"FBC" (space) message & send to 7575

پامال لاشے اور حکومتی ’’ٹیسٹ کیس‘‘

سانحہ چونیاں نے ایک بار پھر سوائے حکومت کے سب کو دہلا کر رکھ دیا۔تین معصوم بچوں کے زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل نے ملک بھر میں سوگ کی فضا پیدا کردی۔ چونیاں کے کھیتوں میں بین کرتے ہوئے اپنے لخت ِجگر کے اعضاء جمع کرتی ماں نے ہر صاحب اولاد کو رلا دیا‘ مگر ''قابل تعریف ‘‘ ہے یہ حکومت‘ جو اتنے مضبوط اعصاب کی مالک ہے کہ اس سانحہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لینے کا اعلان کیا ہے۔ 
سانحہ کے دو روز بعدجب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب نے اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکالا اور چونیاں کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں کو بھی ملاقات کی سعادت بخشی اور کہا کہ سانحہ چونیاں ہماری حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ‘ اس بیان پر جب ایک خاتون صحافی نے وزیر اعلیٰ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے سانحہ ساہیوال کو بھی ٹیسٹ کیس ہی کہا تھا تو اس سوال پر وزیر اعلیٰ صاحب ناراض ہوگئے۔ راقم کو ذاتی طور پر وزیر اعلیٰ صاحب پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ان کے بیان پر۔ بس اتنی گزارش ہے کہ اپنے بیان میں اگر وہ لفظ '' بھی‘‘ کا اضافہ کرلیتے تو شاید زیادہ مناسب ہوجاتا ‘پھر بیان کچھ اس طرح ہوجاتا کہ ''سانحہ چونیاں ( بھی ) تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے‘‘ جو زیادہ موزوں لگتا ۔ اس لیے کہ شاید تحریک انصاف کی حکومت دنیا کی واحد حکومت ہے ‘جو ہر سانحے کو بطور ٹیسٹ کیس لیتی ہے اور پھر ٹیسٹ میں فیل ہوجاتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ موجودہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے مزید کتنے معصوموں کے پامال لاشے درکار ہیں؟ ورنہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے اعدادوشمار تو بتاتے ہیں کہ جنوری سے جون تک 1304بچے زیادتی کا نشانہ بن چکے اور ان میں سے 652کیسز صرف پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ جی ہاں‘ اسی پنجاب میں جس کے وزیر اعلیٰ محترم عثمان بزدار صاحب ''ٹیسٹ کیس‘‘ والے ہیں۔اگر تحریک انصاف کے فیس بکیوں سے جان کی امان پائوں تو کیا بطور صحافی میں یہ سوال کرسکتا ہوں کہ ملک بھر میں ہونے والے ایک ہزار سے زائد اور صرف پنجاب میں ہونے والے 652 ''ٹیسٹ کیسز‘‘ تحریک انصاف کی وفاقی اور بزدار صاحب کی پنجاب حکومت کے لیے کافی نہیں ؟ جبکہ ان کیسز میں گرفتار ہونے والے ملزمان میں سے صرف 9فیصد جیل میں ہیں‘ جبکہ باقی ملزمان کا ضمانت پر رہا ہونا ثابت کرتا ہے کہ بزدار حکومت نے اس ٹیسٹ میں کتنی ''کامیابی ‘‘ حاصل کی ہے۔بزدار صاحب کچھ وقت بغیر پروٹوکول کے متاثرین کے ساتھ گزار لیتے تو انہین اندازہ ہوجاتا کہ متاثرین اپنے بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ کروانے جب پولیس کے پاس جاتے ہیں تو '' اپنے بچوں کو مزار پر ڈھونڈو ‘ خود ڈھونڈو جب مل جائے تو ہمیں بھی بتا دینا‘ تم لوگ صرف حکومت سے پیسے لینے کے لیے بچوں کی گمشدگی کا ڈرامہ کرتے ہو...‘‘جیسے جوابات سننے کو ملتے ہیں۔
اسلام آباد میں 9سالہ فرشتہ کے والد کو تو یہ جواب دیا گیا تھا کہ تمہاری بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ حاصل کرنے والے ان بدزبان و بدلحاظ اہلکاروں کی زبانی توہین و تذلیل برداشت کرکے جب متاثرین خود اپنے پھولوں کی تلاش میں نکلتے ہیں ‘تو پھر انہیں اپنے بچوں کے بکھرے اعضاء ملتے ہیں۔ یہاں بھی بات ختم نہیں ہوتی ‘متاثرین کہتے ہیں کہ فرعون بنے پولیس اہلکاروں کا اس کے بعد نیا دھندہ شروع ہوتا ہے ۔ جب والدین اپنے مقتول کی ایف آئی آر کٹواتے ہیں تو علاقے میں کام کرنے والے دہاڑی دار مزدور‘ سبزی فروش‘ رکشہ ڈرائیور‘ وغیرہ کی شامت آجاتی ہے ‘کیونکہ شک کی بنیاد پر انہین گرفتار کیا جاتا ہے اور پھرمبینہ طور پر رقم کے عوض چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کمائی بھی چلتی رہتی ہے اور حکام کو پھرتیاں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ ننھی فریال کے اغواء زیادتی و قتل کے بعد 513 ملزمان کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اور پھر مبینہ طور پر کچھ نہ کچھ لے دے کے چھوڑ دیا گیا۔ کچھ ایسا ہی احوال ضلع خانیوال کے علاقے کبیر والا کے 9سالہ فیضان کے باپ سے بھی سننے کو ملا کہ پولیس نے درجنوں گرفتاریاں کیں‘ مگر پیسے لے کر سب کو چھوڑ دیا اور اصل ملزمان کا کوئی سراغ نہ لگایا جاسکاتھا۔ بوڑھے باپ نے اپنے بیٹے فیضان کی ٹانگیں اور پیٹ تو ڈھونڈ لیا تھا ‘مگر سر اور چہرہ وہ آج تک ڈھونڈ رہا ہے اوراب انصاف سے مایوس ہو کر حصول انصاف کے لیے کوششیں ترک کرچکا ۔ حکومت ِوقت کو نوید ہو کہ مقتول فیضان کے ''ٹیسٹ کیس‘‘ سے وہ مطمئن ہوجائے کہ اس کے والد اب انصاف کی دہائی نہیں دیتے۔
محترم بزدار صاحب ضلع قصور اگر آہی گئے تھے تو اس علاقے میں بس کچھ وقت گزار لیتے۔ بس تھوڑا سا وقت ان کے لیے نکال لیتے‘ جن کے ہونے سے وہ وزیراعلیٰ ہیں‘ اگر وہ کچھ ٹھہر جاتے تو جیسے راقم کو متاثرین نے بتایا‘ اسی طرح وزیر اعلیٰ صاحب کو بھی متاثرین قصور سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا کہ جن ملزمان نے قصور میں بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز بنائیں تھیں ‘ان میں سے 20ملزمان کیخلاف 31مقدمات درج کیے گئے تھے‘ جن میں سے 25انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت قائم کیے گئے تھے ‘ وہی انسداد دہشت گردی ایکٹ ‘جس کی وزیر اعلیٰ صاحب اب دہائی دے رہے ہیں کہ سانحہ چونیاں کے مقدمات بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج ہوں گے۔سانحہ قصور کے ذمہ داران کے خلاف بھی اسی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہونے کے باوجود اب وہ تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہیں اور متاثرین کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کیسز کی پیروی کرنے کی کوشش کی تو دیگر بچوں کو بھی نہیں بچا پائو گے۔ایسی دھمکیاں اور حربے کہ تفصیلات سن کرانسان دہل جائے ‘مگرقارئین پریشان نہ ہوں‘ آپ یقین رکھیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ڈرنے والی نہیں ہے ۔
بزدار صاحب نے چونیاں میں سوال کرنے والی خاتون کو سخت ردعمل دیا‘ اگران کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو یاددہانی کرانی تھی کہ ان کے سانحہ ساہیوال والے ''ٹیسٹ کیس‘‘ کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور متاثرہ بچے آج بھی انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کا تعین ہی نہیں ہوسکا۔ جن چند سی ٹی ڈی اہلکاروں کو قربانی کے بکرے بنایا گیا‘ ان کی کوئی تفصیل میڈیا پر جاری کی گئی اور نہ ہی کوئی تصویر۔ سب نادیدہ ہی رہا‘ ذمہ داران بھی‘ ملزمان بھی اور انصاف بھی۔بزدار صاحب ناراض نہ ہوں تو انہیں یاد دلانا تھا کہ ان کی حکومت کے پہلے سال میں پنجاب بھر میں مبینہ طور پر 33مشکوک مقابلے ہوچکے‘ جن میں پولیس نے ''خطرناک ملزمان‘‘ کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ جب میڈیا پولیس کی اس ''اعلیٰ کارکردگی‘‘ کی جانچ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آئی جی پنجاب کی جانب سے تھانوں میں صحافیوں کے کیمرے وموبائل کے ساتھ داخلے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے‘ جبکہ تھانوں میں اس حکم کی بنیاد پر صحافیوں پر داخلے پہ ہی غیر اعلانیہ پابندی لگادی جاتی ہے۔ پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ آئی جی صاحب کو یہ حکم نامہ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ مگر جب ایک ذہنی مریض اور معمولی چور صلاح الدین کی لاش پر استری سے جلائے جانے‘کھال ادھیڑنے اور تشدد کے نشانات بھی پوسٹ کرنے والے ڈاکٹر کو نظر نہ آئے تو آئی جی صاحب کی جانب سے تھانوں میں صحافیوں کے کیمروں اور موبائل سمیت داخلے پر پابندی کے حکم نامے کی کرامات سمجھ آگئیں۔ اب تھانے میں جو ہوگا‘ وہ سب قانونی و ''وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں ہوگا۔خیر اب صورتحال یہ ہے کہ نیا پاکستان بنے ایک سال سے زائد ہوچکا ‘مگر حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نئے پاکستان کے سپنے دیکھنے والے بھی پرانے پاکستان کو یاد کرکے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کپتان اور ان کی ٹیم نے اس ملک کے عوام کو بھی '' ٹیسٹ کیس ‘‘ہی سمجھ رکھا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں