''گائو مترون تع مڈھ گبہ آئے ‘‘۔
یہ وہ نعرہ ہے‘ جو مقبوضہ کشمیر کے تعلیمی اداروں میں بھارتی فوج کو دیکھ کر گونجتا ہے اور پھر کشمیری طلبا و طالبات کی سنگ باز ٹولیاں بھارتی ''سورمائوں ‘‘ کو گھیر نے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔کشمیری طلباـ'' گائو متر‘‘ کے استعمال سے بھارتی فوجیوں کو گائے کا پیشاب پینے والے کہہ کر پکارتے ہیں۔اسی طرح ''مڈھ گبہ‘‘ کشمیری زبان میں کمزور‘ مریل مادہ بھیڑ کو کہتے ہیں ‘ یعنی بھارتی فوج کیلئے ''گائے کا پیشاب پینے والے اور مریل بھیڑ‘‘ جیسے کوڈورڈزاستعمال کیے جاتے ہیں ‘تاکہ دوسرے طلبا کو ان کی آمد سے آگاہ کیا جاسکے۔سات لاکھ فوج کے ساتھ کشمیریوں پر وحشیانہ ریاستی جبر کی انتہا کردینے والا بھارت کس حد تک کشمیریوں کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے‘ اس کا اندازہ ان نعروں سے کیا جاسکتا ہے ۔
کشمیر کی تحریک آزادی نیا موڑ لے چکی ہے۔ جب نوجوان روشن مستقبل کے خواب سنبھالتے ہیں‘ کشمیری نوجوان ہاتھوں میں پتھر سنبھال رہے ہیں۔ کندھوں پرکالج بیگ اور ہاتھوں میں پتھر اٹھائے بھارتی فوج کے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرتی کالج یونیفارم میں ملبوس کشمیری طالبات نے عالمی برادری کو حیران اور بھارتی حکومت کو خوف زدہ کردیاہے۔اسلم شیخوپوری نے کہا تھا کہ مسلسل جبر سے دلوں میں ڈر نہیں رہتے اور پھر کشمیر تو گزشتہ سات دہائیوں سے وحشیانہ ریاستی جبر کا سامنا کررہا ہے‘ تو اس کے نوجوان طلبا کا خوف سے کیا تعلق؟کشمیری تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزرتی رہی ‘مگر اس تحریک میں پہلا حیران کن موڑ 2010ء میں ٹیوشن سے واپس آنے والے 9سالہ طالبعلم کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد آیا۔اس واقعے نے کشمیری طلبا کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کشمیری تحریک آزادی ایک نئے رنگ میں سامنے آئی۔
اگرچہ کشمیری تحریک آزادی میں طلبا ہمیشہ ہر اول دستے رہے‘ مگر منظم صورت میں طلبا کا اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنا یقینی طور پر ایک نیا رخ ہے۔ اس کا آغاز تو کشمیری طلبا کے آئیڈیل برہان مظفر وانی کی شہادت کے ساتھ ہی ہوگیا تھا ‘مگر اس میں شدت اپریل 2017ء میں آئی۔ 12اپریل کو بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے پلوامہ ڈگر ی کالج کا محاصرہ کرلیا تھااور کالج میں داخل ہوکر برہان وانی کی شہادت کے بعد مظاہروں میں شرکت کرنے والے سرگرم طلبا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو کالج کے طلبا دیوار بن گئے ۔ طلبا و طالبات پر مشتمل سنگ بازوں کی ٹولیوں نے محاصرہ کرنے والی پولیس کو کالج کے اندر داخل نہ ہونے دیااور پولیس کو ناکام ہوکر واپس جانا پڑا ۔ 15اپریل کو بھارتی فورسز نے دوبارہ کالج کا محاصرہ کیا اور اس بارپوری قوت سے کالج پر دھاوا بول دیا۔ کالج پر آنسو گیس کے شیل برسائے اور پیلٹ گن سے چھروں کی بارش کردی۔ 160 سے زائد طلبازخمی ہوئے‘ جن میں 62طالبات بھی شامل تھیں۔ کسی کالج پر ریاستی حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا‘ مگر طلبا کی مزاحمت نے اسے آخری ضرور بنا دیا۔ بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیری طلبا کی تحریک کی چنگاری کو بجھانے کے وحشیانہ ہتھکنڈوں نے اس تحریک کو جوالا مکھی بنادیا۔ مقبوضہ کشمیر کے تمام تعلیمی اداروں کے طلبا پلوامہ کالج پر ریاستی حملے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ طلبا کے احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے ریاست نے پہلے ایک روز اور پھر ایک ہفتے کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کردیا‘مگر طلبا تحریک پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکا۔ طالبات جو ابتداء میں صرف طلبا کی حمایت میں سامنے آئی تھیں اب اس تحریک کا بازو بن چکی تھیں۔18اپریل کو بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیری قصبے بانہال میں طلبا پر تشدد نے اس مقبوضہ کشمیر کے تمام اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کشمیر میں امور سلطنت کی انجام دہی رک گئی اور کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت بے بس ہوگئی۔ طلبا نے شاہراہیں بند کردیں اور ہر جانب بھارتی فورسز اور طلبا میں تصادم کی خبریں آنے لگیں ۔
ایک بین الاقوامی انگریزی روزنامے نے خبرلگائی کہ ''سن بلوغت کو چھوتی کشمیری طالبات نے کشمیری تحریک کا رخ موڑ دیا ہے‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بہنیں ‘بیٹیاں گھروں سے نکل کر تحریک کا حصہ بن جائیں تو کوئی ریاستی ہتھکنڈہ کامیاب نہیں ہوتا۔ کشمیری طلبا موت کے خوف سے آزاد ہوکر بھارت کے سامنے سینہ سپر ہوچکے ہیں ۔ کشمیری طلبا و طالبات نے عزم‘جرات‘بہادری اور بے خوفی جیسے الفاظ کو نئی وسعتیں دی ہیں۔ایک بڑی تبدیلی مقبوضہ کشمیر میں یہ آئی کہ اب اگر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے کسی معرکے کی اطلاع کشمیری طلبا و طالبات کو ملتی ہے تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں اوراپنی سنگ بازی کی مہارت بروائے کار لاتے ہوئے محاصرے میں آئے مسلح جوجہد کرنے والے کشمیری مجاہدین کو بھارتی فوج کے نرغے سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔کشمیر میں طلبا وطالبات کی اس تحریک نے بھارتی ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ بھارت نے کشمیری طلبا تحریک کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں کشمیری طلبا کو سکالر شپ دیئے جانے کی بات کی تومقبوضہ کشمیر پلوامہ سے تعلق رکھنے والے طالبعلم مدثر کامران بٹ کی حیدرآباد آندھرا پردیش میں انتہاپسند ہندئوں کے ہاتھوں تشدد کے بعد شہادت‘ علی گڑھ یونیورسٹی میں سکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے والے سری نگر کے طالبعلم مدثر یوسف سمیت سکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے والے 23طلبا کو جامعات سے نکالے جانے یا پھر انتہا پسند ہندئوں کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بننے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس مقبوضہ کشمیر چلے جانے کے واقعات نے بھارت کے منہ پر سیاہی تھوپ دی ۔ بھارت نے بین الاقوامی میڈیا پر انڈین سول سروس کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے کشمیری نوجوان شاہ فیصل کو مثال بنا کر کشمیری طلبا و طالبات کی تحریک پر تنقید کی تو اسے اس وقت سخت زلت کا سامنا کرنا پڑا جب شاہ فیصل نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے سرکاری عہدے سے استعفیٰ دیا اور گولڈ میڈل واپس کردیا ۔ تحریک آزادی میں شامل نوجوانوں پر تعلیم یافتہ نہ ہونے کا الزام لگانے والے بھارت کو پتا ہونا چاہئے کہ 11اکتوبر 2018ء کو کپواڑہ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والا منان وانی پی ایچ ڈی سکالر‘ شہید سجاد یوسف کمپیوٹر اپلیکیشن میں ماسٹرز ڈگری رکھنے اورشہید مسیح اللہ کے ایم ٹیگ کے امتحان میں پوزیشن ہولڈررکھنے والے کشمیری نوجوان تھے ‘ اسی طرح کشمیری نوجوانوں کی مسلح مزاحمت کی تنظیم حزب المجاہدین ہارون عباسی وانی‘ شری ماتا ویشنودیوی یونیورسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری لے چکا تھا اور ایم فل کا طالبعلم بھی تھا‘اسی طرح حزب المجاہدین کا شمس الحق مینگنیرو ایم بی بی ایس کی ڈگری رکھتا ہے۔ حزب المجاہدین کی عسکری قیادت میں شامل اشفاق مجید‘ اعجاز احمدڈار‘ ماسٹر محمد احسن ڈار‘ سید صلاح الدین ‘ شمس الحق‘ علی محمد ڈار‘ مقبول محمود الائی‘ محمد اشرف ڈار‘ کمانڈر مسعود تانترے‘ ریاض رسول انجینئر محمود الزمان انجینئر فردوس کرمانی‘ پروفیسر معین الاسلام سمیت درجنوں قائدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
کشمیری طلبا و طالبات کی تحریک سے بھارت کے خوفزدہ ہونے کا اندازہ کرنا ہو تو الجزیرہ کی ''Can Kashmir anger be a turning point?‘‘ اور بی بی سی کی ڈاکیومنٹری''Kashmir's voilent year‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔حالات بتاتے ہیں کہ کشمیری طلبا و طالبات بھارت کے سات لاکھ ''گائومترون تع مڈھ گبہ‘‘کو گھروں کو واپس بھیج کر ہی دم لیں گے۔ (انشاء اللہ)