"FBC" (space) message & send to 7575

موت تقسیم کرتے مسیحا

اس کرب و اذیت کا تصور بھی محال ہے‘ جس سے ہمارے عوام گزرتے ہیں‘ جب وہ اپنے کسی پیارے کو معمولی تکلیف کے باعث ہسپتال لاتے ہیں اور پھرمسیحائوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث رشتہ داروں کواس کی میت واپس لے جانی پڑتی ہے۔ یہ واقعات ماضی میں بھی ہوتے تھے اور اب بھی اسی تسلسل سے ہورہے ہیں۔فرق ہے تو بس اتنا کہ آج میڈیا کی وجہ سے یہ واقعات منظر عام پر آجاتے ہیں‘ورنہ ماضی میں قدموں پر چل کر ہسپتال آنیوالے مریض کو کندھوں پر واپس لے جاتے ہوئے اس کے اہل خانہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموشی اختیار کرلیتے تھے۔
حال ہی میں یہ معاملات ایک بار پھر سامنے آئے جب کراچی کے ایک نجی ہسپتال دارالصحت میں علاج کی غرض سے ننھی نشوہ کو لایا گیا۔دوران علاج ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی غفلت کے باعث نشوہ کو غلط انجکشن لگا دیا گیا‘ جس کی وجہ سے اس کا دماغ مفلوج ہوگیا۔صحت مند بیٹی کی حالت بگڑتی دیکھی تو ماں باپ دہائیاں دینے لگے‘ مگر مسیحا نما جلاد نشوہ کو سفر آخرت پر روانہ کرچکے تھے۔ ننھی نشوہ کی خبریں ابھی جاری ہی تھیں کہ کورنگی کے سرکاری ہسپتال سے19 سالہ عصمت کی موت نے سرکاری ہسپتالوں میں بھی نام نہاد مسیحائی کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ دانت کے درد کے باعث ہسپتال آنے والی عصمت اپنی عصمت کے ساتھ زندگی بھی گنوا بیٹھی۔ وجہ ایک بار پھر غلط انجکشن ہی بتائی گئی کہ یہی وہ وجہ ہے‘ جس سے ''قتل خطاء‘‘ کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ دارالصحت کی ہسپتال انتظامیہ نے تو تمام حدیں پھلانگتے ہوئے معصوم بچی کی موت کا معاملہ دبانے کیلئے اس کے والد کو دھمکیاں دینی شروع کردیں اور جب دال نہ گلی تو کراچی پولیس کے ایس پی طاہر نورانی کے ذریعے دھمکیاں دلوائیں گئیں۔ اللہ بھلا کرے موبائل فون میں موجود کیمروں کا‘ جن کے ذریعے طاہر نورانی جیسے کئی کردار سامنے آئے اور آتے رہیں گے۔ نشوہ کے والد کو دھمکیاں دینے کی ایس پی طاہر نورانی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اسے معطل کردیا گیا۔ کراچی میں ہونے والے یہ دونوں واقعات جب ٹی وی سکرینوں کے ذریعے گھر گھر پہنچے تو عوام کو اپنے گھروں میں موجود'' نشوہ و عصمت ‘‘ دکھائی دینے لگی۔عوامی ردعمل بڑھنے لگا تو زرداری صاحب و محترمہ فریال کے بدعنوانیوں کے دفاع میں مصروف سندھ حکومت کو بھی اچانک ہوش آگیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی دونوں واقعات کا نوٹس لیا اور دارالصحت ہسپتال سیل کرنے کے ساتھ سرکاری ہسپتال میں نوجوان لڑکی کی عصمت دری اور اس کی موت کی تحقیقات کا حکم دے کراپنی دانست میںاپنے فرائض سے عہدہ برأ ہوگئے‘اسی طرح عوامی ردعمل کے باعث ہی تین سال سے مردہ پڑے سندھ ہیلتھ کئیرکمیشن کے بھی مردہ جسم میں ہلچل ہوئی ۔کمیشن کی جانب سے ''زائد المیعاد‘‘ ذمہ داران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ‘جس نے دارالصحت میں ننھی نشوہ کی موت کی تحقیقات کے نام پر اپنی ''آنیاں جانیاں ‘‘دکھانی شروع کیں۔ 
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے افسران کا تعارف میں نے ''زائد المیعاد ‘‘کہہ کر کیوں کرایا؟ اس کو سمجھنے کیلئے ماضی قریب میں جانا ہوگا۔ 2010ء کے بعد جب سندھ کے سرکاری و نجی ہسپتالوں سے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور عوام حکومتی سطح پر کسی طرح کی سنوائی نہ ہونے کے باعث عدالتوں سے رجوع کرنے لگے تو عدالتی حکم پرسندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے قیام پر کام شروع کیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے 2014ء میں کمیشن کے قیام کا بل منظور کیا‘ مگر عوام کے مسائل کے حل کیلئے ''فوری‘‘ قدم اٹھایا اور اس کمیشن کا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے میں دو سال لگادیئے۔اپریل 2016ء کو پروفیسر ٹیپوسلطان کی سربراہی میں 9رکنی کمیشن کا اعلان کردیا گیا۔اس کمیشن نے سرکاری و نجی ہسپتالوں ‘ کلینکس‘ میٹرنٹی ہومز‘ لیبارٹریز کو ضابطہ قانون میں لانے ‘ ان کی کارکردگی جانچنے اور مریضوں سے وصول کی جانے والی فیسوں کا تعین کرنے کی ذمہ داریاں ادا کرنی تھیں۔ کمیشن کے قیام کے بعد شاہانہ طرزِ عمل اختیار کیا گیا۔ کراچی کی معروف تجارتی بلڈنگ ایف ٹی سی میں 13لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر اڑھائی ہزارسکوائرفٹ کا دفتر توسرکاری خرچ پربنا لیا گیا‘ مگر عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ کمیشن کو سندھ حکومت کی جانب سے سالانہ ملنے والے 376ملین روپے کے بجٹ اور ابتدائی طور پر 100ملین روپے کی گرانٹ کہاں خرچ ہوئی یہ اپنی جگہ ایک الگ سوال ہے ۔ یہ کمیشن پابند تھا کہ تین ماہ میں ایک اجلاس کرے گا اس طرح تین سال میں 12اجلاس ہونے تھے ‘جس کا فی اجلاس بیس ہزار روپے فی رکن مشاہرہ ملنا تھا۔ بس یہ بیس ہزار مشاہرہ حاصل کرنے کیلئے اجلاس کی تعداد کہیں زیادہ بتائی گئی۔ کمیشن گزشتہ تین سال سے مردہ پڑا تھا‘ اب جب دارالصحت ہسپتال میں ایک بار پھر تنازع کھڑا ہوا تو اس کمیشن نے بھی انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کی۔ کمیشن کے وہ افسران ‘جن کی مدت 16اپریل کو پوری ہوچکی اور انہوں نے جاکر تحقیقات کیں اور دو سالہ نشوہ کی جان کی قیمت پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کی صورت میں سنانے کے بعد لوٹ آئے تھے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ زائد المیعاد افسران قانونی طور پر یہ کارروائی کرنے کے اہل ہی نہیں تھے۔ اسی موقع پر صوبائی وزیر صحت عذرا پیچو کو بھی اچانک یاد آیا کہ کمیشن کو فعال کرنا چاہئے تو انہوں نے اسے فعال کرنے کا بہترین طریقہ یہ نکالا کہ کمیشن کے چیئرمین اور کمشنرز کی تعیناتی کا طریقہ کار بدل کر اسے اپنے ماتحت کرلیا‘ یعنی اب کمیشن کے چیئرمین کا فیصلہ کمشنرز کی خفیہ رائے دہی کی بجائے صوبائی وزیر صحت کی مرضی پر ہوگا۔اس تبدیلی سے کمیشن میں سیاسی مداخلت کیا گل کھلائے گی ‘اسے سمجھنے کیلئے سندھ حکومت کے تحت چلنے والے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے؛اگر صوبہ سندھ کو دیکھا جائے‘ تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے والے کسی شعبے کو سیاسی مداخلت سے پاک نہیں چھوڑا ہے ۔ تمام بڑے ہسپتال بھی سیاسی شخصیات کے ہیں یا پھر ان کے رشتہ داروں کے۔ ان ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے عدالتوں کی جانب سے جیل بھیجے جانے والی اہم شخصیات کی طبی بنیادوں پر ان ہسپتالوں میں منتقلی اور انہیں وہاں ''خاص سہولیات‘‘ کی فراہمی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ایسے ہی ایک ہسپتال سے سابق چیف جسٹس نے ''شہد کی بوتلیں‘‘ برآمد کی تھیں ‘جو پیپلز پارٹی کے اہم رہنما شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد ہوئی تھیں۔شرجیل میمن جیل سے ''طبی سہولیات ‘‘ کیلئے زرداری صاحب کے دست راست ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال منتقل کیے گئے تھے ‘جو پی پی پی کے سیاسی رہنمائوں کی دوران قید ''طبی بنیادوں پر خصوصی دیکھ بھال ‘‘ کا فریضہ ایک عرصہ سے احسن طریقے سے نبھا رہا ہے‘ پھرایسے نجی ہسپتالوں میں اہم شخصیات کی ''عیادت‘‘ کیلئے معروف ماڈلز کا آنا جانا اور ہسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے خصوصی طور پر ماڈلز کو عیادت کیلئے بلوانا بھی اب تو معمول کی بات ہے۔
بات یہیں تک نہیں‘ ایسے ہسپتال بھی سندھ اور خصوصی طور پر کراچی میں موجود ہیں‘ جو ٹرسٹ کے نام پر بنائے گئے تھے اور اعلان کیا گیا تھا کہ عوام کو صحت کی سستی سہولیات فراہم کی جائیں گی‘ اسی اعلان کی بنیاد پر حکومت سے سرکاری زمین کوڑیوں کے مول حاصل کرلی گئی‘ مگر جب ہسپتال بن گئے تو اب ان ہسپتالوں میں علاج بیرون ملک علاج کرانے سے بھی مہنگا ہے۔ان مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ عوام میں شعور بیدار ہو اور وہ زیادتی کے خلاف ایسے ہی کھڑی ہو‘ جیسے نشوہ کے والد کسی دھونس دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر ڈٹ گئے‘ کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہو گا‘ تب تک مسیحا جلاد بن کر موت تقسیم کرتے رہیں گے اور عوام اسے تقدیر کا لکھا مان کر آنسو بہاتے رہیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں