پاکستانی سیاست میں مخالفین کو نیچا دکھانے اور زچ کرنے کیلئے نت نئے حربے آزمائے جاتے ہیں۔کبھی جعلی و اصلی مقدمات میں پھنسا کر تو کبھی اختیارات کے ناجائز استعمال کا پنڈورا بکس کھول کر۔کبھی ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے کے افسانے گھڑ کر تو کبھی دہشت گردوں کا حامی قرار دیکر۔ غرض یہ کہ مخالف کو پچھاڑنے کیلئے نئے دائو پیچ متعارف کرانے کا رجحان ہمیشہ سے رہا ہے ۔اس حوالے سے ماضی میں الزامات کی سیاست کا بڑا شہرہ رہا ہے‘ ایک دفعہ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات اور نجی زندگیوں کے ایسے ایسے گوشوں سے پردے ہٹائے گئے کہ عوام نے مارے حیرت کے دانتوں میں انگلی داب لی۔جب سیاسی مفادکا حصول اولین ترجیح ٹھہرا تو مخالف کی نجی زندگی کو عریاں کرنے کے سلسلے کوبھی ایسی پزیرائی ملی کہ یہ ''سیاسی روایت‘‘ بن گیا؛اگرچہ یہ سلسلہ اب بھی اپنے پورے جوبن پر ہے ‘مگراضافی طور پر اس کے ساتھ سیاسی جگت بازی کی صنف بھی متعارف کرادی گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں شامل فیصل آبادی رہنمائوں نے خاص طور پر اس ''صنف تنقید‘‘ کو فروغ دیا ہے‘ جس کے بعد اب ہرسطح پر سیاسی جگت بازی تنقیدی حربے کے طور پر استعمال ہورہی ہے‘ اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے مخالف سیاستدانوں کو زچ کرنے کیلئے مختلف ناموں سے مخاطب کرکے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ایک باریش بھاری بھرکم شخصیت کو'' بی جمالو‘‘ کہا گیا تو ایک نو آموزاورنوجوان سیاست دان کونازک مزاج گردانتے ہوئے '' بلو رانی‘‘ کہہ کرپکارا گیا ‘ پھر جوابی جگتی حملے میں ''فساد چوہدری‘‘ اور ''چالیس چوروں کی ٹیم‘‘‘ ''سدا بہار کنوارہ‘‘‘ '' موٹو گینگ‘‘ اور ''ڈینگی برادرز‘‘ جیسے نام بھی سامنے آئے ۔یہ '' فن‘‘ اتنا پھیلا کہ میدان سیاست کا ہر کھلاڑی اس میں طاق ہونے کی تگ و دو میں لگ گیا ۔ ایک صوبائی وزیر صاحب تو اتنا آگے نکل گئے کہ پہلے اداکارہ کو جگت ماری جب ردعمل سامنے آیا تو دوسری جگت مارکر یعنی ''بہن‘‘ بنا کر جان چھڑائی۔انہی صاحب نے صحافیوں پر بھی جگت بازی کی کوشش کی‘ بعدازاں انہیں معافی مانگ کر جان چھڑانی پڑی؛ البتہ تیسری جگت انہیں بہت مہنگی پڑی اور وہ اس کے اثرات بد سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ اس بار ان کا معافی تلافی کا حربہ بھی کام نہ دکھا سکا اور اقلیتوں کے مذہبی عقائد کا مذاق اڑانے پر انہیں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
سیاسی جگت بازی کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ر وزانہ کی بنیاد پر ایسے ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ طبیعت تروتازہ ہوجاتی ہے۔ مخالفین کی جانب سے شروع کی جانے والی سیاسی مہمات کے نام بھی جگتوں کی زد میں آچکے ہیں۔ ن لیگ نے ''ووٹ کو عزت دو ‘‘ مارچ شروع کیا تو مخالفین کی جانب سے اسے ''نوٹ کو عزت دو اور کرپشن کو عزت دو ‘‘ کے ناموں سے پکارا گیا‘ اسی طرح سونامی مارچ کو بھی تباہی مارچ کا نام دیا گیا۔ سیاسی مہمات پر جگتیں مارنے کی تازہ ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب بلاول بھٹو نے ٹرین مارچ کا آغاز کیا تو حکومت کی جانب سے اپوزیشن کی اس مہم کو ''ابو بچائو مہم‘‘ قرار دے دیا گیا۔اس مہم کے تناظر میں ''ابو بچائو مہم‘‘ کی پھبتی دلچسپ‘برمحل اور بروقت نظر آتی تھی ‘مگرناجانے کیوں اسے صرف مزاح کی حد تک رکھنا میرے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ صرف الفاظ کا ہیر پھیر یا جملہ بازی نہیں‘ بلکہ پس منظر میں دلچسپ تاریخی حقائق رکھنے والی ایک ''جگت ‘‘ہے۔'' ابو بچائو مہم‘‘ بلاول نے شروع نہیں کی‘ بلکہ اس کی تاریخ تو بہت پرانی ہے ۔ سیاست میں بغیر ابو کے تو کسی کا گزارہ ہی نہیں رہا۔ کوئی اپنے ابو کی سیاسی وراثت سنبھالتا ہے ‘تو کوئی اپنے سیاسی ابو کی میراث کے بل بوتے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ غرض یہ کہ سیاست میں ابو ضروری ہیں‘ چاہے ''حقیقی ابو‘‘ ہوں''سیاسی ڈیڈی‘‘ ہوں یا ''روحانی اباجی‘‘۔ سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو ''پہلے سیاسی ڈیڈی‘‘ کے طور پر جنرل ایوب خان کا نام آتا ہے ۔سیاسی ڈیڈی کی شہ پر ذوالفقار علی بھٹو نے کامیابیاں سمیٹنے کے بعد پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ابو کے نام پر سیاست کی اور ان کے بعد اب بلاول بھٹو اپنی امی اور ابو دونوں کے نام پر سیاست کررہے ہیں ‘ اسی طرح سیاست میں ''سیاسی ابا جی ‘‘ بننے کا شرف سابق صدر جنرل ضیاء الحق کو حاصل ہو۔ انہوں نے اپنے حقیقی پسران اعجاز الحق اور انوار الحق صاحب کے ساتھ کئی روحانی پسران کو لیگی دھاگے میں پرو کر ملکی سیاست کے گلے کا ہار بنا دیا۔جب تک جنرل ضیاء الحق زندہ رہے ''ابو بچائو‘‘ مہم کئی بار چلی اور بہت زوردار چلی۔ اس کے بعد اسی لڑی سے مزید کئی ''گدی نشینوں‘‘ نے جنم لیا ۔
پھر سیاسی منظر نامے پر پرویز مشرف صاحب کا ظہور ہوا تو ان کی پدرانہ شفقت سے مستفید ہونے والوں کی فہرست بھی بہت طویل ثابت ہوئی۔جیسے استاد کو ہمارے معاشرے میں روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے‘ ایسے ہی مشرف کو ''روحانی باپ‘‘ماننے والوں کی فہرست بھی بہت طویل تھی۔ دورِ مشرف میں ''مشرف بہ اقتدار‘‘ ہونے والوں کے لیے ق لیگی کنبہ تشکیل دیا گیا ‘جس کی جوڑ توڑ میں اینٹ اور روڑے کی نہ تو پہچان کی گئی اور نہ ہی پروا۔اس کنبے کی تشکیل سے فیض پانے والے آج بھی ''ابو بچائو مہم‘‘ میں سرگرم کردار ادا کررہے ہیں ۔ غداری جیسے سنگین مقدمات کے دوران عدالت میں پیشی سے رخصت دلوانی‘ ملک سے فرار کرانا ہو‘ غیرموجودگی میں املاک کی حفاظت کرنی ہو‘ عدالت کی جانب سے واپس لانے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہو‘ غرض یہ کہ ہر موقع پر ''ابو بچائو مہم‘‘ چلائی جاتی ہے۔ یہ مہم تو انتہائی مضبوط نظر آتی ہے‘ مگر اس بار عدالت ِعظمیٰ نے برطانیہ میں آئین توڑنے کی سزا‘ اولیور کرامیول کی لاش کو دینے کی مثال دیتے ہوئے ملزم کو خود پیش ہونے ‘ ویڈیو بیان ریکارڈ کرانے یا اپنے وکیل کے زریعے عدالت کے سوالوں کے جواب دینے کے تین آپشنز میں سے ایک پر فوری عمل کرنے کا حکم دیاہے۔
یہ '' آبائ‘‘ بہت سخت تھے ‘ آنکھوں میں غصہ‘ماتھے پر شکنیں اورہاتھ میں چابک ۔اس سے کافی منفی تاثر جنم لے چکا تھا ‘اس لیے اس بار اسے بدلنے کی کوشش کی گئی۔اس حوالے سے ایک نئی تبدیلی 2018ء کے عام انتخابات میں سامنے آئی ۔یادش بخیر ‘ملک بھر میں انتخابی ہلچل تھی اور معاملات وحالات ''حسب منشاء ‘‘ چل رہے تھے۔ بس بلوچستان ایک ایسا صوبہ تھا‘ جہاں کچھ اکھاڑ پچھاڑ چل رہی تھی اور حالات ترتیب میں آتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ واضح نظر آرہا تھا کہ بلوچستان کے سیاستدان کسی ایک شخصیت کو ''سیاسی و روحانی ابو‘‘ کا درجہ دینے سے انکاری ہیں تو ان کیلئے ملک کے وسیع تر مفاد میں ''باپ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس عمل کے زریعے بلوچستان کے حالات کو قابو کیا گیا اور ملک پھر کسی مشکل صورتحال سے دوچار ہونے سے بچ گیا۔
جگت بازی اصل میں میراثیوں کی میراث تھی‘ مگر اب اس پہ پاکستانی سیاست دان تسلط جماتے نظر آتے ہیں ۔ ایک فرق پھر بھی نمایاں ہے کہ میراثیوں کی جگتیں محض تفریح طبع کیلئے ہوتی تھیں ‘مگر ان کی جگتیں اپنے پس منظر میں پوری تاریخ رکھتی ہیں؛ اگر انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے توبہت کچھ سیکھنے اور جاننے کو ملتا ہے۔