برطانیہ کے شہر آکسفرڈ میںنیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) سے وابستہ ایک دوست نے جب اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین سے پوچھا کہ اگر انہیں کوئی ایسا مرد ملے‘ جو ان کی تمام ضروریات کو پورا کرے‘ان کا نگہبان اور محافظ بنے‘ توکتنی خواتین ایسا لائف سٹائل ملنے کے باوجود نوکری کرنے کو ترجیح دیں گی؟ اس نجی سروے کے دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ ان دوست کی ساتھی خواتین‘ جن میں ڈاکٹرز‘نرسز‘ میڈیکل اور نان میڈیکل سٹاف شامل تھا‘ میں سے98 فیصد خواتین کا جواب تھا کہ وہ ایسے لائف سٹائل کو بخوشی قبول کریں گی‘ جس میں ان کی ذمہ داریاں ان کا ساتھی اٹھائے۔یہ ان خواتین کا جواب تھا‘ جو مغرب کے ''آزاد ‘‘اور دنیا بھر میں ''حقوق نسواں ‘‘ کی علامت سمجھے جانے والے معاشرے میں پروان چڑھی تھیں۔ ان خواتین کا جواب ان کی فرسٹریشن کو ظاہر کررہا تھا ‘جو یقینی طور پر مغربی معاشرے کی دین ہے۔ جہاں خواتین میں عدم تحفظ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عورت کو ''آزاد معاشرے‘‘ میں ''برابری کے حقوق‘‘ کے ساتھ پروان چڑھانے والے مغرب میں اب عورتیں اپنے بقاء کی جنگ لڑتی نظر آتی ہیں۔ تباہ شدہ خاندانی نظام کے سرہانے کھڑا مغرب اس نظام کی بحالی کے منصوبے بنا رہا ہے‘ مگر مشرق میں اس کے کارندے دوسرا ہی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
مغرب میں مکمل طور پر ناکام ہوجانے والے ''عورت کی آزادی‘‘ اور ''برابری‘‘ کے دعووں پر کھڑے نظام کو اس کے کارندے مشرق میں لاگو کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جدیدیت کے نام پر مغربی نظام کے لاشے میں جان ڈالنے کی بھرپورکوششیں جاری ہیں اوراس مقصد کیلئے یہاں بھی پہلا ہدف عورت کو ہی بنایا گیا ہے۔ سماجی اقدار ہوں یا معاشرتی‘ مذہبی اقدار ہوں یا اخلاقی ‘ہمیشہ سے صنف نازک کواہم مقام حاصل رہا ہے۔ ان اقدار کو تباہ کرنے کی سازشوں میں مصروف طبقے کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر انہیں اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہونا ہے تو عورت کو اس کے اعلیٰ مقام سے گراکر اپنی ذات کا پجاری بنانا ہوگا ۔ اس مقصد کیلئے مختلف منصوبے بنائے جاتے ہیں ‘کبھی ''میراجسم میری مرضی ‘‘کا خوشنما جال بچھایا جاتا ہے ‘تو کبھی کائنات کی اس خوبصورت تخلیق کو اپنے خالق سے دور کرنے کیلئے مغربی ثقافت کی رنگینیوں میں ڈبویا جاتا ہے۔ کبھی ''می ٹو‘‘کو ٹاپ ٹرینڈ بنوایا جاتا ہے‘ تو کبھی ''کھانا خود گرم کرلو‘‘ لانچ کی جاتی ہے۔غرض یہ کہ عورت اس سازش کو سمجھ ہی نہیں پارہی۔ اپنی تذلیل‘ تحقیر‘ اور تقدس کی پامالی کو اپنی کامیابی سمجھنے لگ جاتی ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ثقافت مقامی ہوتی ہے‘ درآمدی نہیں۔جدیدیت کے ایسے دلفریب جال میں پھنستی چلی جارہی ہے ۔اپنے رب کی جانب سے مقدس رشتوں کی صورت اپنے محرموں کے دلوں پر حکومت کرنے والی عورت کو ترقی اور شہرت کا فریب دیا جاتا ہے‘ تو وہ اسلافی اقدار کی پامالی میں ہی اپنی بقاء گردانتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس فریب میں آنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اورانہیں اپنی سب سے قیمتی متاع کے زیاں کا احساس تک نہیں۔حد تو یہ ہے کہ اپنی تذلیل و ناقدری کو عورت مارچ کے نام پر منایا گیا؛چونکہ سوسائٹی کے معاشی‘ سماجی‘ مذہبی اور بنیادی اخلاقی اقدار میں ہمیشہ عورت کا کردار انتہائی اہم رہا ہے‘ اس لئے ان اقدار کو تباہ کرنے کیلئے استعمال بھی عورت کا ہی کیا جارہا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں عورت کا مقام ہر رشتے میں مقدس و محترم ہے۔ ماں ہے تو بیٹے قدموں میں جنت تلاش کرتے ہیں‘ بہن ہے تو بھائیوں جیسے محافظ ملتے ہیں‘ بیوی کے روپ میں گھر کی ملکہ اور شوہر کا فخر۔عورت کا یہ مقام مشرق کا ہی خاصہ ہے‘ جو مغرب اور اس کی کٹھ پتلیوں کو کھٹک رہا ہے۔عورت سے اس کا یہ مقام چھیننے کیلئے اربوں روپے پھونکے جارہے ہیں۔ غیرسرکاری تنظیموں کو کروڑوں روپے کے فنڈز فراہم کرکے مختلف مہمات چلائی جاتی ہیں۔ مشرقی عورت کو تباہی کی جانب لے جانے کیلئے نئی نئی سازشیں تیار کی جارہی ہیں۔حال ہی میںکراچی میں درجن بھر مرد و زن پر مشتمل ایک مجمع میں کہے جانے والے الفاظ ''جب تک نکاح کو ختم نہیں کیا جاتا‘ عورت پر ظلم و تشدد ختم نہیں ہوسکتا ‘ نکاح 1825ء میں انگریز نے نافذ کیا تھا‘ اس سے قبل ہندوستان میں نکاح نہیں ہوتا تھا‘‘۔عورت کی آزادی کے علمبرداروں کے اس مجمع میں نکاح جیسے قرانی حکم پر حملہ کیا گیا ۔ پروپیگنڈاکا ایک اہم جز یہ ہے کہ اگر کسی مضبوط نقطے کا جواب دینا ممکن نہ ہو تو اس کے بارے میں ابہام پیدا کرنے اور اسے زیر بحث لاکر مختلف فورمز پر زیر بحث لانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ تاکہ کم از کم اس کی اہمیت کم کی جاسکے۔ نکاح جیسے حکم ربی کے حوالے سے بھی مغربی ٹولے نے یہی طریقہ اپنانے کی کوشش کی تو اسے سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی کارندوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس معاشرتی نظام میں تاحال دم خم موجود ہے۔ ردعمل کے خوف سے عورت مارچ کے نام پر ہڑبونگ مچانے والی غیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داران کو بھی مختلف فورمز پر معذرت کرنا پڑی۔ ابھی عورت مارچ کے بیہودہ‘لچر اور اخلاقی دیوالیہ پن کا تذکرہ زبان زدعام ہی تھا کہ لاہور کی شاہراہوں پر ایک آن لائن ٹیکسی سروس کے ''اپنی شادی سے بھاگنے‘‘ کی ترغیب دیتا ہوا نعرہ سامنا آگیا ۔بنیادی اخلاقی اقدار کے منافی یہ نعرہ معاشرتی اقدار اور مقامی ثقافت پر کھلا حملہ تھا۔ اس نعرے میں بھی ہدف عورت ہی ہے ‘ جسے معاشرے کی نظر میں رسوا کرنے اور بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے شادی جیسی تقریب سے بھاگتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔کسی بھی معاشرے میں اس کی گنجائش نہیں بنتی‘ کیونکہ ایسا عمل ہر معاشرے میں ہی معیوب قرار پاتا ہے ۔ کیا کسی ترقی یافتہ مغربی ملک میں کوئی کمپنی ایسی ترغیب دے سکتی ہے‘ جس میں اپنی شادی سے کسی چرچ سے بھاگنے کی ترغیب دی گئی ہو؟ ایسی ہمت صرف پاکستان میں ہی کی جاسکتی ہے‘ کیونکہ جن کا کام اپنی ثقافت اور اقدار کا تحفظ ہے‘ وہ اپنی تنخواہیں بڑھانے اور تاحیات رہائش کے حصول میں مصروف ہیں۔
درج بالا دونوں واقعات نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا؛اگرچہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں‘ مگر ان کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہ یکساں ہیںاور اپنے پیچھے واقعات کا ایک تسلسل رکھتی ہیں۔ ہماری سوسائٹی طویل عرصے سے جدیدیت کے نام پر درآمد شدہ ثقافتی دہشت گردی کی زد پر ہے‘ ایسے میں مختلف حربوںسے سوسائٹی کی بنیادی اخلاقی اقدار پر حملے دراصل ردعمل میں پیدا ہونے والی مزاحمت کو جانچنے کی کوشش کی ہیں۔ چند سال قبل مانع حمل مصنوعات کی تشہیر کے دوران جب خاندانی نظام کو نشانہ بنایا گیا‘ تو عوامی ردعمل نے اس حملے کو ناکام بنادیا‘ اسی طرح ایک الیکٹرانکس کی گھریلو مصنوعات تیار کرنے والی کمپنی نے باپ اور بیٹی کے مقدس رشتے پر حملہ کیا تو اسے بھی عوام کے غم و غصہ کا سامنا کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کرنے پڑی‘ پھر مشروب تیار کرنے والی بین الاقوامی کمپنی کی جانب سے اقلیتوں کو ہدف بنا کر سوسائٹی کے بنیادی ڈھانچہ پر چوٹ کرنے کی کوشش ہو ‘عوام کی جانب سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر پیدا ہونے والے ردعمل نے ان کمپنیوں کی سازشوں کو ہمیشہ ناکام بنایا۔
الغرض مذکورہ بالا سازشوں کے تانے بانے بننے والے منتظر ہیں کہ سوسائٹی کی جانب سے مزاحمت کمزور ہوتی نظر آئے‘ تو وہ کھل کر مغربی ثقافت کو مشرقی ثقافت سے بدل سکیں۔ایسے وقت میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ذہن نشین رہے کہ اپنی اقدار‘روایات اور ثقافت کو تباہ کرکے کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتاہے ‘اس لیے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے کئے جانے والے ایسے اقدامات کی طرح ''ثقافتی دہشت گردی‘‘ کی روک تھام کیلئے بھی حکومت کو ''نیشنل ایکشن پلان‘‘ مرتب کرناہوگا ۔