"FBC" (space) message & send to 7575

بھارتی میڈیائی دانشوروں کی ہذیان الخمری

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جب یہ الفاظ گونجے : ''بھارت اپنی فوج کے ذریعے بہت بڑے حصے پر قابض ہے‘ ناگا لینڈ پر بم گرا کر بھارت نے اسے اپنے ساتھ شامل کیا تھا۔ ناگالینڈ‘پروتر اور کشمیر سمیت مختلف علاقے بھارت کا حصہ نہیں ہیں۔دنیا بھر میں بھارت کوظالم اور قابض سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کشمیری کیوں بغاوت کررہے ہیں‘اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوگی‘ ان کی خواتین کی عصمت دری کی جائیگی‘ان کے نوجوانوں کی لاشیں ملیں گی‘ ان کے بچوں کو پیلٹ گن سے اندھا کیا جائیگا تو پھر ان سے کسی بھی ردعمل کی توقع کی جاسکتی ہے‘ مگر بھارت کے ساتھ تعاون کی نہیں‘‘۔
ہندو پروفیسروں کے یہ الفاظ سنتے ہی بھارتی میڈیا آپے سے باہر ہوگیا ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کی پروفیسر نویدتا مینن اور دلّی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ اچن ونائیک کے سیمینار میں بھارت پر تنقید نے بھارتی میڈیا کو آگ لگادی۔ بھارتی میڈیا یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں کرسکا یونیورسٹی کے ہندو پروفیسروں کو غدار‘ باغی‘ ملک دشمن اور آئی ایس آئی کے ایجنٹ قرار دینا شروع کردیا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دلی یونیورسٹی میں گزشتہ کئی برسوں سے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھ رہی ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے دیگر تعلیمی اداروں میں کشمیریوں کی آزادی کے حوالے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ جنہیں دبانے کیلئے بھارتی انٹیلی جنس ادارے انتہا پسند ہندو تنظیموں کو سرگرم کرکے ایسے طلباء کو لاپتہ کررہے ہیں۔گزشتہ دو سال کے دوران بھارت سے 13طلباء لاپتہ ہوچکے ہیں‘ جن میں سے 9کشمیری اور 4طلباء ہندو تھے۔ اس کے علاوہ کشمیری طلباء پر انتہا پسندوں کے حملے بھی بدستور جاری ہے۔بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی یہ کارروائیاں بھی بھارتی تعلیمی اداروں میں اٹھنے والی کشمیر کی آزادی کو دبا نہیں سکی تھی‘ اس لیے اب ان اداروں میں کشمیر کی آزادی کی بات کرنے والے اساتذہ کو بھارتی میڈیا نے ہدف تنقید بنا لیا ہے۔ 
بھارتی میڈیا کے جنگی جنون کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں جب بھی کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے تو تحقیقات مکمل ہونا تو دُور کی بات تحقیقات شروع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا اپنی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ اور دھمکیوںکی یلغار شروع کردیتا ہے ؛ حالانکہ عقل و شعور سے عاری بھارتی میڈیا اور بھارتی دانشورخود اپنے پاس جاری ہونے والے اعدادوشمار دیکھ لیں توانہیں آسانی سے اندازہ ہوجائے گا کہ انتہاپسند بی جے پی کو انتخابات میں فتح کیلئے ہمیشہ انتہاپسند ہندو ووٹ درکار ہوتا ہے اور اس کے لیے بی جے پی کوبھارت میں جنگ ‘فساد اور بدامنی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اس میڈیا کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنی حکومت سے پوچھ سکے کہ جب 1998ء سے 2004ء تک بی جے پی حکومت قائم تھی تو بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں8 بڑے حملے ہوئے۔ 2004ء سے 2014ء تک دس سال کے دوران کانگریس کی حکومت رہی تو صرف ایک ہی بڑا حملہ ہوا تھا‘مگر جب 2014ء میں دوبارہ بی جے پی کی حکومت آئی تو پانچ سال میں صرف مقبوضہ کشمیر میں 19بڑے حملے ہوچکے ہیں ۔
1998ء میں بی جے پی کی اتحادی حکومت بننے کے ایک سال بعد ہی اتحاد میں دراڑیں پڑیں تو بی جے پی کو اکتوبر 1999ء میں انتخابات کا سامنا تھا۔ ان انتخابات میں کامیابی کے لیے بی جے پی کی حکومت نے کارگل جنگ کا سہارا لیا اور میڈیا کے ذریعے انتہاپسند ہندئوں کا ووٹ اپنی طرف کھینچ کر کامیابی حاصل کی ۔ بی جے پی کی حکومت کو اگلے انتخابات کا سامنا 2004ء میں تھا‘ جس کے لیے مسلم مخالف اور پاکستان مخالف ووٹ کو توڑنے کی کوششیں بی جے پی کی حکومت نے انتخابات سے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی شروع کردیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا اور 22فروری 2002ء کو گودھرا ٹرین پر حملہ ہو‘ا جس میں 69افراد مارے گئے تھے ۔ اس واقعے کے بعد گجرات میں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے‘ جس میں تین ہزار مسلمان قتل اور ان کی املاک نذر آتش کردی گئیں۔ اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ ‘ بھارت کا موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تھا۔ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کی وجہ سے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم کو امریکہ نے ناپسندیدہ اور دہشت گرد قرار دیتے ہوئے2005ء میں دس سال تک امریکہ داخلہ پر پابندی لگا دی تھی ۔ یہ پابندی 2014ء میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ختم ہوئی۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کروانے کی بنیاد پر ہندو ووٹ حاصل کرکے نریندر مودی 2007ء میں گجرات کا دوبارہ وزیر اعلیٰ بنا ۔2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کو جلایا گیا ‘جس میں 68افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا‘ تاہم جب اس کی تحقیقات ہوئی تو اس میں بھارتی فوج کا حاضر سروس میجر رمیش سمیت انتہا پسند ہندو تنظیم کے دہشت گرد ملوث نکلے۔ ان حملوں کو بھی بی جے پی کی جانب سے 2008ء کے انتخابات میں ہندو ووٹ کو اپنی جانب کھینچنے کیلئے استعمال کیا گیا‘مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ 18ستمبر 2016ء کو اڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ ہوا تو بھارتی پنجاب سمیت اترپردیش‘ اترکھنڈ‘ مانی پوراور گوا میں انتخابات قریب تھے۔ اس حملے کے بعد پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا اور 29ستمبر کو بھارت نے پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کرنے کا دعویٰ کردیا۔ اس پروپیگنڈا اور جھوٹے دعوے کے نتیجے میں بھارت کو فروری 2017ء میں پنجاب سمیت چاروں ریاستوں میں انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ اسی سال نومبر میں ہیمانچل پردیش اور گجرات میں انتخابات کا موقع آیا تو ان انتخابات سے ایک ماہ قبل 29ستمبر کو بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کی سالگرہ منانے کا اعلان کردیا۔ بھارتی میڈیا پر سرجیکل سٹرائیک کو بی جے پی حکومت کی کارکردگی دکھاتے ہوئے پروپیگنڈا کیا گیا‘ جس کافائدہ اگلے ہی ماہ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت کو فتح کی صورت میں ہوا۔ یہی روش برقرار رکھتے ہوئے جب 12مئی2018 ء کو کیرالہ اور نومبر‘ دسمبر میں میں چھتیس گڑھ‘ مدھیا پردیش‘ راجھستان میں انتخابات کا موقع آیا تو 31اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے وزٹ پر آئے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے سیاحوں پر حملہ ہوگیا؛ اگرچہ اس حملے میں سات سیاح زخمی ہوئے‘ مگر بی جے پی حکومت کے اشارہ پر بھارتی میڈیا نے اسے بھی پاکستان کے خلاف موڑنے کی کوشش کی اور مسلم و پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیا‘ تاہم ان انتخابات میں بی جے پی اس حملے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ 
اب پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملہ ہوا تو بھارتی میڈیا پر اینکرز ایک بار پھر کف اڑاتے اور ان کے نام نہاد دانشور ہذیان بکتے نظر آئے ۔ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کردیں۔بھارتی میڈیائی دانشوروں کی ہذیان الخمری کے نتائج یہ نکلے کہ جو چند کشمیری بھارت کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے اور بہار سمیت مختلف ریاستوں میں پرُامن طریقے سے کاروبار کررہے تھے ‘انتہاپسند ہندوئوں نے آسان ہدف جان کر ان پر حملے شروع کردئیے۔ ان کی املاک نذر آتش کردیںاور انہیں لٹی پٹی حالت میں واپس جانے پر مجبور کردیاہے۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کی بدنامی میں بھارتی میڈیا کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں