"FBC" (space) message & send to 7575

اپنے بچوں کو خود بچائیں!

پنجاب پولیس اور سندھ پولیس میں ایک بہت بنیادی فرق ہے۔ سندھ پولیس میں کرپشن ہونے کے باوجود ''قتل‘‘ کے کیس میں پیسے کھانے کا رجحان بہت کم ہے‘ مگر پنجاب پولیس ''قتل‘‘ سمیت ہر مقدمے میں پیسے وصول کرلیتی ہے۔یہ الفاظ کرا چی کے سینئر صحافی شاہد انجم کے ہیں‘ مگر میں کراچی میں 13سال اور پنجاب میں 5سال صحافت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد اب اس موقف کو من و عن تسلیم کرتا ہوں۔باقی معاملات تو ایک جانب صرف معصوم بچوں کو اغواء کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر انہیں بہیمانہ طریقے سے قتل کیے جانے والے واقعات کو دیکھیں تو گزشتہ پانچ سال کے دوران ملک بھر میں 6793بچوں کو اغواء کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بناکر بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔ ان میں سے 63فیصد واقعات پنجاب میں ہوئے ۔ ان کیسز میں جو عمومی رویہ پولیس کی جانب سے رکھا گیا اور رکھا جاتا ہے ‘ وہ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔بچے کے لاپتا ہونے پروالدین پولیس سے رابطہ کرتے ہیں تو ابتداء میں تو پولیس ایف آئی آر کاٹنے سے گریزاں ہوتی ہے ؛ اگر ایف آئی آر کٹ بھی جائے‘ تو بھی بچوں کی تلاش کے حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی جاتی ؛ البتہ بچوں کی لاشیں ملنے کے بعد پولیس کو کمائی کا ذریعہ ہاتھ آجاتا ہے۔علاقے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد‘ رکشہ ڈرائیورز‘ مزدوروں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر ان سے کچھ رقم وصول کرنے کے بعد رہا کردیا جاتا ہے۔ ننھے پھول کے جن کے روندے جانے پر شاید ہی کوئی آنکھ ایسی ہو جو اشک بار نہ ہو‘ ان کے غم سے نڈھال لواحقین سے بھی پیسے لیے جاتے ہیں۔
ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں کی ننھی فریال کے بہیمانہ قتل کے بعد اب تک پولیس 500سے زائد افراد کو شک کی بنیاد پرگرفتار اور پھر مبینہ طور پر رقم وصولی کے بعد رہا کرچکی ہے‘پولیس کی ان پھرتیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ قاتل کا تو کوئی سراغ نہیں ملا ؛البتہ ننھی فریال کی لاش پر پولیس کی کمائی جاری ہے۔ ایسا صرف فریال کے ہی کیس میں نہیں ہوا ‘بلکہ نوشہرہ کی مناہل کا قاتل؛ اگرچہ گرفتار ہوچکا ‘ تاہم زیادتی و قتل کے بعد200سے زائد مقامی افراد کو گرفتار کیا گیا اور پھر مبینہ طور پر پیسے وصول کرنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ بکھر کے سات سالہ حبیب کے قتل نے سب کو دہلا کر رکھ دیا‘ اس معصوم کا اوپری دھڑ تاحال نہیں مل سکا ‘ اس کے والد نے بھی لاپتا ہونے کی رپورٹ فوری درج کرانے کی کوشش کی‘ مگر مقتول کے باپ کے مطابق پولیس نے تلاش کے حوالے سے کوئی مدد نہیں کی۔ حبیب کو لاپتا ہونے کے دس روز بعد قتل کردیا گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے کھیتوں میں پھینک دیے گئے۔ لاش ملنے پر پولیس حرکت میں آئی اور علاقے سے مختلف افرادکو گرفتار کرلیا ۔ مقامی افراد کے مطابق گرفتاری اور پیسے کے عوض رہائی کا سلسلہ تاحال جاری ہے ‘مگر قاتل کے حوالے سے بھکر پولیس بھی کوئی سراغ لگانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔پولیس کی جانب سے علاقے کے مشکوک افراد کو گرفتار کرنا بالکل درست عمل ہے‘ مگر ان سے پیسے لے کر رہا کرنا انتہائی قبیح فعل ہے۔ 
بچوں کے ساتھ جنسی زیدتی کے بعد قتل کے واقعات میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نئے سال کے ابتدائی سات دنوں میں بچوں سے زیادتی کے 6واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں ۔ گزشتہ چند دنوں میں 5واقعات صرف گجرانوالہ ڈویژن میں وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔بچوں سے زیادتی کے واقعات کی رپورٹ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کرنے کے اعلان کے بعد حکومت کی جانب سے سپیشل برانچ‘ انٹیلی جنس بیورو‘ سی ٹی ڈی اور پولیس کو خصوصی ہدایات دی گئی تھیں‘ اس کے باوجود ان واقعات میں کمی نظر نہیں آتی ہے‘ جو ان اداروں کی کاررکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ 
پولیس کی ملزمان کی گرفتاری میں عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات میں اضافے کی وجہ ملزمان کا ان مقدمات سے بچ نکلنا بھی ہے ۔سزا کا خوف نہ رہے تو درندگی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے‘ جس کی ایک مثال کراچی میں 2009ء میں ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں تین سالہ ثناء کا زیادتی کے بعد بہیمانہ قتل تھا۔ ملزمان کی نشاندہی پر ثناء کی لاش گٹر سے برآمد کی گئی تھی ۔ پوسٹ مارٹم سے بھی دونوں ملزمان کے ملوث ہونے کا ثبوت بھی مل گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کے عدالت نے دونوں ملزمان کو سزائے موت اور دس دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ملزمان کی جانب سے ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور 9سال گزرنے کے بعد اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا ‘ پھر ثناء کا باپ جو مچھلیاں پکڑ کر اپنے گھروالوں کی کفالت کرتا ہے‘ اتنے برسوں تک کیس کیسے لڑ سکتا ہے۔ ایسے کیسز کو اتنا طول دیدیا جاتا ہے کہ متاثرین انصاف ملنے کی آس چھوڑکر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور ملزمان رہا ہو کر نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں‘ اسی طرح ملزمان کی سیاسی وابستگیاں بھی انہین بے لگام بنانے میں اہم کردار ادا کرتیں ہیں۔
قصور میں بچوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنانے کا سکینڈل سامنے آیا تو بین الاقوامی و مقامی میڈیا پر ایشو کو بہت اچھالا گیا۔ 20افراد کے خلاف 31مقدمات قائم کیے گئے ‘جن میں سے 25مقدمات انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہوئے۔ چند دن منظر عام پر رہنے کے بعد یہ معاملہ دب گیا۔ حالیہ دنوں میں دنیا نیوز کی جانب سے ایسے واقعات کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی ویڈیوز بنانے کے تمام ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں۔ ان پر قائم مقدمات میں سے انسداد دہشت گردی کی دفعات عدالتی حکم پر ختم کردی گئیں ہیں۔ قصور کے متاثرین نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کی سیاسی وابستگی ن لیگ کے ساتھ تھی‘ جبکہ ان کے خلاف مقدمات کروانے میں متاثرین کی مدد کرنے والوں کی سیاسی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ تھیں۔ اچانک دونوں گروپوں میں صلح ہوگئی‘ جس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ گرفتار ملزمان کے اہل خانہ و رشتہ داروں کے ہاتھ ایسی ویڈیوز لگ گئی تھیں‘ جن میں تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے بھی گرفتار ہوسکتے تھے۔ یہ ویڈیوز سامنے آنے پر دونوں گروپس نے صلح کرلی اور متاثرین بے یارومددگار ہوگئے۔ 
پولیس کے پاس جانے والے متاثرین کو بجائے مدد فراہم کرنے کے دھمکیاں دیکر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ان واقعات کی روک تھام میں حکومتی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران قریباً 17کیسز ہوچکے ہیں‘ مگر حکومتی ذمہ داران نے کسی ایک متاثرہ خاندان سے بھی جا کر ملاقات نہیں کی ۔ اب تک جو ملزمان گرفتار ہوئے‘ ان کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ‘وہ بھی انتہائی تشویشناک ہیں۔ گرفتار ملزمان کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ ہے‘ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایسے فعل کا ارتکاب صرف جاہل کرتے ہیں۔ بیشتر ملزمان مقتولین کے قریبی رشتہ دار تھے یا مقتولین کے گھرانے سے قریبی تعلقات رکھتے تھے اور یہی وجہ تھے کہ معصوم بچے ان کے ساتھ جانے میں کسی ہچکچاہت کا مظاہرہ نہیں کیا۔جن گھرانوں کے بچوں کو ہدف بنایا گیا‘ ان میں سے اکثریت غریب گھرانوں کی تھی‘ جن کے متعلق ملزمان کو یقین ہوگا کہ ایسے گھرانے کی نہ تو اس ملک میں آواز سنی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی مدد کو آتا ہے۔ 
الغرض صرف تاریکی ہی بینائی سلب نہیں کرتی ‘ مصنوعی چکاچوند بھی اندھا کردیتی ہے۔جدیدیت و روشن خیالی کے نام پر فحاشی و عریانیت کے جس رستے پر نوجوان نسل کو ڈالا گیا ہے‘ اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس لیے اس فرسودہ نظام سے کوئی توقع رکھے بغیر والدین کو اپنے پھولوں کی حفاظت و نگرانی کا فرض خود نبھانا ہوگا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں