کراچی میں نجی ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے نوجوان اینکر مرید عباس کا قتل پوری صحافی برادری کو سوگوار کرگیا۔انتہائی کٹھن اور سخت جدوجہد کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرکے شعبۂ صحافت میںجگہ بنانے والا مرید عباس اپنے ہی قریبی دوست کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس قتل کے حوالے سے پولیس جو تحقیقات کررہی ہے اس میں ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے صحافی برادری کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے تاکہ جعلسازوں سے ہوشیار رہا جاسکے۔
نوجوان اینکر مرید عباس کا قاتل عاطف زمان کراچی کے ایک پسماندہ علاقے میں رہائش پذیر تھا اورگاڑیوں کے ٹائر فروخت کرنے والی نجی کمپنی میں بطور سیلز مین کام کرتا تھا ۔اس کمپنی سے اسے ناقص کارکردگی اور اور لاپرواہی کی وجہ سے فارغ کردیا گیاتھا۔ عاطف زمان کو اگرچہ ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا تاہم وہ دورانِ ملازمت معروف ٹائرساز کمپنیوں کے ڈیلروں سے مضبوط روابط قائم کرچکا تھا‘ جس میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ٹائر ساز کمپنی بھی شامل ہے ۔ عاطف زمان نے ابتدائی طور پر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع ایک کمپنی کے شوروم کے ذمہ دار سے مل کر صحافتی برادری اور شوبز سے تعلق رکھنے والے درجنوں معروف افراد سے روابط قائم کیے۔ ان روابط کے بعد ایسے کاروبار کا آغاز کیا گیا کہ جس کا انجام ایک صحافی کے قتل پر ہوا۔عاطف زمان نے صحافتی برادری کے افراد اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو اپنے دام میں پھنسانے کے لیے ڈیفنس میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ٹائر ساز کمپنی کے مقامی دفتر کو استعمال کیا۔ صحافیوں اور شوبز کے افراد کو پیش کش کی گئی کہ گاڑیوں کے ٹائر کی امپورٹ ایکسپورٹ میں 10لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر 50ہزار روپے منافع ملے گا اوراس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے سرمایہ کار کو لانے والے شخص کو کمیشن کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ سرمایہ کار لانے پر اس سرمایہ کار کے منافع سے بھی باقاعدگی سے حصہ دیا جائے گا۔ اس ''سنہری پیشکش‘‘ سے متاثر ہونے والوں نے نہ صرف اپنی جیب سے سرمایہ کاری کی بلکہ اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب سے سرمایہ کاری بھی کرائی تاکہ کمیشن کے ساتھ ساتھ کرائی جانے والی سرمایہ کاری پر منافع میں سے بھی ماہانہ حصہ وصول کیا جاسکے۔ قتل کے اس کیس کی تحقیقات کرنے والے کاروبار کی مالیت کی مستند معلومات دینے سے قاصر ہیں البتہ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ معاملہ اربوں روپے کا ہے اور اس میں شوبز کی معروف شخصیات اور معروف صحافیوں سمیت درجنوں افراد شامل ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہیں ‘ عاطف زمان کے پاس پیسے جمع ہوئے تو اس نے کاروبار کے نام پر بیرونی دورے شروع کردیئے اور اکانومی کلاس میں سفر کرنے کے بعد صرف ایک سال میں بزنس کلاس تک کاسفر بہت تیزی سے طے کیا۔ اس کے طرزِ زندگی میں یہ تبدیلی صرف ہوائی سفر تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ کراچی کی پسماندہ آبادی کشمیر کالونی سے پوش علاقے ڈیفنس میں اعلیٰ رہائش گاہ تک کا سفر بھی اسی سال کے دوران طے کیا ۔لوگوں سے اربوں روپے جمع کرنے کے بعد انفینٹی کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دی گئی ‘اس کمپنی کے قیام میں ایک بینکر جوڑے نے اہم کردار ادا کیا‘ یہ جوڑا مرید عباس کے قتل کے بعد سے منظر عام سے غائب ہے۔ جن لوگوں سے پیسے جمع کیے گئے تھے انہیں بتایا گیا کہ ان کا سرمایہ اس کمپنی میں لگایا گیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنی کا کروڑوں روپے کا لین دین نقد کی صورت میں ہوتا تھاجس کی کوئی ٹرانزیکشن موجود نہیں ہے۔ کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کیش کی صورت میں کی جاتی تھیں۔ اس حوالے سے تحقیقاتی ادارے منی لانڈرنگ کے پہلو پر بھی تفتیش کررہے ہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی ‘حال ہی میں حکومت کی جانب سے بے نامی جائیداد کے حوالے سے سخت پالیسی سامنے آنے کے بعد ایف بی آر کو بھی اس کمپنی کی بھنک پڑگئی اور اس کے حوالے سے تحقیقات شروع کردی گئیں تھیں۔ عاطف زمان کی ایک اور ''خصوصیت‘‘ یہ تھی کہ وہ سوشل میڈیا پر خاصا سرگرم تھا اور اس پلیٹ فارم کو بھی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا ۔ اپنی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو متاثر کرنے کے لیے ملک کی اہم شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا رہتا تھا۔ مختلف صوبوں کے گورنرز‘ خیبرپختونخوا اور سندھ پولیس کے ذمہ داران کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب بے نامی جائیداد کے خلاف حکومتی اقدام شروع ہوئے تو عاطف زمان کی جانب سے ایف بی آر کے اہم ذمہ داران کے ساتھ بے تکلفانہ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کردی گئیں۔اس سارے ''کاروباری جال‘‘ میں اہم موڑ اس وقت آیاجب چند ماہ قبل عاطف زمان غائب ہوگیا اور پھر کچھ وقفے بعد اچانک منظر عام پر آیا۔ اس ''لک چھپ ‘‘ کاجوازاس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اسے اغوا کرلیا گیا تھا اور کروڑوں روپے کی نقد رقم جو کسی ڈیل کی ادائیگی کے لیے وہ ساتھ لے کر جارہا تھا اس سے چھین لی گئی ہے۔ عاطف زمان کے اس عمل کے بعد سرمایہ کار وں کا اس پر سے اعتماد اٹھ گیا اور انہوں نے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا شروع کردیا۔ یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جارہا تھا جس پر عاطف زمان نے اینکر مرید عباس اور ایک خاتون اینکر سمیت پانچ صحافیوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایامگر مرید عباس اور اس کے ساتھی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنے منصوبے پر عمل نہ کرسکا۔ اس سارے معاملے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ صحافتی حلقہ جس کے حوالے سے انتہائی باخبر اور زیرک ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے ‘ کتنی آسانی سے ایک جعلساز کے جال میں پھنس گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک صحافی جان سے گیا جبکہ دیگر بال بال بچ گئے۔
عاطف زمان کے ایک متوسط شہری سے ''ارب پتی‘‘ بننے تک کا سفر چند سال کا ہے ۔ اس ساری روداد سے مجھے حال ہی میں سامنے آنے والا ایک اور معاملہ بھی یاد آیا ''پاکستان میڈیا کلب‘‘ نامی ایک ادارہ چند سال پہلے اچانک سامنے آیا ہے جس کا بانی ضیااللہ نامی شخص ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شخص کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔یہ شخص جماعت اسلامی کراچی کے شعبہ اطلاعات میں ذمہ داری ادا کررہا تھا جہاں اس کے صحافیوں سے روابط قائم ہوئے اورپھر اچانک اس نے پی ایم سی نامی ادارہ بنانے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد جماعت اسلامی کراچی کی ذمہ داری سے اسے ہٹا دیا گیا ۔ پی ایم سی کی جانب سے بھی جامعات کے اساتذہ‘ تاجربرادری‘ اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور صحافیوں سے بھاری رقوم ترکی اور برطانیہ کے دورے کرانے کے نام پر اکٹھی کی گئیں۔مالدار افراد کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے فائیو سٹار ہوٹلوں میں پروگرام منعقد کرکے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ یہ سلسلہ بھی محض چند سال جاری رہا اورپھر اس ادارے کے خلاف بھی پیسے ہتھیانے کی شکایات سامنے آنی شروع ہوگئیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میڈیا کلب اور ضیا اللہ خان کے خلاف رقم کی خرد برد کے دو مقدمات درج ہو چکے ہیں‘ 23مئی 2019ء کو تھانہ درخشاں کراچی میں مقدمہ درج کیا گیا اور پیش نہ ہونے پر کراچی پولیس کی جانب سے مفرور قرار دے دیا گیا‘ جبکہ لاہور غالب مارکیٹ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔اس ادارے کے رجسٹریشن اور آڈٹ کے معاملات بھی واضح نہیں ہیں۔
یہ صحافتی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے‘ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جعلسازوں کا دھندہ صرف اس بنیاد پر چلتا ہے کہ وہ ہماری شخصیت کے کمزور پہلو کو ہدف بناتے ہیں۔دولت و شہرت اور بیرونی دورے‘ شعبہ صحافت کا اہم جزو سمجھ لیے گئے ہیں اور یہ تاثر قائم کرلیا گیا ہے کہ ان کے بغیر شعبے میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عناصرہماری شخصیت کا کمزور پہلو بننے کے ساتھ ساتھ جعلسازوں کا آسان ہدف بھی بن چکے ہیں۔