پطرس بخاری یہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ کتوں کا آخر فائدہ کیا ہے؟ گائے اور بکریاں تو دودھ اور گوشت دیتے ہیں‘ مگر آخر یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ پطرس بخاری کہتے ہیں کہ جب انہوں نے علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا ‘تو انہیں بس ایک ہی جواب ملا کہ کتا وفادار جانورہے‘ پھروہ پروفیسر کی اس لاجک کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر شام سے صبح تک بھونکنے کا نام وفاداری ہے‘ تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔ پطرس بخاری آج حیات نہیں ‘ ورنہ جو کہرام کتوں نے آج کل ملک بھر میں اور خصوصی طور پر سندھ میں مچایا ہوا ہے‘ یقینی طور پر صاحب ِمضمون اپنے مضمون ''کتے‘‘ میں تبدیلی کرتے یا اضافہ تو ضرور ہی کرتے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں کتے ''بے لگام‘‘ ہوگئے ہیںاور روزانہ '' سگ آزادی ‘‘کا جشن مناتے نظر آتے ہیں ۔المیہ تو یہ ہے کہ ملک میں سگ کے ساتھ ساتھ سگ پرستوں کی بھی بہتات ہوگئی ہے۔ ''منصوبہ بندی‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے کتوں کی نسل تیزی سے بڑھ رہی ہے ‘ جس کی وجہ سے ''گڈ ڈاگ اور بیڈ ڈاگ‘‘ کی تمیزو تفریق ختم ہوتی جارہی ہے۔ بہتات ہونے کی وجہ سے نسلی اور بدنسل کی پہچان بھی نہیں رہی اور اب حال یہ ہے کہ کتا بس کاٹ رہا ہے اور ہر طرح کا کتا کاٹ رہا ہے ۔ محاورہ ہے کہ جو بھونکتے ہیں ‘ وہ کاٹتے نہیں ۔ اب ‘اس محاورے میں تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے ‘کیونکہ جو صورتحال ہے ‘اس میں جو صرف بھونکنے کا کام کرتے تھے‘چھوٹ ملنے کے بعد اب‘ وہ بھی کاٹنے لگ گئے ہیں۔ پطرس بخاری کہتے ہیں کہ انہیں کئی بار صاحب لوگوں کے بنگلے پر جانے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے بنگلے میں موجود کتوں میں بڑی شائستگی دیکھی‘ وہ بھونکتے بھی نازک اور دلکش آواز میں تھے ۔ چوکیداری کی چوکیداری ہو جاتی تھی اور موسیقی کی موسیقی‘ مگر اب یہ نسل بھی مقامی اثرات لے چکی ہے‘ جس طرح زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے‘ معاشرتی اقدار اور نظام کو زوال آیا ہے‘ بالکل ایسے ہی کتوں کی '' اخلاقیات‘‘ بھی زوال کا شکار ہیں۔اب‘ بنگلوں کے کتے بھی بڑے ہی کتے ہوگئے ہیں۔ ہر شہری پر بھونکتے ہیں ‘ شناسا چہرے کو دیکھ کر بھی ناصرف بھونکتے ہیں ‘بلکہ کاٹ کھاتے ہیں۔ کتے کسی کو نہیں چھوڑ رہے‘ بچہ بوڑھا‘ مرد‘ عورت سب پر حملہ آور ہورہے ہیں ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ جو کتے درآمد کیے جاتے ہیں‘ وہ بڑے شریف النفس ہوتے ہیں اور مالک کے اشارۂ ابرو پر حرکت میں آتے ہیں۔ کئی پرانی ویڈیوز دیکھی ہیں‘ جس میں دی گئی تربیت کے عین مطابق‘ کتے فٹ بال کیچ کرلیتے ہیں‘ جمپ لگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں‘ رِنگ کو آگ لگا کر رکھا جاتا ہے تو اس رِنگ میں سے گزر جاتے ہیں۔ کتوں کی یہ مہارت دیکھ کر عوام کتوں اور ان کے ٹرینرز کو داد دیتی تھی ‘ لیکن اب تو مالک کے اشاروں پر ناچنے والی نسل بھی کاٹنے کو دوڑرہی ہے۔شاید مالکان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے یا اشارہ بدل گیا ہے‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہسپتال کتوں کے کاٹے متاثرین سے بھرے نہ ہوتے‘ ریبیز ویکسین کی یوں ایک دم قلت نہ پیدا ہوجاتی ۔ اب‘ مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا تو پنجاب حکومت کو ہوش آیا اور جگہ جگہ کتوں کو زہر ملے گلاب جامن کھلانے کے ساتھ ساتھ شوٹرز کو کارتوس بھی فراہم کردئیے گئے‘ مگر سندھ کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔سندھ میں کتوں کی ہر نسل کی افزائش میں '' حاکم وقت اور آل حاکم وقت‘‘ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ صوبائی حکومت کی سطح پرچہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ ''دختر سندھ‘‘ خصوصی طور پر کتوں سے شفقت کا معاملہ کرتی ہیں ‘اس لیے زہر اور شوٹنگ کے ذریعے مارے گئے کتوں کی ڈیڈ باڈیز کو دیکھنا ان کی طبع نازک پر ناگوار گزرتا ہے‘پھر وہ ہیں بابا کی لاڈلی‘ اس لیے دربار سے فرمان جاری ہوا کہ کسی بھی قسم اور نسل کے کتوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہاں کتوں کو ایک طرف چھوڑ کر یہ تو ماننا پڑے گا کہ سندھ پر حکومت کرنے والا خاندان بہت ہمت و حوصلہ والا ہے کہ کتوں کے بھنبھوڑنے سے خون میں لت پت اور اعضاء سے محروم بچے اور ان میں سے 24بچوں کی لاشوں کا صدمہ سہہ جاتے ہیں‘ اپنے ہی شہر لاڑکانہ میں ایڈز کا شکار بنتے مریضوں کا دکھ بھی وہ جھیل جاتے ہیں ‘ تھر میں قحط سے مرنے والے بچوں کی لاشیں بھی حوصلے سے دیکھ لیتے ہیں ‘ بس نہیں دیکھ پاتے تو مرے ہوئے آوارہ کتوں کی لاشیں۔الغرض سندھ باسیوں کے حقوق وہاں کے کتوں کے برابر بھی نہیں ہیں۔ایسے میں خیال آتا ہے کہ خصلت میں کتے تو فضول بدنام ہیں ۔ دوبارہ آتے ہیں سندھ میں پائے جانے والے کتوں کی جانب‘ان کتوں کو نہ مارنے کا فرمان شاہی کتوں کے لیے ''بلٹ پروف جیکٹ‘‘ ثابت ہوا۔ اس فرمان کا سننا تھا کہ سارے ہی کتے چوڑے ہوگئے ‘انہیں چیر پھاڑ کرنے کالائسنس مل گیا۔بس پھر کیا تھا‘ جابجا کھلے عام ہر کسی پر جھپٹنے لگے ۔جب کراچی میونسپل کمیٹی کی کتا مار مہم کے ایم سی کے ساتھ ہی ختم ہوئی اور دوبارہ شروع نہ کی گئی‘ تو کتوں کی نسل کا بڑھنا فطری عمل تھا۔ اب ‘سندھ میں کتوں کی بہتات پریشان کن ہوچکی ہے‘ اگر یہی صورتحال رہی تو مستقبل میں یا تو کتے نظر آئیں گے یا کتوں کے متاثرین۔اس میں قصور عوام کا بھی ہے‘ عوام نے کتوں کو بس کتا جان کر خاطر میں لانا چھوڑا ‘تو وہ بے قابو ہوگئے۔ یہ ساری تفصیل بتانے کے بعد ہماری رائے تو یہ ہے کہ ملک میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی سخت قلت ہے ۔اب‘ اگر عوام نے کتوں سے بچنا ہے ‘تو جیسے کہ بڑے بزرگ کہہ گئے ہیں انہیں لاٹھی پکڑنی ہوگی۔ اس طرح کوئی کتا ان کے قریب نہیں آئے گا‘ کجا یہ کہ انہیں کاٹے‘ پھر انہیں ویکسین کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ کتوں کے انسانوں پر حملوں کی تعداد‘ جس خوفناک انداز میں بڑھ رہی ہے‘ اگر صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کتوں سے حفاظت کے اقدامات نہ کیے گئے اور معروف شاعر فیض احمد فیضؔ کی نظم کی عملی تصویر بنے رہے تو پھر کتوں سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ویسے دو روز قبل فیض احمد فیضؔ کی برسی گزری ہے۔ ادبی شخصیات کا کہنا ہے کہ پطرس بخاری کی طرح فیض احمد فیضؔ نے بھی کتوں پر اپنی تحقیق ایک نظم کی صورت پیش کی ہے۔ اب ‘یہ کتوں کی کون سی قسم ہے ‘یہ آپ فیض احمد فیضؔ کی اس نظم کو پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں: ''یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے /کہ بخشا گیا جن کو ذوق ِگدائی /زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا /جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی /نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے /غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے /جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو /ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو /یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے /یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے /مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے /تو انسان سب سرکشی بھول جائے /یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں /یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں /کوئی ان کو احساس ِذلت دلا دے /کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے ‘‘۔