کیا آپ نے ترکی کی ڈراما سیریز ''ارتغل‘‘ دیکھی ہے؟مجھے ان صاحب سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔ سو‘ میری خاموشی پر انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہ کہ ہمارے کپتان صاحب آج کل ''ارتغل‘‘ دیکھ رہے ہیں اور مختلف محفلوں میں اس ڈراما سیریز کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم سے بھی کہتے ہیں کہ امور ِریاست کو سمجھنا ہے تو یہ ڈراما دیکھو‘ پھر انہوں نے جو ترکی اور ملائیشیاکے ساتھ مل کر اسلامی ڈرامے اور فلمیں بنانے کا اعلان کیا ہے‘ اس کے پس پردہ بھی ''ارتغل‘‘ کا ہی جادو ہے‘ جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وہ صاحب بات کیے جارہے تھے اور میں پی ٹی آئی کے ''نازک اندام‘‘ رہنما کے منہ سے '' ارتغل‘‘ کا تذکرہ سن کر حیران تھا۔ یہ حکومتی پارٹی کی کوئی پہلی شخصیت نہیں تھی‘ جس سے ''ارتغل‘‘ سیریز کا ذکر سنا ۔ اس سے قبل بھی متعدد شخصیات ‘بشمول ایک خاتون رہنما اس تاریخی ڈراما سیریز کے سحر میں گرفتار نظر آئیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ڈراما سیریز سب نے اس لیے دیکھا کہ خان صاحب اس ڈرامے کو اکثر بطور حوالہ استعمال کرنے لگے تھے۔ سو‘ کپتان کی ٹیم نے بھی اسے دیکھنا فرض عین جان لیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد میں اعلیٰ و ادنیٰ‘ سرکاری و غیر سرکاری ہلکار اور معتبر صحافی خواتین و حضرات‘ سب ہی اس ڈرامے کی بابت بات کرتے نظر آرہے ہیں ۔
مجھے '' ارتغل‘‘ سیریز کا تذکرہ ہونے پر تو حیرت تھی ہی‘ مگر جس جگہ پر یہ تذکرہ ہوا ‘وہ مقام زیادہ اہم تھا۔ ہم دو صحافی دوست اس حکومتی شخصیت کے مہمان تھے اور اسلام آباد کے معروف بازار ''کوہسار‘‘کی ایک میز پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔یہ بازار اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ ''وسیع تر قومی و عوامی مفاد‘‘ کے بیشتر فیصلے یہیں ہوتے ہیں ۔یہاں آنے والوں کے مزاج پر چونکہ روشنی گراں گزرتی ہے۔ سو‘ وہ غروب آفتاب کے بعد ہی ادھر کا رخ کرتے ہیں‘بلکہ اس بازار کا کاروبار ہی اندھیرے میں چمکتا ہے۔ یہاں ناصر ف گاہکوں کے مزاج کے مطابق ہر چیز میسر ہوتی ہے‘ بلکہ مصنوعی چکاچوند اور طبیعت کو بہلاتی ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ طلب و رسد کا کھیل جاری رہتا ہے۔ ویسے تو اس بازار میں طعام کے لیے سجی میزوں پر ٹولیاں بدلتی رہتی ہیں‘ مگر چند میزیں ایسی ہیں کہ جو ''مخصوص‘‘ کہلاتی ہیں۔خالی بھی ہوں تو ان پر ریزرو کو بورڈ لگا رہتا ہے ۔ ان میزوں کا استعمال ملک کے ''فیصلہ ساز‘‘ کرتے ہیں ۔ ایوان اقتدار کی اہم شخصیات یہاں''فکرعوام ‘‘میں غلطاں ملتے ہیں تو اپوزیشن رہنما بھی نمائشی تخت پر آسن مارے ''عوام کی بھلائی‘‘ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ۔ میں کسی بھی طرح اس کوہسار مارکیٹ کے ماحول کوہی '' ارتغل‘‘ کے ساتھ جوڑنے سے قاصر تھا‘ پھر کپتان و ارتغل کا موازنہ تو دور کی بات تھی‘ اگر اس ڈراما سیریز کی بات کریں تو ''ارتغل‘‘ترکی کے خانہ بدوش چرواہوں کے قائی قبیلے کی کہانی ہے‘ جو سخت موسموں اور ہجرتوںکے ساتھ ساتھ منگولوں ‘ صلیبیوں اور اندرونی غداروں سے بھی برسرپیکار رہا۔ حلب کے امیر سے‘ بس ایک چراگاہ مانگنے والے چرواہوں کے اس قبیلے نے مستقبل میں ایسی سلطنت قائم کی‘ جس نے آٹھ صدیوں پر مشتمل عروج دیکھا۔ اس سلطنت کا پہلا بادشاہ عثمان ‘ ارتغرل کا بیٹا تھا۔ اس ڈراما سیریز کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس ڈرامے کی کاسٹ سے ترکی کے صدر طیب اردوان ملتے رہتے ہیں۔متعد ممالک اس ڈرامے کے اداکاروں کو حکومتی مہمان کا درجہ دے چکے اور یہ کہ یہ ڈراما 83ممالک میں دیکھا اور کم و بیش اتنی ہی زبانوں میں ترجمہ کیاجاچکا ہے۔ مسلمانوں پر مغربی فکری یلغار کے جواب میں ترکی کی اس چھوٹی سی کاوش پرمغربی کی ہرزہ سرائی ''نیویارک ٹائمز‘‘ میں ولیم آرمسٹرانگ کی اس اخبار میں چھپنے والی خبر کی اس سرخی میں دیکھی جاسکتی ہے ''طیب اردوان اور ترکی کی نفسیات جاننے کے لیے ' ارتغرل‘دیکھ لیجئے‘‘۔ مغرب کو تکلیف یہ ہے کہ راہ میں آنے والے مصائب کے طوفانوں‘ حوادث کی موجوں اور بگولوں کی فوجوں سے استقامت کے ساتھ نبرد آزما رہنے کی اس تاریخ ساز جدوجہد کا نام ''ارتغل‘‘ ہے۔
میں ترکی کے ڈراما سیریز ''ارتغل‘‘ کے پانچوں سیزن دیکھ چکا تھا اور تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے مختلف مورخین کے قلم سے تحریر کردہ تاریخ کے اس حصے کا مطالعہ بھی کرچکا تھا ۔ کوہسار کا ماحول مجھے ارتغل کے حوالے سے سوچنے کی اجازت ہی نہیں دے رہا تھا‘ تو اس کا کپتان سے تقابل کہاں سے کرلیتا؟ سو‘اسلام آباد سے لاہور کے سفر کے دوران ارتغل کی سوچ‘ اس سوچ پر عمل کے دوران ‘ اس کے ساتھ چلنے والے لوگوں سے کپتان اور اس کی ٹیم کا موازنہ کرنے لگا۔ارتغل نے اپنی ریاست کی جدوجہد صرف دو نکات پر شروع کی‘ پہلانکتہ تھا ؛جدوجہد ہماری‘ فتح اللہ کی اوردوسرا؛ انصاف۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان جنگجوئوں کی روحانی تربیت کے لیے کئی روحانی سلسلوں کی شخصیات بھی ان کے ہمراہ رہیں‘ اسی طرح ارتغل کی روحانی رہنمائی کے لیے شیخ محی الدین ابن العربیؒ تھے ‘جو اندلس سے ''ارتغل کی روحانی مدد کو پہنچے تھے۔اس حساب سے دیکھا جائے تو خان صاحب ‘ارتغل سمیت روحانی شخصیات کی مدد لینے والے مسلمان جنگجوئوں پر بازی لے گئے ‘کیونکہ انہوں نے صرف مدد پر اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ ''فیض‘‘ پاتے پاتے ''روحانی شخصیت‘‘ کو اپنا جیون ساتھی ہی بنا لیا۔ارتغل نے کبھی اپنے قبیلے والوں سے جھوٹ بول کر قبیلے کا سردار بننے کی کوشش بھی نہیں کی ۔ ارتغل سرداری کا امیدوار بنا‘ تو اس نے جرگہ کے سامنے صرف اتنا کہا کہ ''میں انصاف قائم کروں گا اور اس کے لیے میرا ہاتھ ہمیشہ میری تلوار کے دستہ پر ہوگا‘ جبکہ مخالف امیدوار ریاستی طاقتوں کی حمایت اور سونے کے ذریعے سرداران کو خرید کر خوشحالی و تبدیلی کے خواب دکھاتے ہوئے سردار بن گیا۔ یہ وہ موقع تھا جب ارتغل سخت ترین موسمی و معاشی حالات کے دوران انتہائی کسمپرسی کی حالت میں انصاف کی بنیاد پر ریاست قائم کرنے کا خواب لیے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ ہجرت کرگیا ‘مگر سازشی طاقتوں کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کردیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکش زبان میں انصاف کو '' عدالت‘‘ کہتے ہیں اور اس ڈراما سیریز کے پانچویں سیزن میں یہ لفظ اس تسلسل کے ساتھ ارتغل سے سننے کو ملا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا شاید وہ اس لفظ کی تسبیح کررہا ہے اور نہیں چاہتا کہ کوئی لمحہ بھی ایسا گزرے ‘جو اسے انصاف سے غافل کردے۔ اس نے ہر موقع پر ناصرف انصاف قائم کیا‘ بلکہ اس دوران کئی خونی رشتہ داروں ‘ قابل اعتماد ساتھیوں کو بھی گنوا دیا۔اب دیکھا جائے تو تحریک تو اپنے کپتان نے بھی انصاف کے نام پر ہی شروع کی ‘مگر اقتدار ملتے ہی ''انصاف‘‘ کے لفظ سے ہی عوام کو مایوس کردیا۔ دریا کنارے مرنے والے کتے کی ذمہ داری لینے کے دعوے کرکے ''سردار‘‘ بننے والوں کو اب نہ تو سانحہ ساہیوال کے ہاتھ جوڑے انصاف کی بھیگ مانگتے بچے نظر آتے ہیں اور نہ ہی نقیب اللہ محسود کا عمر رسیدہ باپ۔ ماضی کے قاتل اتحادی بنے‘ بلدیہ فیکٹری میں تین سو افراد کو زندہ جلانے والے شریک اقتدار ۔ایک بار پھر جاتے ہیں ‘تاریخی ڈرامے کی جانب‘ حلب کے امیرکی جانب سے صلیبی جنگجوئوں کے پڑوس میں زمین ملی‘ تو ارتغل نے کہا کہ '' دشمن کے پڑوس میں رہنا سودمند ہے‘ ہمیں ہر وقت جنگ کے لیے تیار اور چوکنا رکھے گا‘ ہمیں غافل نہیں ہونے دے گا‘‘۔ اب ذرا ارتغل سے متاثر ہونے والے کپتان صاحب اور ان کی ٹیم کے حال کا جائزہ لیں تو حال یہ ہے کہ دشمن ہمارا کشمیر لے گیا اور ہم صرف زبانی تلوار کے ہی وار کرتے رہ گئے ۔آپ یقین کریں میں نے ''ارتغل‘‘ کے پانچوں سیزن بہت غور سے دیکھے ہیں‘ مگر کسی سیزن میں بھی منگولوں‘ صلیبیوں اور سازشی غداروں سے لڑائی کے دوران ‘ کسی بھی موقع پر ارتغل کو بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ٹیم کے ساتھ احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔ سخت ترین حالات میں بھی ماں‘ بھائیوں اور ساتھی سرداروں نے اسے دشمن کی طاقت سے ڈرا کر یوٹرن لینے کا کہا ‘مگر اس نے پوری زندگی ایک بھی یوٹرن نہیں لیا۔ اب پتا نہیں کپتان صاحب اسے کیسے عظیم رہنما سمجھتے ہیں‘ جبکہ ان کے مطابق یوٹرن لیے بغیر کوئی'' عظیم رہنما‘‘بن ہی نہیں سکتا۔
''ارتغل‘‘ کی ٹیم کی بات کریں تو اس کا اہم رکن ''ترگٹ‘‘ جو ارتغل کا بااعتماد ساتھی رہا‘ پھر ارتغل کے بیٹے عثمان کے ساتھ رہا‘ اس نے 127سال کی عمر میں سلطنت ِعثمانیہ کی بقا و توسیع کیلئے لڑتے ہوئے گھوڑے کی پشت پر شہادت پائی۔ ترکی میں آج ایک شہر اس کے نام پر ہے‘ اس کے مزار پر اس کا جنگی کلہاڑا نصب ہے اور ترکش سپاہی پہرہ دیتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر یہ تاریخی ڈراما سیریز دیکھ کر کپتان صاحب خود کو ارتغرل سمجھ رہے ہیں اور بنی گالا کو سرداری خیمہ‘ تو یقینی طور پر کپتان کی ٹیم کے اراکین خود کو ترگٹ‘ بمسی اور شایان (ارتغرل کے قریبی ساتھی) سمجھ رہے ہوں گے۔ پارلیمنٹ لاجز کو انصافی قبیلے کے خیمے‘اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کون کس کردار پر پورا اترتا ہے؟ طیب اردوان حکومت نے تو ترکی کی موجودہ صورتحال کو اس ڈراما سیریز کے ذریعے تاریخی ماضی سے جوڑ کر ''بحالی عروج‘‘ کی جدوجہد شروع کرنے کا کام کیا ہے‘ کیونکہ ان کے پاس عروج کی تاریخ ہے ‘جس کی بحالی کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جارہا ہے۔ حبیب اکرم صاحب کے مطابق ''ایک سیاسی حادثے کی پیداوار‘‘ موجودہ حکومت کس عروج کی بحالی کے لیے کام کرے گی۔ اس کا تو آغاز ہی اس کا زوال ثابت ہوا۔مرشد کہتے ہیں کہ کچھ لوگ صرف خالی ڈھول ہوتے ہیں ‘ان کا کام صرف بجنا ہوتا ہے اور انہیں بجانے والا کوئی اور ہوتا ہے ۔یہ دُہری شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ حقیقت میں اس جھوٹ‘مکر اور فریب والی دنیا کے سردار اور اپنے خوابوں میں خودساختہ ارتغل‘ترگٹ ‘ بمسی اور شایان ۔