"FBC" (space) message & send to 7575

علمی بددیانتی کا عفریت

''سی ایس ایس امتحان کے پرچے آئوٹ ہوگئے‘ ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کردیں‘‘۔پاکستانی میڈیا میں یہ ایک خبر تھی‘ جو دیگر خبروں کی طرح چند دن گرم رہی اور پھر منظر سے غائب ہوگئی۔ بدعنوانیوںکی خبروں کی بہتات نے اس خبر کو نگل کر اس کی حساسیت کو ختم کردیا۔اس خبر کے پس پردہ حقائق کس قدر بھیانک ہیں اور کس سازش کے تحت یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے ‘اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس امتحان کی حساس نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت اہلیت جانچنے کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والا سب سے بڑا امتحان ''سینٹرل سپیرئیر سروسز‘‘ کا امتحان سمجھا جاتا ہے ۔ اسی امتحان میں کامیاب ہونے و الے امیدوار وں پر مشتمل بیوروکریسی تشکیل پاتی ہے ‘جو کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔یہ بیورو کریسی ملک کی داخلی‘خارجی اور معاشی پالیسیاں بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس قدر اہم اور حساس نوعیت کے امتحان کے پرچے لیک ہوجانا یقینی طور پر علمی بددیانتی و بدعنوانی ہے۔
ویسے تو بدعنوانیوں کی تعریف سب نے اپنے طور ہی مرتب کرلی ہے۔ جیسے سی ڈی اے کے ایک افسر کا ''قول‘‘ ہے کہ رشوت لینا بدعنوانی نہیں‘ بلکہ رشوت لے کر کام نہ کرنا بدعنوانی ہے‘ اسی طرح تحریک انصاف کے کارکنان اپنے قائد کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی مالی بدعنوانی میں ملوث نہیں؛ البتہ اخلاقی بدعنوانی کو انصافین ذاتی فعل قرار دیتے ہیں۔ اب سی ایس ایس کے امتحان میں ہونے و الی علمی بدعنوانی کو کیانام دیا جاتا ہے اور اسے بدعنوانی کے درجے پر رکھا بھی جاتا ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ؛ البتہ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد جب ایف آئی اے اور انٹیلی جنس اداروں کے کچھ افسران سے ملاقات ہوئی تو علم ہوا کہ اس امتحان کے پرچے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لیک کیے جارہے تھے ۔من پسند افراد کو بیوروکریسی میں شامل کرانے کی سازش مرتب کی گئی تھی اور ایک مخصوص لابی اس حوالے سے خاص طور پر سرگر م تھی ۔ایک آدھ بار کی بات نہیں تھی‘ یہ عمل گزشتہ کئی سال سے جاری تھا‘ مگر اب تک اس پر کھل کر کام نہیں ہوسکا تھا۔ صرف چند لوگوں کو مختلف ذرائع استعمال کرکے سی ایس ایس کے امتحان کامیاب کرانے کی کوشش جاتی تھی‘ تاہم گزشتہ تین سال سے اس طریقہ واردات میں خاص تبدیلی آئی۔نیا راستہ اپنایا گیا اور جس کے تحت سی ایس ایس امتحان کے پرچے لیک ہونے کے بعد مخصوص لابی کے منظور نظر افراد تک پہنچنا شروع ہوگئے۔ پہلی بار فروری 2017ء کو اس حوالے سے خبر منظر عام پر آئی‘ مگر یہ خبر صرف ملتان میں سی ایس ایس کے پرچے لیک ہونے کے حوالے سے تھی ۔ اس وقت امیدواروں کی جانب سے تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا‘ مگر چند روز بعد یہ خبر دب گئی اور ہر جانب خاموشی چھا گئی تھی۔امسال اس منصوبے پر خاص طریقے سے کام شروع کیا گیا اور منظورِ نظر افراد تک ان پرچوں کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ برائے فروخت کا بورڈ بھی لگا دیا گیا ‘تاکہ ان امیدواروں کو جنہیں بیوروکریسی میں شامل کرانے کی تگ ودو کی جارہی ہے‘ انہیں نظروں سے اوجھل رکھا جاسکے۔رواں سال سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹ کے ذریعے سرگرم ایک شخص کو اس اہم امتحان کا پرچہ لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس کے افسروں نے بتایا کہ اس کیس کو دبانے کے لیے ایک بار پھر اعلیٰ سطح سے شدید دبائو آرہا ہے۔تحقیقات کرنے والوں سے کہا جارہا ہے کہ جو افراد پرچے لیک کرنے میں ملوث ہیں‘ ان کی رپورٹ میں ''بدعنوانی میں ملوث ہونے ‘‘ کی بجائے ''بدعنوانی کرنے کا ارادہ‘‘ رکھنے کا الزام شامل کیا جائے۔ملزمان کی تحقیقاتی رپورٹ میں الفاظ کا یہ ہیر پھیر کس حد تک کارآمد ثابت ہوگا اور قانون کو جل دینے میں مددگار ہوگا ‘اس کا باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ غور تو اس پر بھی کیے جانے کی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے بیوروکریسی میں شامل ہونے والے افسران کیلئے نیا امتحان مرتب کیا جائے اور ان کی اہلیت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے‘ تاکہ اس امتحان میں جعلی طریقے سے جونااہل افراد حساس منصب کے اہل قرار پائے ہیں ‘ان پر گرفت کی جاسکے اور حساس ملکی معاملات میں ان کی شمولیت کو روکا جاسکے۔
ویسے تو زندگی میں کامیاب ہونے کا جذبہ انسان کے اندر مثبت قوتوں کو سرگرم اور جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے‘ جبکہ سب کچھ پالینے کی ہوس اور اہلیت نہ ہونے کے باوجود اونچے مقام تک پہنچنے کی نفسانی خواہش منفی عوامل کو جنم دیتی ہے‘ جو چور راستوں کے انتخاب پر آمادہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں مقابلے کے امتحان میں بددیانتی ؛اگرچہ نئی سازش ہے‘ مگر جعلی طریقوں سے اہم منصب پر فائز ہونے کی روایت بہت پرانی ہے۔ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کیلئے گریجویشن کی سند لازمی قرار دی گئی تو اس مقدس جگہ تک پہنچنے کیلئے جعلی اسناد کا سہارا لیا گیا۔ کئی اراکین پارلیمنٹ کو اس وقت رسوائی کا سامنا کرنا پڑا‘ جب عدالت نے تعلیمی اسناد جعلی ثابت ہونے پر انہیں نااہل قرار دیا‘ اسی طرح قومی ائیر لائن کے سب سے حساس منصب بطور پائلٹ تعیناتی کے لیے جعلی اسناد کا سہارا لیا گیا اور کئی سال تک جعلی اسناد پر بھرتی ہونے والے پائلٹ ہزاروں مسافروں کو ساتھ فضا میں بلند ہو کر اپنی جان کے ساتھ ساتھ ان مسافروں کی زندگیوں کو بھی دائو پر لگاتے رہے۔ جب معاملہ سامنے آیا تو قومی ائیر لائن کے 16ہوابازوں سمیت کریو کے عملے کے جعلی اسناد رکھنے والے افراد کو فارغ کردیا گیا‘ پھر اسی نظام کی دین ہے کہ ایم بی بی ایس کی جعلی اسناد بھی آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جعلی اسناد کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی رجسٹریشن بھی حاصل کی گئی اور پھر ملک بھر میں انسانی جسموں کی چیر پھاڑ شروع کردی گئی۔ جب ان جعلی ڈاکٹروں کے ہاتھوں اموات رپورٹ ہوئیں تو ارباب ِاختیار کو ہوش آیا ۔ اعدادوشمار جمع کیے گئے تو انکشاف ہوا کہ دس ہزار سے زائد جعلی ڈاکٹرز انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں ۔ پی ایم ڈی سی نے بھی درجنوں جعلی ڈاکٹروں کی رجسٹریشن ختم کی۔یہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ ہمارے اسی نظام کی دین ہے کہ ہم جعلی دانشوروں سے بھی ''فیضیاب‘‘ ہوتے ہیں ۔ جعلی اسناد پر اساتذہ ‘پروفیسرز ‘ سکالرز بننے والے عوام میں ''شعور‘‘اجاگر کرنے کی ذمہ داری ادا کررہے ہوتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ایسے کئی دانشوروں کے نام موجود ہیں‘ جنہیں ان کی متعلقہ جامعات سے فارغ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے‘ تاکہ وہ اپنے منصب چھوڑیں اور امتحان میں شرکت کے ذریعے اصل سند حاصل کرنے کے بعد کسی منصب پر فائز ہوں۔ قارئین !ذرا تصور کریں کہ جب شعور سے عاری اور بددیانت لوگ ''شعور‘‘اجاگر کرنے کے ذمہ دار ہوںگے ‘تو معاشرہ کس جانب جائے گا؟ 
تحریک انصاف نے بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ حکومت بنائی تو اسے چاہئے کہ بدعنوانی کی من پسند تعریف گڑھ کر اس کا خاتمہ کرنے کی بجائے ہر طرح کی بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کرے‘ پھر چاہے وہ مالی بدعنوانی ہو یا علمی ‘ اخلاقی بدعنوانی ہو یا سیاسی ؛اگر ایسا نہ کیا گیا تو جعلی طریقے سے اہم مناصب پر فائز ہونے والے نااہل افراد اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے اور علمی بدیانتی کا عفریت پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں