تھر پاکستان کا وہ علاقہ ہے‘ جہاں موت رقص کرتی ہے۔ دنیا کا ایک ایسا‘ صحرا جہاں کی عورت اپنی تخلیقی صلاحیت سے خوفزدہ ہوگئی ہے۔ کائنات کے حاکم کی جانب سے دی گئی نئے وجود کی تخلیق کے عمل کو دنیاوی حاکموں نے تھرپارکر کی عورت کے لیے ایک بھیانک خواب بنا دیا ہے۔ اپنی کھوکھ میں جب کسی نئے وجود کے پنپنے کی خبر ملتی ہے تو ملک کے دیگر حصوں کی خواتین کی طرح تھر کی عورت خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے اندیشوں اور وسوسوں میں گھر جاتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوف ڈیرہ جما لیتا ہے۔کھودینے کا خوف۔ تھر کی ماں کے نزدیک نئے وجود کو دنیا میں لانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے سے زیادہ کرب ناک لمحہ وہ ہوتا ہے‘ جب وہ اپنے بطن سے جنم لینے والے کو منوں مٹی تلے دباتی ہیں۔ کئی گھرانے ایسے ہیں ‘جو گزشتہ چند سال میں ایک سے زائد بار اپنے گھر آنکھ کھولنے والے مہمانوں کو رخصت کرچکے ہیں۔ اس صحرا کے سینے پر موجود ہزاروں ننھی قبریں تھر کی مائوں کی اذیت کی روداد سناتی ہیں۔اہل دل زرا تصور کریں ایک نومولود کی ایسی حالت میں جان کنی کا عالم ‘ جسم میں اتنا پانی بھی موجود نہ ہو کہ آنسوئوں کے ذریعے اپنی تکلیف کا اظہار کرسکے۔ رواں سال اب تک 402مائیں اپنے نومولودوں کو صرف ایک ماہ تک اپنے سینے سے لگا سکیں اور پھر انہیں ریت کے حوالے کردیا گیا۔ 122بچے صرف ایک سال تک ماں کی گودکی حرارت محسوس کرسکے اور پھر ان کی کلائیوں پر نظر اتارنے کے لیے بندھی نشانیاں ان کی قبروں کی ڈھیریوں پرلگادی گئیں ۔ ہاں! 89مائوں کے حصے میں یہ مہلت کچھ زیادہ آئی اور انہوں نے 5سال تک اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اچھلتے کودتے دیکھ لیاتھا‘ مگر پھر وہ بھی رزق ریت ہوئے۔ غذائی قلت اور پانی کو ترستے اہلیان تھر کے لاغر اجسام کو ننھی قبریں بنانے کیلئے کتنی ہمت درکار ہوگی ‘اس کا اندازہ حاکم ہرگز نہیں کرسکتے۔
المیہ یہ ہے کہ اگر تھر میں یہ اعلان کردیا جائے کہ گزشتہ چند سال میں جس گھر میں بچے کی موت ہوئی ہے‘ وہ اپنا گھر پر سیاہ کپڑا ٹانگ لے تو 7تحصیلوں پر مشتمل اس ضلع کے بیشتر گھروں پرسیاہ کپڑے ٹنگے ہوں گے اوراکثر گھر ایسے بھی ہوں گے‘ جہاں ایک سے زائد کپڑے نظر آئیںگے۔ملک کے دیگر حصوں سے ہٹ کر تھر میں یہ موسم اضافی ہے۔ پھولوں کے مرجھانے کا موسم۔اس موسم میں 16لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی والے اس ضلع میں گلابوں کے جنازوں پر ڈالے گئے عرق گلاب کی مہک فضائوں میں شامل ہوجاتی ہے۔ ڈیپلو اور مٹھی کے میٹرنٹی ہومز ننھے لاشے اگلنے لگتے ہیں۔ اسلام کوٹ کا میٹرنٹی ہوم تو اس قابل ہی نہیں کہ کسی نومولود کا بوجھ سہار سکے‘ اس لیے بند پڑا ہے اور اسے کھولنے میں حکومت کو دلچسپی بھی نظر نہیںآتی۔ صرف تین تحصیلوں چھاچھرو‘ ڈیپلو اور ننگرپارکر میں ہسپتال موجود ہیں‘ جہاں دور دراز کے علاقے سے مریض کے ساتھ آنے والے لاغر جسموں کے حامل تیمارداروں کو اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا اور بیچارے لواحقین اسے رب کی رضا کہتے ‘میت لیے رخصت ہوجاتے ہیں ۔
اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے مطابق؛ اس ضلع میں 31بیسک ہیلتھ یونٹ‘ 206ڈسپنسریاںہیں‘ جبکہ ایس این ای کے باوجود 83ڈسپنسریوں کی عمارتیں خالی پڑی ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھرپارکر کے شعبہ طب کی ان عمارتوں میں 264اسامیاں مسیحائوں کی منتظر ہیں‘ جبکہ 557پیرا میڈیکل سٹاف کی نشستیں بھی بدستور خالی ہیں اور سندھ حکومت تاحال ان پر تعیناتیاں کرنے میں ناکام ہے۔ مقامی افراد اور غیرسرکاری تنظیمیں تو یہ الزام بھی عائد کرتی ہیں کہ بجٹ سے اس مد میں رقم پوری جاری ہوتی ہے اور یہ رقم ''نادیدہ ڈاکٹر‘‘وصول کرتے ہیں۔اس ضلع کی تمام 64یونین کونسل اور 172دیہہ میں حکومتی نمائندے تو موجود ہیں ‘مگر حکومتی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ منصف اعلیٰ پاکستان کے دورہ تھرپارکر کی اطلاع پاتے ہی صحرا کے باسیوں کی امید بندھی کہ شاید ان کے حال پر بھی کسی کو رحم آگیا ہے‘ مگر پھر ہوا یہ کہ چیف جسٹس صاحب نے دورہ تھرپارکر میں سندھ حکومت کو شاید بطور ''گائیڈ‘‘ ساتھ لے لیا تھا؛ حالانکہ اگر سندھ کے حالات پر نظر ڈالی جائے‘ تو اندازہ ہوجائے گا کہ جسے حکومت سندھ کے کرتا دھرتا ''گائیڈ‘‘ کریں‘ اس کا منزل مقصود پر پہنچنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ چیف جسٹس کی آمد کی اطلاع پاتے ہی مٹھی ہسپتال کی حالت بالکل تبدیل کردی گئی ۔مصنوعی انفرااسٹریکچر کے ساتھ ساتھ جعلی مریض بھی چیف جسٹس صاحب کیلئے خصوصی طور پر تیار کیے گئے‘ جنہوں نے حکومت سندھ کی '' شاندار کارکردگی‘‘کے رٹوائے گئے قصیدے پڑھے۔ مائی بختاور ائیرپورٹ سے مٹھی ہسپتال تک کا بذریعہ ہیلی کاپٹر سفر بھی تھر کے اصل حالات پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہا‘ پھر سکیورٹی کے نام پر منصف اعلیٰ کے گرد قائم کیے گئے تین گھیروں کے ذریعے بھی غریب اور بے کس و نادار مریضوں کو اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ سے دور رکھنے کا بھی شاندار انتظام کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے تو ایک دنیا حکومت سندھ کی ''درخشاں روایات‘‘ کی گواہ ہے۔ مٹھی ہسپتال میں نیا رنگ و روغن کرایا گیا تھا‘ مریضوں کو نئے بستر‘نئے لحاف دیے گئے تھے۔
دورہ مکمل ہوتے ہی‘ منظر تبدیل ہوگیا۔میڈیا کے کیمروں میں محفوظ ہونے والے ان مناظر نے سارا بھانڈہ پھوڑ کر رکھ دیا‘ جس میں کرائے پر منگوائے گئے اس سارے سامان کو اس کے مالکان چیف جسٹس صاحب کی روانگی کے بعد تیزی سے سمیٹ رہے تھے ۔ مٹھی ہسپتال کے مریضوں کا یہ خواب چیف جسٹس صاحب کی روانگی کے ساتھ ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ منصف اعلیٰ پاکستان کو آر او پلانٹ کا دورہ کرایا گیا اور اس موقع پر انہیں آر او پلانٹ کاپانی پلایا گیا ‘جس کے بعد اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے کہا کہ پانی پینے کے بعد سارا دن انہیں پریشانی کا سامنا رہا۔آر او پلانٹ تو دکھا دیا گیا ‘مگر انہیں وہ کنویں نہیں دکھائے گئے‘ جہاں کا پانی تھر والے غیرسرکاری تنظیموں کے انتباہ کے باوجود متبادل نہ ہونے کی وجہ سے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کنوئوں میں فلورائیڈ کی مقدار 7سے 30ملی گرام فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے اور یہ پانی انسان تو کجا جانوروں کے لیے بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ دورے کا اعلان تو چیف جسٹس صاحب نے کیا تھا‘ مگر اس کی منصوبہ بندی سندھ حکومت نے کی تھی‘ اس لیے حقائق چیف صاحب کے سامنے نہ آسکے۔دورے کے دوران موجود صحافیوں کے مطابق‘ تھر کول فیلڈ پر چیف جسٹس صاحب کو طے شدہ وقت سے زیادہ ٹھہرایا گیا‘ جس کی وجہ سے وہ شیڈول کے مطابق دیگر تحصیلوں کا دورہ نہیں کرسکے۔ یاد آیا ! کہیں پڑھا تھا کہ آل زرداری کے لیے کروڑوں روپے مالیت کا پانی فرانس سے درآمد کیا جاتا ہے اور پھر تھر کے مسائل حل ہونے کی توقع بھی انہی سے‘ ہے ناں عجیب معاملہ۔ہاں! اگر ایسا کچھ ہوجائے تو ممکن ہے کچھ تبدیلی نظر آئے۔صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ صاحب کا تعلق بھی سندھ حکومت سے ہی ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو سرکاری سکول میں داخل کروا کر ایک قابل تقلید روایت کی بنیاد ڈالی۔ کیا ہی بھلا ہو‘ اگر ضلع تھرپارکر کی رہائشی وفاقی‘ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں میں نمائندگی کرنے والی شخصیات کو پابند کردیا جائے کہ وہ اپنے بچوں سمیت اہل خانہ کا کسی بیماری کی صورت میں علاج اسی علاقے کے ہسپتالوں سے کروائیں گے۔
بلاول بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ تھر بدلے گا اور تھر سے پورا پاکستان بدلے گا۔ بلاول صاحب کا یہ دعویٰ تو 9100کلومیٹر طویل صحرائی حصے پر کوئلے کی موجودگی کے تناظر میں تھا‘ مگر جن حالات سے تھر کے عوام آج گزررہے ہیں‘ بقول شاعر:
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں