کوٹری کے گائوں سانون خان خاصخیلی کے غریب گھرانے کی شیریں بروہی نے‘جب اس کی عزت پرحملہ کیا گیا تو یقینی طور پرمدد کیلئے پکارنے کی کوشش کی ہوگی اور شاید زندگی میں پہلی بار شدت سے اسے قوت گویائی سے محروم ہونے کی اپنی معذوری کا احساس ہوا ہوگا۔ اس کے جسم پر موجود زخم بتاتے ہیں کہ اپنی ناموس کی حرمت کے لیے وہ آخری سانس تک لڑی ‘وہ عزت بچانے میں توکامیاب ہوگئی ‘مگر اس درندے کے ہاتھوں اپنی زندگی نہ بچاسکی۔
شیریں بروہی اپنی بیوہ ماں اور دو معذور بڑی بہنوں کے ساتھ انتہائی غربت میں بھی صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاررہی تھی۔ 16فروری کو جب اس کی ماں اسے گھر چھوڑ کر سیلانی کے دسترخوان سے اپنے بچوں کے لیے کھانا لینے گئی تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ اس کی شیریں کو کس قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملزم نے شیریں بروہی کی ماں کو گھر سے نکلتے دیکھا تو اس نے درندگی دکھانے کے لیے بے زبان شیریں بروہی کو آسان ہدف جان کر اس کا انتخاب کیا۔ ملزم کا خیال تھا کہ قوت گویائی و سماعت سے محروم شیریں بروہی مدد کیلئے کسی کو نہ پکار سکے گی۔شیریں کی جانب سے مزاحمت پر ملزم نے درندگی کی انتہا کرتے ہوئے وحشیانہ تشدد کیا‘ مگرزخموں سے چوراس معذور لڑکی نے اسے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہونے دیا‘ اسی دوران ایک پڑوسن نے گھر میں شور سن کر محلے والوں کو پکارنا شروع کردیا‘ جس پر ملزم نے گھر کو اندر سے بند کردیا۔ شیریں بروہی کی مزاحمت کے سامنے بے بس ہونے والے اس درندے نے پکڑے جانے کے خوف سے زخمی شیریں کے گلے میں اس کا دوپٹہ ڈال کر گلا گھونٹ کر قتل کردیا اور موقع سے فرار ہوگیا۔ اس وحشیانہ واردات کی ایف آئی آر مقتولہ کی والدہ رحمت بی بی کی مدعیت میں درج کی گئی تو ایس ایس پی جامشورو توقیر نعیم نے تحقیقاتی ٹیم روانہ کی اور 26سالہ ملزم عبدالرحمان شیخ کو گرفتار کرلیا۔ دوران تفتیش ملزم نے اپنے مکروہ فعل کا اعتراف تو کرلیا ہے‘ مگر اطلاعات ہیں کہ ایسے کیسز میں جو ہمیشہ ہوتا ہے ‘وہی ہورہا ہے۔ ملزم کو بچانے کے لیے اس کے بڑے ''سرگرم‘‘ ہوچکے ہیں۔ کیس پر اثرانداز ہونے اور متاثرہ غریب خاندان کو دبائو میں لینے کے لیے پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔
ایس ایس پی جامشورو توقیر نعیم اچھی شہرت کے حامل نڈر پولیس افسر ہیں۔ کہنے لگے کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے اور میں اسے ٹیسٹ کیس کے طور پر لے رہا ہوں۔ انشاء اللہ میں اس ملزم کو عدالت سے سزا دلوائوں گا اور عبرت کا نشان بناؤں گا‘ تاکہ آئندہ کوئی ایسی زیادتی کا خیال تک ذہن میں نہ لاسکے ۔ایس ایس پی توقیر نعیم نے سندھ کی تاریخ میں پہلی بار زیادتی کے کسی کیس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ پانچ انتہائی قابل پولیس افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم اس کیس کو دیکھ رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ڈی این اے کروا لیا گیا ہے اور تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ اب ہم معاملہ عدالت میں لے کر جارہے ہیں۔ امید ہے کہ دو سے تین ماہ میں عدالت اس کیس پر فیصلہ سنا دے گی۔
ایس ایس پی توقیر نعیم جو شیریں بروہی کی والدہ کو انصاف دلوانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں‘ مگر حالات و امکانات بتاتے ہیں کہ یہ ان کے لیے آسان نہ ہوگا۔ ایس ایس پی توقیر نعیم تو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے تحقیقات مکمل کر لیں ہیں اور تمام ثبوت و شواہد اکٹھے کرلئے ہیں ‘مگر کیا کریں کہ دوران ِصحافت ہم نے زیادتی کے ملزمان کی سزا پر عملدرآمد ہوتے کم ہی دیکھا ہے۔ پہلے تو ملزمان پولیس تحقیقات میں خامیوں کی وجہ سے ٹرائل کورٹ سے ہی چھوٹ جاتے ہیں اور اگر سزا ہو بھی جائے تو ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں ناقص پولیس تحقیقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری ہوجاتے ہیں۔ 2009ء میں کراچی کی غریب خاندان کی تین سالہ ثناء کے ملزمان پولیس اہلکاروں کی سزائوں پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکااور یہ کیس اب ہائی کورٹ میں ہے۔پاکستان کی عدالتوں میں دیکھا جائے‘ تو سوائے قصور کی زینب کے ‘ زیادتی کے کسی اور مقدمے میں ملزمان کی سزائوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ شاید اس کی وجہ بھی عوامی دبائوتھی‘ ورنہ تو قصور میں یہ مکروہ عمل تو طویل عرصے سے جاری تھااور حاکموں و محافظوں کو سانپ سونگھا ہوا تھا۔
اس وقت بھی 1074ملزمان سندھ کی عدالتوں میں زیادتی کے 474مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار سندھ ہائی کورٹ میں کائنات سومرو کیس میںجمع کرائے گئے ہیں۔ یہ کیس بھی پوری داستان غم رکھتا ہے۔اس کیس کے حوالے سے آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ سندھ کی بیٹی کائنات سومرو نے چار ملزمان کے خلاف زیادتی کرنے کا الزام لگایا تھا۔ یہ چاروں ملزمان ٹرائل کورٹ سے شک کا فائدہ لے کر بری ہوگئے۔کائنات سومروڈٹ گئی اور وہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ پہنچ گئی ۔اب گزشتہ کئی سال سے ہائی کورٹ میں یہ کیس التواء کا شکار ہے۔ ایک ملزم تو اس عدالت سے نکل کر اللہ کی عدالت میں پہنچ گیا ‘جہاں اسے ''بااثر افراد‘‘ اور پولیس تحقیقات کی خامیاں بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گی۔ سندھ کی اس بیٹی نے ایک اور بڑا فیصلہ کیا۔ کائنات سومرو نے اس دھرتی کی زیادتی کا شکار ہونے والی دیگر دو بیٹیوں سیمہ بانو اور بے نظیر کے ساتھ مل کر خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں پولیس تحقیقات کی خامیوں ‘ متاثر ہونے والی خواتین کو درپیش مسائل اور دورانِ تحقیقات ملزموں کو فائدہ پہنچانے والے نقائص کو دور کرنے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ ان تینوں باہمت بیٹیوں نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی‘ جس میں فریق حکومت ِسندھ و دیگر کو بنایا گیا ۔ ان تینوں بیٹیوں کا مؤقف تھا کہ زیادتی کا شکار خواتین ایک ٹراما سے گزری ہوئی ہوتی ہیں‘ جبکہ پولیس تحقیقات انہیں مزید اذیت سے دوچار کرتی ہے ۔ تحقیقات کے لیے مرد پولیس افسران تعینات ہوتے ہیں‘ جن کے سامنے خواتین کا ریپ کیسز میں جواب دینا‘ انہیں مزید تکلیف دیتا ہے۔ فوری نوعیت کے میڈیاکل ٹیسٹ کرانے میں جان بوجھ کر یا ملزمان کے بااثر ہونے کی وجہ سے تاخیر کرکے اہم ثبوت ضائع کردیا جاتا ہے۔ ایسے کیسز کو ہینڈل کرنے کیلئے تھانے میں خواتین اہلکاروں پر مشتمل علیحدہ ڈیسک ہونا چاہئے۔ متاثرہ خاتون کا ویڈیو بیان ریکارڈ کیا جانا چاہئے ‘تاکہ اسے بار بار عدالت میں پیش ہوکر ملزمان کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ملزمان کا سامنا کرنے سے اکثر متاثرہ خواتین خوفزدہ ہوجاتیں ہیں اور اپنا کیس واپس لے لیتی ہیں۔ زیادتی کا شکار خواتین اور بچوں کا ٹرائل اور ملزمان کی شناخت کا عمل ویڈیو ریکارڈنگ کی صورت ہونا چاہئے اور اس حوالے سے انتظامات کیے جانے چاہئیں کہ متاثرہ خواتین اور خاص طور پر بچوں اور ان کیسز میں گواہان کا ملزمان سے سامنا نہ ہوسکے اور نہ ہی متاثرین کو بار بار عدالت میں پیش ہونا پڑے۔یہ تمام وہ نکات ہیں‘ جس سے متاثرین کو ناصرف گزرنا ہوتا ہے‘ بلکہ بار بار اس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے یکم فروری 2019ء کو اپنے فیصلے میں ان تمام نکات پر عملدرآمد کرنے کے احکامات جاری کردئیے ہیں۔
شیریں بروہی نے اپنی لڑائی صرف اس ایک درندے کے خلاف نہیں لڑی اور نہ کائنات سومرو ‘ سیمہ اور بے نظیر ایسے درندوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں‘بلکہ شیریں کی سندھ کی ان بیٹیوں کی لڑائی‘ اس درندہ صفت نظام کے خلاف ہے‘ ان''بااثر افراد‘‘ کے خلاف ہے‘ جن کے ہاتھوں کسی غریب کی جان مال عزت محفوظ نہیں ہے ۔ شیریں بروہی‘ اپنی لڑائی لڑ کر چلی گئی۔ وہ صنف نازک تھی‘ بے زبان تھی‘ درندے سے لڑی ‘مگردیکھنا یہ ہے کہ وہ اکیلی بے زبان تھی یا 20کروڑ بے زبان ہیں‘ جو ان درندوں اور ان کو پالنے والوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔