہیں جو لے جانا ہے‘ لے جائو بس کسی کو نقصان مت پہنچانا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ ملزم نے زیورات کی جانب نگاہ بھی نہ کی اور گھر والوں سے ایک بڑی چادر مانگی‘ جو اسے دیدی گئی‘ جس کے بعد اس نے خواتین سے کہا کہ ایک جانب ہوکر کھڑی ہوجائیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں‘ جس پہ اسے سختی سے پیش آنا پڑے۔ چادر ملنے کے بعد ملزم نے کچن کا پوچھا اور پھر کچن سے آٹا چاول‘ غرض جو چادر میں بھر سکتا تھا ‘اس نے بھر لیا اس نے وہ گٹھڑی اٹھائی اور باہر نکل گیا۔ تمام خواتین اس طرز ڈکیتی پر حیران تھیں۔ اچانک باہر شور ہوا اور پتا چلا کہ محلے والوں نے اسے گھر سے گٹھڑی لے کر نکلتے ہوئے دیکھ کر پکڑ لیا تھا اور پھر اسے تھانے لے گئے تھے۔ گھر کے افراد نے بتایا کہ اس کی ڈکیتی کے انداز سے ہی پتاچل گیا تھا کہ وہ عادی ڈکیت نہیں‘ بلکہ ضرورت مند تھااس لیے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ اس شخص کے خلاف کیس نہیں کیا جائے گا۔ 
اس حوالے سے جب متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ محلے کے افراد اس ملزم کو پکڑ کے لائے تھے اور مقدمہ درج کرانے کیلئے کوئی مدعی سامنے نہیں آرہا تھا ۔ ملزم کے پاس سے ایک پستول برآمد ہوا تھا‘ جس کے متعلق اس نے بتایا کہ کرائے پر لیا تھا ۔ اس کے علاوہ اس کے پاس سے صرف کھانے پینے کا سامان ہی برآمد ہوا تھا۔ اس لیے اس کے خلاف پستول رکھنے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کردیا گیا تھا۔ ایس ایس پی عرفان بہادر نے مکمل انکوائری رپورٹ اعلیٰ افسران کو بھجوادی‘ جس کے بعد اس ملزم کا کیس انکوائری رپورٹ سمیت عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے رہائی مل گئی ۔ ایس ایس پی عرفان بہادر نے کہا کہ رہائی کے بعد جب اس شخص سے میں نے کہا کہ اب ایسا مت کرنا تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریگا۔ جب چند پولیس افسران نے اس کی مالی مدد کی کوشش کی تو اس نے پیسے لینے سے انکار کردیا اور درخواست کی کہ اس کے لیے چھوٹی موٹی نوکری کا بندوبست کردیا جائے ‘تاکہ اس کی گزر بسر ہوسکے۔‘جس کے بعد اسے قائد آباد چوکی پر بطور سویلین ملازم رکھ لیا گیا اور اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مطمئن ہے۔یہ ایک کیس تھا‘ جو اچانک سامنے آیا اور پھر چند اچھے پولیس افسران کی وجہ سے حل بھی ہوگیا‘مگر اس طور پر کتنے کیسز حل ہوجاتے ہوں گے؟ ایک ایسے شہر میں جو گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردوں کے تسلط میں رہا ہے‘ وہاں کتنے باپ ہڑتالوں کے دوران روزگار نہ ملنے پر اپنے بلکتے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے چور بنے ہوں گے۔ راشن کے چور۔ اور پھر جیل کے ماحول سے اپنے آپ کو عادی مجرم بننے سے بچاسکے ہوں گے۔ 
دیکھا جائے تو پاکستان میں رائج نظام میں کسی کیس کا درج بالا طریقے سے حل ہوجانا '' معجزہ‘‘ ہی کہلایا جاسکتا ہے۔ سینٹرل جیل کراچی اور لانڈھی جیل میں مبینہ طور پر انتہائی معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث731ملزمان ایسے ہیں‘ جوایسے ہی کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔ لانڈھی جیل میں ایسے ملزمان کی تعداد زیادہ334 ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ سینٹرل جیل سے معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث افراد کو لانڈھی جیل منتقل کردیا جاتاہے۔ان افراد کی مدد کے لیے سرکاری طور پر کوئی طریقہ کار نہیں۔ سزا کے طور پر جرمانے کی معمولی رقم ادا نہ کرسکنے پر ملزمان کو ایسے ماحول میں قید کاٹنی پڑتی ہیں‘ جہاں ان کے اطراف قتل‘ ڈکیتی‘ دہشت گردی میں ملوث مجرم موجود ہوتے ہیںاور اس ماحول میں خود کو ایسے خطرناک قیدیوں کے ''اثرات‘‘سے بچانا ناممکن ہے۔
جیل ذرائع کے مطابق معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث افراد کی مدد کیلئے مخیر حضرات اور فلاحی تنظیمیں اکثر جیلوں کے دورے کرتی رہتی ہیں ۔ لانڈھی جیل میں بدھ کا دن خاص طور پر مخیر حضرات کے دورے کے لیے مختص ہے ۔ یہ افراد و تنظیمیں ایسے ملزمان کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی ہیں‘ جو معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث ہوتے ہیں اور معمولی جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ان کے حوالے سے ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر عدالتوں میں ان قیدیوں کی مدد کرکے انہیں رہائی دلوانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ایسے افراد کی جانب سے صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران 283قیدیوں کیلئے کوششیں کی گئیں ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کیلئے کوششیں کرنے والے مخیر حضرات و تنظیمیں اس حوالے سے تعریف کی مستحق ہیں کہ وہ ایسے ماحول سے جسے جرائم پیشہ افراد بنانے کی نرسریاں قرار دیا جاتا ہے ‘ معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث قیدیوں کو رہائی دلوانے کیلئے تگ و دو کرتی ہیں اور انہیںعادمی مجرم بننے سے بچاتی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے قیدیوں کیلئے کوئی نظام قائم کریں‘ وہ ارباب اختیار تو جیلوں کی حالت زار ہی سدھارنے پر تیار نہیں ۔ سندھ کی تمام 25جیلوں میں12413قیدیوں کی گنجائش ہے‘ جبکہ 18437 قیدی ہیں‘ مگر کراچی کی سینٹرل جیل 2400قیدیوں کی گنجائش کے ساتھ 4846قیدیوں‘ جبکہ لانڈھی جیل 1800قیدیوں کی گنجائش کے ساتھ 5249قیدیوں کو سنبھال رہی ہیں۔کراچی سینٹرل جیل کے ذرائع کے مطابق گنجائش سے زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے کراچی کی دونوں جیلوں جہاں منشیات کا گڑھ اور جرائم کی نرسریاں بن چکی ہیں‘ وہیں خطرناک امراض بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔جیل کے بدترین ماحول کی بدولت میں اب تک 50قیدیوں میں ایڈز کی تصدیق ہوچکی ہے ‘جبکہ اگر تمام قیدیوں کی سکریننگ کرائی جائے ‘تو اس تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں