کراچی میں اپنی ماں کی آغوش میں آرام کرنے والا ایک اور ننھا فرشتہ پولیس گردی کی نظر ہوگیا۔ دو سالہ احسن یونیورسٹی روڈ پراپنے والدین کے ساتھ رکشے میں تھا‘ جب پولیس اہلکاروں نے مبینہ ڈاکوئوں پر اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ اس فائرنگ سے کسی ''ڈاکو‘‘ کا تو کچھ نہیں بگڑا؛ البتہ ننھا احسن اپنے سینے میں پیوست ہونے والے سیسے کا بوجھ برداشت نہ کرسکا اور شکایت لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا۔یہ کراچی میںپولیس گردی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جس میں پولیس کی ڈاکوئوں پر مبینہ فائرنگ سے کسی بے گناہ کی جان گئی ہے۔ اس واقعہ سے صرف ایک ہفتہ قبل لانڈھی میں پولیس کی مبینہ ڈاکوئوں پر فائرنگ سے دس سالہ سجاد جاں بحق ہوگیا تھا ؛اگر گزشتہ چند ماہ میں کا جائزہ لیا جائے‘ تو میڈیکل کی طالبہ نمرہ بیگ نارتھ کراچی میں‘ دس سالہ ایمل عمر ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی میں‘ نوجوان مقصود کو کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر اور انتظار احمد ڈی ایچ اے میں اس وقت گولیوں کا نشانہ بن گئے‘ جب پولیس مبینہ ''ڈاکوئوں‘‘ پر فائرنگ کررہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ '' ڈاکوئوں‘‘ کا کیا بنا؟ کچھ خبر نہیں؛ البتہ معصوم نوجوان اور بچے ضرور زندگی کی بازی ہار گئے۔
پولیس گردی کے یہ واقعات صرف کراچی میں نہیں‘ بلکہ پورے پاکستان میں تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ اسلام آباد میں ناکے پر موٹرسائیکل سوار طالبعلم کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا‘ فیصل آباد میں موٹرسائیکل سوار دو نوجوانوں کو ڈاکو قرار دیکر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا ۔ بعد ازاں پولیس حکام نے تسلیم کیا کہ دونوں نوجوان طالبعلم تھے اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا‘ پھر سانحہ ساہیوال نے تو ہر پاکستانی کو خون کے آنسو رلا دیا تھا۔ اس کے بعد بھی پہلے دعویٰ کیا گیا کہ مقتولین اغواء کار تھے‘ پھر کہا گیا کہ دہشت گرد تھے‘ اس سانحہ میں ایسی درندگی دکھائی گئی کہ درندے بھی شرماگئے۔پولیس گردی صرف ایسے واقعات تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ اہم شخصیات نے اپنے مخالفین کو نمٹانے کیلئے بھی پولیس افسران رکھتے ہیں ۔ نقیب اللہ محسود کی شہادت نے سابق ایس ایس پی رائوانوار کا بھانڈہ پھوڑا تو اس کے ساتھ جڑے کئی نام سامنے آئے‘ جو قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے۔ اسی طرح عابد باکسر کے ویڈیو پیغامات بھی پولیس نظام کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوئے‘ پولیس گردی کے واقعات میں کمی نہ ہونا ‘ رائو انواراور عابد باکسر جیسے پولیس والوں کو جنم دینے کا ذمہ دار انصاف کا بانجھ نظام بھی ہے‘ کیونکہ پولیس گردی کے واقعات میں اب تک جتنے بھی اہلکار گرفتار ہوئے ہیں‘ ان میں کس اہلکار کو سزا ہوئی اور نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے اور جب سزا کا خوف نہ رہے‘ تو محافظ بھی قاتل بن جاتے ہیں۔
پولیس گردی کے واقعات صرف جعلی مقابلوں تک محدود نہیں‘ بلکہ بے گناہ بچوں اور نوجوانوں کو گرفتارکرکے وحشیانہ تشدد کے ذریعے ناکردہ جرائم کا اعتراف بھی اس کی مثالیں ہیں۔ لاہور میں موبائل چوری کے غلط الزام میں آٹھ سالہ بچے کو جلتے ہیٹر پر بٹھانے کے واقعے نے تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا تھا‘ اسی طرح پولیس کی حراست میں گزشتہ ایک سال کے دوران وحشیانہ تشدد سے18افراد کی ہلاکت بھی پولیس کی تربیت اور اس کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔اس فرسودہ نظام کا ہی شاخسانہ ہے کہ پولیس میںاہلیت کی بنیاد پر بھرتیوں اور ترقیوں کا رجحان ختم ہوگیا ہے۔ پولیس میں سیاسی بھرتیاں‘ سیاسی اثررسوخ کی بنیاد پر ترقیاں و تبادلے اہمیت اختیار کرگئے ہیں‘ جس کی وجہ سے پولیس افسران و اہلکار بھی بطورِ کٹھ پتلی کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور سیاسی وابستگی اختیار کرنے میں ہی بقاء سمجھتے ہیں‘ پھربات یہاں تک محدود نہیں رہتی‘ میدان سیاست میں سیاسی جماعتوں کے اختلافات محکمہ پولیس میں بھی واضح طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اختلافات کی صورتحال یہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے آنے والے افسران اور شولڈر پرموشن حاصل کرنے کے بعد ذمہ داریاں سنبھالنے والے افسران کے درمیان بھی سخت رنجشیں پائی جاتی ہیں‘ جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پی ایس پی افسران کیلئے ''نوری‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور یہ تاثر قائم ہے کہ پی ایس پی افسران گرائونڈ میں کام کئے بغیر مراعات اور ترقیاں حاصل کرتے ہیں‘جبکہ دیگر افسران کے لیے ''خاکی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پولیس افسران میں یہ خلیج خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے‘ جس کی کئی مثالیں ماضی میں محکمہ پولیس میں لابنگ اور ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں جانے کے حوالے سے سامنے آچکی ہیں۔ اس بڑھتی خلیج کو وجہ بھی پولیس کا ناکارہ سسٹم ہی ہے۔ پولیس نظام کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک توسامنے نہیں آئی؛ البتہ ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی سانحہ کے بعد اچانک ہی حکومتی ایوانوں سے پولیس کے نظام میں اصلاحات کا شور اٹھنا شروع ہوجاتا ہے ‘ مگر جیسے ہی سانحات پر عوامی ردعمل میں کمی آتی ہے‘ تو اصلاحات کرنے کا حکومتی جذبہ بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
قیام پاکستان سے اب تک پولیس اصلاحات کیلئے 20کمیشنز بنائے گئے ‘جن کی تجاویز بس فائلوں کی حد تک ہی محدود رہیں ۔پاکستان کا پولیس نظام پولیس ایکٹ 1861ء اور پولیس رولز 1934ء پر مشتمل ہے۔1861ء کے پولیس ایکٹ کوپہلی بار قیام پاکستان کے پچپن سال بعد مشرف دور میں پولیس آڈر 2002ء سے تبدیل کیا گیاتھا۔اس پولیس آڈر میں بھی پولیس رولز 1934ء میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی‘ تاہم یہ نظام بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ پولیس آڈر 2002ء پر بھی صوبائی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آیا اور مشرف حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان نے اس آڈر کو ختم کرکے پولیس ایکٹ 1861ء کودوبارہ اپنالیا؛ البتہ پنجاب نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ پولیس آڈر 2002ء کو برقرار رکھا ‘جبکہ خیبرپختونخواہ نے 2017ء میں اپنا صوبائی پولیس آڈر متعارف کروایا۔ غرض یہ کہ صوبائی حکومتوں نے اپنے مفادات کے تحت فیصلے کیے۔ پولیس آڈر کا یہ حال ہوتا دیکھ کر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے مئی 2018ء میں پولیس نظام کو بچانے کیلئے پولیس ریفارمز کمیٹی قائم کردی تھی‘ مگر یہ کمیٹی بھی روایات کے عین مطابق ماضی کی بہت ساری کمیٹیوں طرح غائب ہوگئی اور اس کی تجاویز ''داخل دفتر‘‘ ہوگئیں۔
حکومت میں آنے سے قبل تحریک انصاف کی حکومت کا ایک نعرہ پولیس نظام میں اصلاحات کرنے کا بھی تھا‘مگر حکومت میں آنے کے بعد باقی شعبوں کی طرح پولیس نظام میں بہتری کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پولیس نظام کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے حکومتی پلاننگ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار آٹھ ماہ کے دوران چار آئی جیز تبدیل کئے جاچکے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افسران کو ہٹانے کا مقصدپولیس نظام میں بہتری لانا نہیں‘ بلکہ اعلیٰ شخصیات کی بات نہ ماننے کی سزا دینا تھا۔ تحریک انصاف پولیس نظام میں اصلاحات کرتی ہے یا نہیں‘ یہ تو وقت بتائے گا‘ مگر یہ بات واضح ہے موجودہ پولیس نظام کے زریعے ایک بہتر معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔ وقت کے ساتھ کسی بھی سوسائٹی میںہونے والے تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قوانین میں تبدیلیوں کے ذریعے ہی سماج میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
پولیس میں احتساب کے شفاف نظام‘ میرٹ پر تعیناتیاں‘ سیاسی اثر رسوخ کے خاتمہ کے ذریعے ہی پولیس کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔پولیس کی قابلیت کو بڑھانے کیلئے ذہنی ‘ جسمانی و اخلاقی تربیت بہت نا گزیر ہے۔