"FBC" (space) message & send to 7575

کراچی پیکیج

دنیا بھر میں ساحلی شہروںکو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے کیلئے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔سمندری کھیلوں کو فروغ دیا جاتا ہے اور بین الاقوامی سطح کے مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں‘ایکیوریم کے ذریعے سمندری حیات کی الگ دنیا بسائی جاتی ہے ‘ مگر کراچی کی بدقسمتی دیکھیں کہ یہاں ترقیاتی کاموں کی مد میں ملنے والے اربوں روپے بلا خوف و خطر ہڑپ کرلئے جاتے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ناکام منصوبے متعارف کروائے جاتے ہیں ۔ معمولی لاگت کے ان منصوبوں کو دگنی لاگت کا ظاہرکرکے کئی گنا زیادہ لاگت سے مکمل کیا جاتا ہے یا پھرکمیشن وصولنے اور خردبرد کے بعد ''کے فور‘‘ منصوبے کی طرح ادھوراہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر شہر کو برباد کرنے کیلئے دن رات کام کرنے کی وجہ سے ہونے والی تھکن دبئی کے ساحلوں پر جاکر اتاری جاتی ہے۔ اب باغ ابن قاسم کو ہی دیکھ لو۔ کراچی کی ساحلی پٹی کے حوالے سے ماہرین بتا چکے ہیں کہ یہاں تیز ہوا اور اس سے اڑنے والی ریت پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔'' سینڈ بلاسٹنگ‘‘ یہاں لگائے جانے والے پودوں کے پتوں میں سوراخ کرکے انہیں تباہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پٹی پر سوائے مینگروو کے کوئی پودا نشوونما نہیں پاسکتا اور جلد ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کے باوجود گزشتہ چند سال میں باغ ابن قاسم پر دو ارب روپے لگانے کے دعوے کئے گئے۔لاکھوں روپے کے پودے اور گھاس کروڑوں روپے میں لگا کر پارک کی بحالی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔اس پارک کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ اس کے باوجوداس پارک کا تیسری بار افتتاح کیا گیا ہے اور وہ بھی وزیر اعظم صاحب کے ہاتھوں۔ڈاکٹر فیاض عالم اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے انداز میں یہ تفصیلات بتارہے تھے۔ وہ گزشتہ برسوں میں '' تعمیر کراچی پروگرام‘‘ نامی کامیاب پروجیکٹ اور اس حوالے سے بنائے گئے تھینک ٹینک کا حصہ تھے اور ایک طویل عرصے تک شہر قائد کو لوٹنے والوں اور ٹھیکیدار مافیا سے برسرپیکار رہے تھے۔
ڈاکٹر فیاض صاحب سے اس ساری گفتگو کا آغاز ایک خبر کے حوالے سے ہوا۔اخبارکی شہ سرخی تھی '' وزیرا عظم نے کراچی کیلئے 162ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ جس کے تحت کراچی میں 18منصوبوں پر کام شروع کیا جائیگا‘‘۔ یہ خبرکراچی والوں کیلئے خوشی کی ضرور ہوسکتی تھی؛ اگر آزمائے ہوئے بازوئوں کو دوبارہ آزمانے کی کوشش نہ کی جاتی۔ ماضی میں اس شہر کے باسیوں نے جس پر بھی بھروسہ کیا ‘اس نے انہیں دھوکہ ہی دیا۔شہری حکومت ہو‘ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت‘ جو بھی آیا اس نے کراچی کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یہی وجہ رہی کہ ملکی جی ڈی پی کا 25فیصد اور وفاقی محصولات کا 65فیصد حصہ دینے والا شہر سیاسی یتیم نظر آتا ہے۔ اس شہر کا انفراسٹریکچر تباہ اورٹرانسپورٹ‘ پانی اور صفائی کے مسائل قابو سے باہر ہوچکے ہیں‘مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے کراچی پیکیج کے نام ایک خطیر رقم اس شہر بے اماں کو دینے کا اعلان دے دیا ہے‘مگر جن کے حوالے یہ رقم کی جارہی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کراچی کو سنوارنے سے زیادہ اتحادیوں کو نوازنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
متحدہ کی سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اس نے کراچی جیسی سونے کی چڑیا پر تسلط جما یا اور اسی بنیاد پر صوبائی و وفاقی حکومتوں سے فیض پاتے رہے۔شہر قائد کو جاری ہونے والے پیکیجز ‘فنڈز ہڑپ کرنے کیلئے جو جدید اور ماورائے عقل طریقے گزشتہ تین دہائیوں میں متعارف کروائے گئے ‘اس کی شاید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ شہرکے میدان‘ پارکس‘ ندی نالے تک بیچ کھائے گئے۔اب شہر کے خالی پلاٹوں پر قبضے کیلئے چائنہ کٹنگ متعارف کروانے والوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اڑھائی کروڑ آبادی والے دنیا کے گیارہویں بڑے شہر کے مسائل حل کرے گی۔ اسے محض اتفاق قرار دینے پر دل قائل نہیں کہ ماضی میں کراچی کو سنوارنے کے دعوے کرنے والی تمام شخصیات آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کا سامنا کررہی ہیں۔ کراچی کو پیکیجز دینے کے نام پر سرکاری خزانے سے اتحادیوں کو نوازنے کی روایت کافی پرانی ہے۔ ہم بہت دُور نہیں جاتے‘ گزشتہ دو دہائیوں کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ 
سابق صدر پرویز مشرف نے 2003ء میں اور پھر 2005ء میں پیکیجز کا اعلان کیا تھا ۔ مشرف کے ساتھ بھی متحدہ ہی اتحادی تھی‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مشرف نے متحدہ کو اپنے دور میں دوبارہ زندہ کیا تو غلط نہ ہوگا۔مشرف نے اپنے اتحادی کے ساتھ مل کرشہر میںقریباً چار ارب روپے مالیت سے دو صنعتی پارکس بنانے کا اعلان کیا‘ مگر صنعتی پارک تو کیا بنتے ‘جو پارکس کراچی کی پہچان تھے‘ وہ بھی ختم کرکے ان کی جگہ ناجائز تعمیرات کرادی گئیں۔ صنعتی پارکس کی مد میں خردبرد کی جانے والی رقم کی تحقیقات اب احتساب ادارہ کر رہا ہے اور وزیر اعظم کے ایک' دست ِراست‘کا نام بھی فیض پانے والوں میں شامل ہے۔رہے ‘مشرف اور اتحادی‘ تواب صورتحال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دبئی میں اخراجات کسی قطار میں ہی نہیں اورمتحدہ کے رہنمائوں کے اثاثوں کا شمار نہیں‘ پھر دور آیا آصف علی زرداری صاحب کا‘ اس دور میں یہ سیاسی جماعت ان کی بھی ''ضرورت'' ٹھہری۔ 2009ء میں زرداری صاحب نے 22ارب روپے کے گرین کراچی پروجیکٹ کی منظور دی ۔ ان دونوں اتحادیوں کی مشترکہ ''کاوشوں کا ثمر ‘‘ یہ رہا کہ کراچی تو گرین نہ ہوسکا؛ البتہ اس ہریالی کے اثرات‘ لاڑکانہ و لندن سیکریٹریٹ تک نظر آئے ‘بے نامی اکائونٹس میں اربوں کی ٹرانزیکشن‘کرپشن کی ایک الگ طلسم ہوشربا ہے۔اب رہا کراچی تو اس شہر کو مذکورہ پا نچ سالہ دور میں 22ہزار سے زائد لاشیں اٹھانی پڑیں اورپھرجب ن لیگ کی حکومت آئی تو بھی اسی سیاسی جماعت کے بغیر چلنا ان کیلئے بھی ناگزیر ٹھہرا ۔ سو‘حسب ِروایت پیکیج کے نام پر اتحادیوں کو نوازنے کیلئے 2014ء میں نواز شریف نے 15ارب کے ٹرانسپورٹ پیکیج کا اعلان کیا‘ جبکہ اسی دور حکومت میں دوسری بار اگست 2017ء میں 20ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا‘مگر بدقسمتی یہ رہی کہ کراچی کی قسمت میں بدلنا نہیں تھا۔ سو‘ نہ کراچی بدلا اور نہ ہی کراچی کے نام پر اتحادیوںکو نوازنے کی روایت بدلی۔ موجودہ حکومت قائم ہوئی تو متحدہ اس کی بھی ضرورت بن گئی ۔اب کراچی کی ترقی کے نام پر حسب ِروایت اتحادیوں کو نوازنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔
جب وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں کراچی پیکیج کا اعلان کیا‘ تو میئر کراچی وسیم اختر کی تعریف کرنا نہیں بھولے۔ میئر کراچی وسیم اختر صاحب کی تعریف تو بنتی بھی ہے ‘ دنیا کا کون سا ملک ہوگا ‘جس کا کوئی میئر تیس سے زائد مقدمات میں نامزد ہو اور جب اسے میئر بنایا جارہا تھا‘ تو وہ جیل میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں وزیر اعظم عمران خان کی ''جوہڑ‘‘ شناسی کا ہمیشہ سے معترف رہا ہوں۔ میئر کراچی وسیم اختر ہی نہیں ‘انہوں نے خیبرپختونخوا میں بھی ایسے ہی ''جوہڑ‘‘ نایاب دریافت کیے‘ جنہوں نے بی آر ٹی جیسے منصوبے کے ذریعے عالمی سطح کے انجینئرز کو حیران کردیا اور خان صاحب کے نام کی دنیا میں دھوم مچا دی ہے ۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد بی آرٹی منصوبہ ہی ہے‘ جس نے خان صاحب کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا ۔ اس لیے کراچی کے حوالے سے بھی ہمیں خان صاحب کے انتخاب کی داد دینی چاہئے اور امید رکھنی چاہئے کہ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی شہرت رکھنے والا کپتان ضرور کراچی پیکیج کو کامیاب کروانے میں کامیاب ہوجائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں