"FBC" (space) message & send to 7575

خوب اندازِ پذیرائی ہے

''میں اپنی فتح کشمیر کے نام کرتا ہوں‘‘،دبئی میں سبزہلالی پرچم سینے پر لپیٹے وہ فاتحانہ انداز میں دونوں ہاتھ بلند کیے شائقین کے سامنے کھڑا یہ اعلان کررہا تھا۔ چند لمحے پہلے ہی باکسنگ کا وہ میچ شروع ہوا تھا جس کے لیے کئی روز تک بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی گئی تھی ۔ مقابلے میں پاکستانی اور فلپائنی باکسرز مدمقابل تھے ۔تشہیری مہم کی وجہ سے شائقینِ باکسنگ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ چونکہ دونوں باکسرز ماہر تھے اس لیے مقابلہ درجنوں رائونڈز پر مشتمل ہونے اور فیصلہ پوائنٹس پر ہونے کی توقع تھی۔ مگر پھر شائقین اس وقت حیران رہ گئے جب مقابلہ شروع ہوتے ہی پہلے رائونڈ کے 62ویں سیکنڈ میں فلپائنی باکسر کونریڈو رنگ میں چت پڑا اپنی شکست کا اعتراف کررہا تھا۔ ریفری کی جانب سے پاکستانی باکسر کی فتح کا اعلان کیا گیا اور شائقین کو پاکستانی نوجوان باکسر کے یہ الفاظ حیران کرگئے‘ ''میں اپنی فتح کشمیر کے نام کرتا ہوں‘‘۔
صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا نوجوان باکسر محمد وسیم کشمیریوں کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کررہا تھا تو شائقین حیران تھے کہ باکسنگ مقابلے کی فتح کشمیر کے نام کرنے کی کیا وجہ ہے؟ محمد وسیم نے یہ اعلان کرکے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کا ہر فرد‘ چاہے وہ پنجاب سے ہو یا خیبرپختونخوا سے ‘ سندھ سے ہو یا بلوچستان سے تعلق رکھتا ہو‘ اس کا دل اپنے کشمیریوں بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ یہ تو اس نوجوان کے جذبات تھے‘ جن کا اظہار اس نے بر سر عام کیا ‘ مگر حکومت پاکستان نے اس کے ساتھ کیا کیا؟باکسنگ رنگ کافاتح یہ بلوچی نوجوان جب واپس اپنے وطن پہنچا تو ائیرپورٹ پر اس کے استقبال کے لیے کوئی سرکاری اہلکار موجود نہیں تھا۔ محمد وسیم ایئرپورٹ سے باہر نکلا‘ خاموشی سے اپنی گاڑی کے قریب پہنچا اور اپنے ڈرائیور کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔یہ منظر ایئرپورٹ پر کھڑے ایک نوجوان نے اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کرلیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ منظر ان شائقینِ باکسنگ نے نہیں دیکھا جن کے سامنے وہ جذباتی انداز میں اپنے کشمیری بھائیوں کا ذکر کررہا تھا ۔باکسنگ رنگ میں ہونے والے 10بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے 7مخالفین کو ناک آئوٹ اور 2غیرملکی مکابازوں کو پوائنٹس کی بنیاد پرشکست دینے والے محمد وسیم کو بین الاقوامی سطح پرتو پذیرائی مل رہی تھی‘ مگراس کی اپنی حکومت اس حوالے سے یکسربے خبر تھی ‘جس پر یہ بلوچی نوجوان شکوہ کناں تھا کہ ''خوب اندازِ پذیرائی ہے‘‘۔
راقم نے محمد وسیم کو مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تو تفصیلی بات چیت کے دوران کہنے لگا ''طارق بھائی ‘مجھے حکومت سے کوئی شکوہ ہے اور نہ ہی باکسنگ فیڈریشن کے ذمہ داران سے ‘ میں نے بین الاقوامی مقابلے اپنا استقبال کروانے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے لڑے ہیں اور انشا اللہ لڑتا رہوں گا۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ میرے ہیروز وسیم اکرم‘ شاہد آفریدی اور شعیب ملک نے مجھے یاد رکھا اور میری کامیابی پر مجھے مبارک باد دی‘ اس کے علاوہ اپنے ہم وطنوں کی جانب سے ملنے والے پیغامات میری ہمت بڑھانے کیلئے کافی ہیں‘‘۔
یہ نوجوان محمد وسیم کوئٹہ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہے ‘ زمانہ طالبعلمی سے ہی مکابازی کے مقابلوںمیں شرکت شروع کردی اور پھر کیڈٹ‘ جونیئر کے مراحل طے کرنے کے بعد نیشنل لیول کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ سخت محنت و جدوجہد سے اس بلوچ نوجوان نے بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی جگہ بنائی اور پھرتھائی لینڈ میں 2009ئمیں ہونے والے کنگز کپ میں سنگاپور کے باکسرکو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ 2010ء میں اس نوجوان باکسر نے مزید کامیابیاں سمیٹیں اور ایشین گیمز میں ایرانی باکسر مسعود ریگی ‘ چین میں ہونے والے ورلڈ کیمبٹ گیمز میں چینی باکسر اورترکی میں ہونے والے بین الاقوامی مقابلوں میں ترکی کے باکسر کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیے۔ اسی سال بنگلہ دیش میں ہونے والے مقابلوں میں محمد وسیم فائنل میں اپنے مخالف باکسر سے صرف ایک پوائنٹ سے ہارا اور پاکستان کے لیے چاندی کا تمغہ جیتا ۔یہ شکست محمد وسیم کے کیریئر کی واحد شکست ہے۔ 2014ئمیں سکاٹ لینڈ میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز میں اس بلوچ نوجوان نے پاکستان کے لیے سونے کے تمغے حاصل کیے۔ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں پاکستان کے لیے فتوحات سمیٹنے والے اس نوجوان نے بتایا کہ پاکستان میں باکسنگ کی تربیت کے لیے بین الاقوامی معیار کے باکسنگ کلبز ہونا تو دور کی بات ہے عام باکسنگ رنگز بھی نہیں ہیں‘ جبکہ حکومت بھی اس حوالے سے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کررہی ۔ 
پاکستان میں کھیلوں کے ساتھ یہ حکومتی رویہ صرف باکسنگ تک محدود نہیں ‘ بلکہ تمام کھیلوں کا یہی حال ہے ۔ اپنے کرکٹ کیریئر میں کامیاب کپتان رہنے والے عمران خان‘ وزیر اعظم بنے تو عمومی رائے یہ تھی کہ کم از کم کھیلوں کو پاکستان میں ضرور فروغ ملے گا اور ہم کھیلوں کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیں گے‘ مگر تحریک انصاف سے وابستہ دیگر بہت سی امیدوں کی طرح یہ امید بھی دم توڑتی جارہی ہے۔ اس حکومت کو ایک سال سے زائد وقت گزرچکا ‘ نہ تو ملکی حالات و معیشت میں کوئی بہتری آئی اور نہ کھیلوں کے فروغ کے لیے کوئی جامعہ حکمت عملی اپنائی جاسکی۔ کرکٹ کے حوالے سے توقع تھی کہ چونکہ وزیر اعظم خود کرکٹر رہے ہیں اور ان کا کوئی خطاب کرکٹ کے حوالے سے مثال دیے بغیر مکمل نہیں ہوتا ‘ مگرکرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا اندازہ حالیہ ورلڈ کپ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح ہاکی کے کھیل کو دیکھا جائے تو بھارت میںکھیلے جانے والے عالمی کپ میں پاکستان نے 14ٹیموں میں 12ویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ چار مرتبہ کی عالمی چیمپئن پاکستان کو عالمی کپ کے مقابلوں کا حصہ بننے کے لیے کوالیفائنگ رائونڈز کھیلنے پڑتے ہیں۔ ہاکی کے زوال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالی مسائل کی وجہ سے بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن کے تحت ہونے والی'' لیگ پرو ‘‘سے قومی ہاکی ٹیم دستبردار ہوگئی تھی جس کا انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا تھا اور ایک موقع پر یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں قومی ہاکی ٹیم کو دو سال کی پابندی نہ بھگتنی پڑجائے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سکوائش کے ساتھ ہے۔ اس کھیل پاکستان کا نام دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔اب یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ نچلی سطح سے سکوائش کے کھلاڑیوں کی قومی اور بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ٹینس کی بات کریں تو باکسنگ میں محمد وسیم کی طرح ٹینس میں اعصام الحق بھی انفرادی کوششوں سے بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کھیل میں بھی حکومت نے کبھی کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ایسا ہی حال سنوکر کا ہے۔حال ہی میں جب عوام کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناقص کاکردگی پر نوحہ کناں تھے‘ عین انہی دنوں قومی سنوکر کھلاڑیوں نے دوحہ میں یکے بعد دیگرے 4 سنوکر مقابلوں میں حصہ لے کر 16 میں سے نصف درجن تمغے جیت کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔
المیہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو گمنام بنا دیتے ہیں اور پھر نئی نسل کو بتانے کے لیے ہمیں ہیروز بھی مستعار لینے پڑتے ہیں۔ محمد وسیم ہو‘ اعصام الحق یا پھر سنوکر کے مقابلوں میں فتح سمیٹنے والے کھلاڑی‘ ہمیشہ حکومت کی نااہلی کا شکار ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں کھیلوں کے حوالے سے بے پناہ ٹیلنٹ پایا جاتا ہے بس ایسے ٹیلنٹ کو مواقع فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر محمد وسیم‘ اعصام الحق جیسے نوجوان انفرادی کوششوں اور محنت سے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں تو حکومتی پذیرائی اور باقاعدہ مواقع ملنے کے بعد ان نوجوانوں کی فتوحات کا سلسلہ یقینی طور پر طویل ہوجائے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں