"FBC" (space) message & send to 7575

پاکستان مخالف گٹھ جوڑ

''جب میں نے پہلی بار یہ خبر سنی کہ دہشت گردوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر فضائی کارروائی کرکے اسے تباہ کردیا گیا ہے تو میں سمجھا کہ اسرائیل نے شام یا غزہ میں کارروائی کی ہے۔ مگر جب بالاکوٹ کا نام سامنے آیا تو اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ نا تو شام میں ہے اور نہ ہی لبنان یا غزہ میں بلکہ یہ پاکستانی علاقہ ہے۔ جس پر بھارت نے اپنے فوجیوں پر حملے کو جواز بناتے ہوئے فضائی کارروائی کی تھی ‘‘۔ معروف کالم نویس رابرٹ فسک نے دی انڈیپنڈنٹ میں یکم مارچ کو اپنے آرٹیکل میں پاکستان پر ہونے والے بھارتی فضائی حملے میں اسرائیل کے کردار سے پردہ اٹھا یا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کارروائی کا انداز اور اس کے بعد بھارتی وزارت دفاع کا موقف بالکل وہی تھا جو اسرائیلی وزارت دفاع غزہ‘شام‘ لبنان میں اسرائیلی کارروائیوں کے بعد اپناتی ہے ۔ برطانوی صحافی رابرٹ فسک کو جنگوں کی کوریج کرنے والا ایک ماہر صحافی تصور کیا جاتا ہے۔ رابرٹ فسک نے 1970ء کی دہائی میں شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہونے والی شورش ‘لبنانی سول واراور ایرانی انقلاب کو برطانوی روزنامہ ٹائمز آف لندن کے لیے رپورٹ کیا جبکہ 1980ء سے 1988ء تک ایران عراق جنگ کی بھی کوریج کرتے رہے۔ انھوں نے عراق کویت جنگ‘ امریکہ کے عراق پر حملے ‘امریکہ کے افغانستان پر حملے ‘ عراق میں جاری شورش‘ شام کی صورتحال‘ اسرائیل لبنان جنگ اور اسرائیل فلسطین لڑائیوں کو بھی برطانوی روزنامہ دی انڈیپنڈنٹ کیلئے رپورٹ کیا۔ رابرٹ فسک جنگوں کی کوریج کرنے کا 45سال سے زائد تجربہ رکھتے ہیں اس لیے بین الاقوامی میڈیا میں ان کے تبصروں کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے جو عمومی طور پر درست ثابت ہوتے ہیں۔ 
حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور پاکستانی حدود میں بھارتی کارروائیوں میں اسرائیل کے عملی کردار کو رابرٹ فسک نے بے نقاب کیا ہے۔ اسرائیل دنیا بھر میں اسلام مخالف ایسی حکومتوں کی پشت پناہی کرتا ہے جو مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں ملوث ہوتی ہیں ۔ اس حوالے سے جب روانڈا میں مسلمانوں کا خون بہایاگیا تو اسرائیل نے روانڈا کی حکومت کو ہتھیار فراہم کیے ۔ پھر جب میانمار میں فوجی حکومت نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تو اس قدر بھیانک واقعات سامنے آئے کہ عالمی سطح پر میانمار حکومت کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی گئی مگر اسرائیل نے میانمار حکومت کو اسلحہ و گولہ بارود‘ٹینکس‘ فوجی گاڑیاں اور جنگی کشتیاں مہیاکیں۔ رابرٹ فسک کے کالم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل پاکستان میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی میں اس حد تک دلچسپی رکھتا ہے کہ وہ پاک بھارت ایٹمی جنگ کرانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ پاکستان کے خلاف بھارت کوکٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرنے کا کام اسرائیل نے 1992ء میں بھارت سے سفارتی تعلقات قائم کرکے شروع کیاتھا اور آج بھارت اسرائیلی اسلحے کا ایک بڑا خریدار بن چکا ہے۔ گزشتہ سال بھارت نے اسرائیل سے 700ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا‘ جس میں ایمونیشن‘ میزائل اور ریڈار سسٹم شامل ہے۔غزہ میں فلسطینی نوجوانوں کی طرح کشمیری نوجوانوں کے قتل عام کے لیے اسرائیل کمانڈوز بھارتی فوج کو تربیت دے رہے ہیں۔ اسرائیلی کمانڈوز بھارتی فوج کوکشمیر میں پتھرائو کرنے والے ''دہشت گردوں‘‘ سے نمٹنے کے لیے غزہ میں آزمائی گئی ''خصوصی تکنیکس‘‘ کی تربیت کروا رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی فوج اور کشمیر میں بھارتی فوج کو ایک جیسی صورتحال کا سامنا ہے مگر فرق یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان موجود ہے جو ایک ایٹمی قوت ہے۔ پاکستان بطور ایٹمی قوت اسرائیل کو پہلے روز سے ہی کھٹک رہا ہے‘ اس لیے پاکستان کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے اسرائیل نے بھارت کا سہارا لیا ہوا ہے۔ اسرائیلی روزنامہ ہارٹز میں شائع ہونے والے بھارتی کالم نگار شیری ملہوترا نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل اور بھارت کا اتحاد مسلم مخالف نظریے کی بنیاد پر ہے ۔ دونوں ملک مسلمانو ں کو دشمن سمجھتے ہیں اور اس اتحاد کی وجہ سے دو کروڑ بھارتی مسلمانوں پر مستقبل میں زندگی تنگ ہوجائے گی۔ ملہوترا نے لکھا ہے کہ مسلم دشمنی کی وجہ سے اسرائیل انتہا پسند ہندوئوں کا پسندیدہ ملک بن چکا ہے۔ 
اسرائیل کی مسلمانوں سے اور خاص طور پر پاکستان سے نفرت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس لیے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز بھی اس حوالے سے مکمل طور پر تیار نظر آتی ہیں۔ راجستھان کے فضائی اڈے سے پاکستان کے شہروں پر حملے کے اسرائیل وبھارت کے منصوبے کی تفصیلات حاصل کرلی گئیں تھیں۔ جس کے بعد واضح جوابی حملے کے بیک ڈورپیغام کا خاطرخواہ اثر ہوا اور حملے کا منصوبہ ناکام بنا یا گیا۔ بھارت و اسرائیل کی سازشوں کوپاکستان حکمت عملی سے ناکام بنا رہا ہے اور اپنی جنگی مہارت بھارت سمیت دنیا بھر پر ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ امن کا پیغام بھی دے رہا ہے۔ان سب معاملات کے باوجود بھارت مسلسل جنگ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ دو روز قبل پاک بحریہ نے بھارتی آبدوز کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے روکا اور پکڑنے کے بجائے واپس بھیج کر بھارتی بحریہ پر جنگی برتری کے ساتھ اخلاقی برتری بھی ثابت کردی ہے۔ 
پاک بھارت کشیدگی جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت اپنی روایت کے مطابق پاکستان دشمنی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر جنگ کا ڈھول بجاکر آئندہ عام انتخابات میں جانا چاہتی ہے دوسری جانب بھارت اپنے قریبی دوست اسرائیل کی شہ پر پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کرنا چاہتا ہے۔ایسے حالات میں پاکستان میں وقفے وقفے سے اسرائیل دوستی کی آواز اٹھانے والوں پر بھی خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ 
پھرایک نکتہ یہ بھی ہے کہ پاکستان مخالف سازشوں میں ایک اور ملک کا بھی نام آتا ہے‘ کہ اس کی جانب سے حالیہ کشیدگی میں انڈیا کو مکمل سپورٹ کیا گیا ہے بلکہ کہا تو یہاں تک جارہا ہے کہ پاکستان مخالف سازشی گٹھ جوڑ صرف انڈیا اور اسرائیل پر مشتمل نہیں بلکہ یہ ''الفی تکون‘‘ ہے ۔ اب اس میں کہاں تک صداقت ہے یہ تو اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے والے ہی بتاسکتے ہیں۔ اگر اس بیانیے میں واقعی حقیقت ہے تو پھر اس ''برادر یوسف‘‘ کے چہرے سے نقاب ہٹانے میں کیا مضائقہ ہے۔1965 ء کی جنگ میں بھارتی جہازوں کو فیول اور اجیت ڈوول کے مطابق 71میں باقاعدہ اڈے دینے جیسے احسانات اگر ماضی بعید کا حصہ بن گئے ہوں تو پھر پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے کے الزامات ‘ بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادو کو تاجر کا پاسپورٹ دینے جیسی مہربانیاں‘ اور پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے تو حالیہ کارنامے ہیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ قومیں تب ہی ترقی کرتی ہیںجب دوست دشمن کی پہچان کرلیں۔ اس لیے جب بیرونی سازشوں سے سرحدیں محفوظ کرلی جائیں تو پھرسکیورٹی اداروں کووطن کے خلاف سازشیں تیار کرنے والوں کے سبھی حامیوں سے بھی ضرور نمٹنا چاہئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں