"FBC" (space) message & send to 7575

سانحہ ساہیوال : سی ٹی ڈی کو ٹریپ کرنے کی سازش

ٰٓآلٹو کار میں دہشت گرد بیوی بچوں کے ساتھ بارود اور خودکش جیکٹس لے کر جارہے تھے اور ان کے ساتھ موٹر سائیکل سوار ساتھی بھی تھے۔ تربیت یافتہ سی ٹی ڈی اہلکار گاڑی کا تعاقب کررہے تھے ۔سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ٹریپ کرنے کے لیے آلٹوکار میں موجود دہشت گرد ڈرائیور نے گاڑی سڑک پر موجود ڈیوائیڈر سے ٹکرا دی ‘ جس پر سی ٹی ڈی اہلکار نیچے اترے تو ان معصوموں کو کار سوار دہشت گرد کے موٹرسائیکل سوار ساتھیوں نے گھیرے میں لے لیا۔ ان کی موبائل وین پر قبضہ کیا ‘ منہ پر ڈھاٹے باندھ کر سی ٹی ڈی کا '' آپریشنل ڈریس کوڈ‘‘ جس میں ٹرائوزر‘ شرٹس‘ جیکٹس اور منہ پر کپڑا لپیٹنا شامل ہے‘ پورا کیا اور پھر اپنے کار سوارساتھیوں کے پاس پہنچ گئے ۔ موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے حلیہ ایسا تبدیل کیا تھا کہ انہیں ان کے اپنے ساتھی بھی نہ پہچان سکے اورخلیل نے اپنے ساتھیوں کو سی ٹی ڈی اہلکار سمجھ کر پیشکش کی کہ ہم سے پیسے لے لو اور ہمیں چھوڑ دو۔ یہاں پر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کا ذہن تبدیل ہوگیا‘ انہوں نے سوچا کہ ہم کب تک موٹر سائیکلوں پر گھومیں گے اور ہمارے یہ ساتھی آلٹو کار پر گھومتے رہیں گے ۔ سو‘ انہوں نے فوری منصوبہ بنایا اورموٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اپنے ہی ساتھیوں پر فائرنگ کر دی‘ جس سے دہشت گردوں کا کار سوار ڈرائیور ساتھی ذیشان اور دوسرا دہشت گردخلیل موقع پر ہی مارا گیا ۔دہشت گردوں کو بچوں پر رحم آگیا اور انہوں نے چاروں بچوں کو گاڑی سے باہر نکال کر خاتون کو بھی گولیوں سے چھلنی کردیا ۔کار سواردہشت گردوں کی ساتھی ایک بچی اریبہ مسلسل چیخ رہی تھی ۔ موٹر سائیکل سواردہشت گردوں کو خدشہ ہوا کہ یہ ان کی اس حقیقت کو آشکار کردے گی‘ اس لیے انہوں نے اسے بھی گاڑی میں بٹھایا اور گولیاں مار دیں۔یہاں بھی تسلی نہ ہوئی تو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اپنے اطمینان کے لیے پوائنٹ بلینک رینج سے سروں میں گولیاں ماریں‘ جس سے سر کی کھال بھی جل گئی۔ اس دوران ایک دہشت گرد بچے عمیر کو ٹانگ میں اور ایک بچی کو ہاتھ میں گولی ماری جاچکی تھی‘پھر ان موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اپنے کار سوار دہشت گرد ساتھیوں میں سے ایک خاتون ساتھی دہشت گرد اور اس کی بیٹی کی لاشوں سے زیورات نوچ لیے۔ موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اپنے کار سوار ساتھیوں کے زخمی دہشت گرد بچوں کو موبائل میں بٹھایا اور بچوں کو پیٹرول پمپ پر چھوڑا‘ وہاں بھی خود کو سی ٹی ڈی کے اہلکار ظاہر کیا‘ پھر وہاں سے چلے گئے ۔ کچھ دیر بعد واپس آئے ان زخمی دہشت گرد بچوں کو بے دردی سے اٹھایااور ہسپتال چھوڑ کر وہاں سے فرار ہوگئے۔ موٹر سائیکل سوار دہشت گرد واپس سانحہ کی جگہ پہنچے ‘ ان خطرناک دہشت گردوں کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سی ٹی ڈی کا ''آپریشنل ڈریس کوڈ‘‘ استعمال کرکے عینی شاہدین کو سرکاری اہلکار ہونے کا چکمہ دیا اور ساتھ ساتھ وہ اس قدر جدید خود کش جیکٹس‘ بارودی مواد‘ ہینڈگرنیڈز اور دیگر ہتھیاروں سے لیس تھے کہ جب اس سامان کو وہ آلٹو گاڑی سے نکال کر کہیں منتقل کررہے تھے تو یہ ہتھیار عینی شاہدین کے کیمروں میں نہ آسکے ‘بلکہ ان کی موٹرسائیکل بھی آلٹو کار کے ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود کسی ٹول پلازہ کے کیمرے میں آسکی اور نہ ہی عینی شاہدین کے کیمروں میں ‘ بس انہیں سی ٹی ڈی اہلکار ہی دیکھ اور پہچان سکے ۔ ان موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کے معصوم اہلکاروں کو پھنسانے کیلئے گاڑی سے خطرناک ہتھیار نکال کر اس کی جگہ شادی میں شرکت کیلئے جانے والی کسی فیملی کا بیگ گاڑی میں رکھ دیا‘ تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ سی ٹی ڈی نے شادی میں جاتی فیملی کو مارا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی... ''حقائق‘‘ اور بھی ہیں...
سی ٹی ڈی کے اصل 16اہلکار اتنے بری طریقے سے ٹریپ ہوچکے تھے کہ انہیں اور ان کے بڑوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی‘ اب اس مسئلے سے کیسے نکلا جائے وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک سی ٹی ڈی کے نام سے تین مختلف موقف پر مبنی تین مختلف پریس ریلیزز میڈیا کو جاری کردی گئیں۔ وفاقی وصوبائی وزراء کی دوڑیں لگ گئیں ‘ پہلے پہلی پریس ریلیز کا دفاع کیا‘ پھر دوسری کا اور پھر تیسری کا۔ ان موٹر سائیکل سوار خطرناک دہشت گردوں کے ہاتھوں حکومت اور سی ٹی ڈی سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ٹریپ میں پھنس کر اس قدر مجبور ہوگئے تھے کہ وہ موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی مرضی کے مطابق مسلسل بیان بدل کر عوام میں خود کو جھوٹا کہلوانے پر مجبور ہوچکے تھے‘ سخت عوامی ردعمل کا سامنا کررہے تھے ۔ درخشاں ماضی کا بھانڈہ پھوٹ رہا تھا۔ عوامی دبائو اتنا بڑھا کہ انہیں سی ٹی ڈی کے پانچ معصوم اہلکاروں کو گرفتار کرنا پڑا۔ ان موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کے اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اب مارے جانے والے ''دہشت گردوں‘‘ خلیل اور ذیشان کے اہل خانہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ یہ نہیں بتا رہے کہ کس سے خطرہ ہے ‘مگر صورتحال کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی جان کو بھی انہیں موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں سے خطرہ ہے‘ جو نہ کسی کیمرے میں آتے ہیں اور نہ عام عوام کی نظروں میں‘ بس سی ٹی ڈی اہلکاروں کو دکھائی دیتے ہیں اور پھر کارروائی کرکے فرار بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح وہ موٹر سائیکل سوار دہشت گرد ابھی تک سرگرم ہیں اور خود کو سی ٹی ڈی کا اہلکار ظاہر کرکے مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کے وکیل پر دبائو ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ کیس لڑنے کی بجائے کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ جائے‘ پھر وہ موٹر سائیکل سوار دہشت گرد اس قدر اثر رسوخ رکھتے ہیں کہ حکومت چاہتے ہوئے بھی مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کی مدد نہیں کر پارہی‘ مقتولین کے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنے مگر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کے دبائو کی وجہ سے نہیں بن پارہا۔ان موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی پہنچ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مقتولین کے اہل خانہ کے جوڈیشل کمیشن بنانے کے پرزور مطالبے کے باوجود وزیر اعلیٰ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کی ضرورت نہیں تحقیقات شفاف ہورہی ہیں۔ 
سی ٹی ڈی کے گرفتار اہلکاروں کے بیان کہ ''ہم نے گاڑی پر فائرنگ نہیں کی‘ کار سوار اپنے موٹر سائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ‘‘کے بعد اگر سی ٹی ڈی کی پریس ریلیزز‘ بچوں کے بیانات ‘ وزراء کی پریس کانفرنسز ‘عینی شاہدین کے بیانات اور موقع پر موبائل کیمروں سے بننے والی ویڈیوز کو جوڑا جائے اور پھر اس میں کچھ تخیلاتی مناظر ہالی وڈ سے متاثرہ ذہن کے ڈال لیے جائیں تو یقینی طور پر سانحہ ساہیوال کے حوالے سے درج بالا منظر ہی تشکیل پائے گا۔ اس منظر میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ یہ تو قارئین خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ مجھے اس سے آگے سوچنے میں خوف محسوس ہوتا ہے‘ کیونکہ ہالی وڈ ہو‘ بالی وڈیا پھر لالی وڈ ‘ سانحہ ساہیوال جیسے مظالم کے نتیجے میں جنم لینے والے اثرات کے تحت جو نسل پروان چڑھتی ہے اس کا تصور ہی جان لیوا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس دھرتی کو امن کا گہوارہ اور ظالموں کو نشان عبرت بنادے۔ (آمین)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں