ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی‘ جس میں فیضؔ میلے میں چند طلباء نعرے بازی کرتے ہوئے ایشیاء کو سرخ کرنا چاہ رہے تھے۔ ویڈیو نے اس قدر اہمیت اختیار کی کہ سوشل میڈیا کے بعد مین سٹریم میڈیا بھی اس پر آگے بڑھا اور ان نوجوانوں کے نمائندوں سے انٹرویوز‘ ٹاک شوز اور پروگرامات میں موقف دینے کے لیے بلایا جانے لگا۔یہاں سے مجھ جیسے کم علم کو اندازہ ہوا کہ یہ نوجوان طلباء یونین کی بحالی چاہتے ہیںاور اس کے لیے ان نوجوانوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ''طلباء مارچ‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ ایشیاء کے سبز و سرخ ہونے سے قطع نظر‘ تحریر نویس طلباء یونین کا حامی ہے‘ اس لیے ''طلباء مارچ‘‘ کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا‘خیال تھا کہ کچھ سیکھنے کو ہی مل جائے گا۔
اب‘ جو لاہور مال روڈ پر پہنچے تو جو چہرے نظر آئے‘ وہ انجانے قطعی نہیں تھے‘ بلکہ ایسے کسی بھی ''آزاد مارچ ‘‘ کے باقاعدہ شرکاء ہوتے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر نظر پڑی ‘ پھر جب نظر اٹھا کر پلے کارڈ تھامنے والے چہرے کو دیکھا تو کچھ دیکھا دیکھا سا لگا۔ حافظے نے ساتھ دیا تو یاد آیا کہ موصوفہ اور ان کی ہم جولیاں تو اس سے پہلے بھی مظاہروں میں نظر آتی رہتی تھیں اور ان کے نعرے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پرُفریب نعروں کا کھیل ہو یا موم بتیاں تھامے آزادیٔ نسواں کے نام پر مادرپدرآزادی کے خواب‘ یہ مخصوص چہرے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ان کی دال جب کہیں نہ گلی تو اب جھنڈے پکڑ کر ہر مجمع میں پہنچ جانا اور پُر فریب نعروں پر مبنی پلے کارڈز اٹھا کر مجمعے میں اپنی الگ پہچان بنا لینا ‘ان کا وتیرہ ہے۔ خیر‘ان سے کنی کتراآگے بڑھا ‘تاکہ '' طلباء مارچ‘‘ میں کوئی طالبعلم بھی نظر آجائے تو اندازہ ہوا کہ یہاں طالبعلم ڈھونڈنا بھوسے میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے‘ اسی تلاش کے دوران ایک تقریبا 80سالہ ''طالبعلم‘‘ کو سفید ڈاڑھی وسفید بالوں کے ساتھ سرخ رنگ کی تشبیہات پر مبنی مختلف نعرے لگاتے دیکھا۔سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد جب مستعار لیے گئے نظریات کا بھی انتقال ہوگیا تھا‘ تو موصوف نے بھی خاموشی اختیار کرکے ہی عزت ِسادات بچائی تھی ‘ مگر اب دوبارہ سرگرم ہوکر ایسے وقت میں ''مردہ نظریے ‘‘ میں جان ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں‘ جب اپنا ایک پائوں قبر اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہے اور رہا معاملہ عزت ِسادات کا تو بقول میر تقی میرؔ:؎
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
اس مجمعے میں آگے بڑھے تو پلے کارڈز تھامے ایک ایسا ٹولہ بھی نظر آیا‘ جو کسی بندھن کے لیے جنسی تفریق کا قائل ہی نہیں تھا۔ یہاں پہنچتے پہنچتے یہ تو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس سرخ لبادے میں دیگر رنگوں کے اتنے پیوند لگ چکے ہیں کہ اس کا اپنا رنگ تو اب نظر ہی نہیں آتا ۔ اپنے اپنے مطالبات پر مشتمل پلے کارڈز تھامے مختلف گروہ نظر آگئے‘ مگر طلباء یونین کی بحالی کے نعرے نظر نہیں آرہے تھے‘اسی تلاش کے دوران دیگر شہروں میں ہونے والے ''طلباء مارچ‘‘ کی سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر پر بھی نظر ڈالتا رہا‘ تو ایک تصویر نظر سے گزری ‘جس میں ایک شہر میں ہونے والے '' طلباء مارچ‘‘ میں ایک مرد کو کتا بنا کر اسے پٹے ڈالے ہوئے تھے اور وہ پٹے تین خواتین کے ہاتھ میں تھے۔حیرت ہوئی کہ یہ کیسا ''طلباء مارچ‘‘ ہے؟ جس کی کوئی اخلاقیات ہیں‘ نہ اقدار۔ مرد کو کتا بانیان سرخ نظریات لینن نے ''سٹیٹ اینڈ ریوولیوشن‘‘ میںاور کال مارکس نے ''داس کیپیٹل‘‘ اور'' دا کمیونسٹ مینوفیسٹو‘‘ میں تو کم ازکم نہیں ٹھہرایا ہے ‘ پھر یہ کون سے طلباء ہیں اور کس کے نظریات کا پرچار کررہے ہیں۔یہاں تک پہنچتے پہنچتے میری یہ رائے پختہ ہوچکی تھی کہ اس حصے میں نظریاتی طلباء نہیں‘ بلکہ نام نہادترقی پسند نظریات کی باقیات ہیں ‘جن کیلئے کم سے کم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''ننگ آدم‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن‘‘۔
اسی شش وپنج میں مال روڈ پر'' طلباء مارچ‘‘ کے نام پر موجود اس جتھے میں کسی حقیقی طالبعلم کو ڈھونڈنے کی کوشش جاری رکھی‘پھر بڑی تلاش کے بعد بالآخر ایک ''طالبعلم‘‘ کامریڈ ہمیں مل ہی گیا۔ اپنے سینئرز سے سنا تھا کہ کامریڈ کا مطالعہ بہت وسیع ہوتا ہے‘ اس لیے ان سے سوال کرتے ہوئے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے‘اس لیے کامریڈ سے ملتے ہی ابتدائی کلمات کے بعد صرف یہ پوچھا کہ طلباء یونین کی بحالی کیوں ضروری ہے تو معلوم ہوا کہ طلباء کے حقوق کے حصول کے لیے۔ جب ان سے پوچھا کہ طلباء یونین پر پابندی کب اور کس نے لگائی تو انہوں نے ایسی نظروں سے دیکھا‘ جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ بھی نہیں جانتے اور خود کو صحافی کہتے ہو‘بڑے عالمانہ انداز میں جواب دیا گیا کہ 70 کی دہائی میں ضیاء نے لگائی تھی۔ عرض کی حضور 70کی دہائی میں تو دس سال تھے ‘پابندی کب اور کہا ں لگی تھی؟ انتہائی بیزاری کے انداز میں جواب ملا کہ دس سال کے درمیان میں کہیں لگی ہوگی‘ پھر کہا کہ جناب اس دہائی کے بیشتر سال تو بھٹو صاحب کی حکومت تھی‘ ایسا جواب ملا کہ جس نے چودہ طبق روشن کردئیے‘ فرمانے لگے؛ پھر بھٹو نے ہی لگائی ہوگی... اب ‘سوال کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی‘ اس لیے بس اتنا ہی کہا کہ جناب ذوالفقارعلی بھٹو نے طلباء یونین کا آرڈنینس جاری کرکے باقاعدہ ایک طریقہ کار طے کیا تھا‘ جبکہ 1979میں ضیاء صاحب نے سندھ میں اور 9فروری 1984ء کو ملک بھر میں طلباء یونین پر پابندی عائد کردی تھی۔
اس کے بعد موصوف کے تیور دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میری بات سے موصوف کی ''کامریڈی اناــ‘‘ کو ٹھیس پہنچی ہے اور اب وہ مزید بات چیت کے موڈ میں نہیں ۔اس'' طلباء مارچ‘‘ کا یہ حصہ ایسے ''ہونہاروں‘‘ پر مشتمل تھا ‘جن کا مشہور زمانہ قول ہے کہ ''پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے‘‘۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ''طلباء مارچ‘‘ سے مایوسی ہونے لگی تھی کہ اچانک اس مبینہ ''طلباء مارچ‘‘ کے ''حقیقی طلباء‘‘ بھی نظر آہی گئے۔ ان طلباء سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ نظریاتی اور باشعور طلباء بھی اس مارچ میں موجود ہیں‘ جو طلباء یونین کو ملکی قیادت کی نرسری سمجھتے ہیں اور اس کی بحالی کے ذریعے ملک کی باگ ڈورباشعور اور باصلاحیت افراد کے ہاتھوں میں دیکر موروثی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ چاہتے ہیں۔اب ‘اگر دوسرا پہلو دیکھا جائے تو طلباء جدوجہد کے اس منظر نامے میں نہ تو نعرے نئے ہیں اور نہ ہی موقف‘ اگر کچھ نیا ہے تو صرف بائیں بازو کے نظریات کے حامل نوجوان طلباء کا یونین کی بحالی اور طبقاتی نظام تعلیم کے لیے اٹھنا‘ ورنہ تو اسلامی جمعیت طلباء بھی گزشتہ دو دہائیوں سے طلباء یونین کی بحالی اور طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ان موضوعات پر اس کی جانب سے منعقدہ مذاکروں‘ مباحثوں اور سیمینارز میں دائیں اور بائیں دونوں جانب کی معروف شخصیات ہمیشہ سے شریک ہوتی رہی ہیں‘ مگر ہمارے میڈیا کو اس کی یہ جدوجہد اور طلباء میں شعور اجاگر کرنے کے لیے پروگرامات تو بالکل بھی نظر نہیں آتے۔ ہاں ! اگر نظر آتا ہے‘ تو تعلیمی اداروں میں ہونے والا تصادم‘ صرف وہ تصاد‘م جس میں جمعیت کا نام آجائے اور پھر ایسی خبر گھنٹوں تک شہ سرخیوں کا حصہ رہتی ہے۔
خیر میڈیا جو مرضی کرتا رہے ‘ قابل ِستائش امر یہ ہے کہ دائیں بازو والے ہوں یا بائیں بازو والے۔ دونوں طلباء یونین کی بحالی ‘ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے اور طلباء حقوق کی جدوجہد کے لیے متفق ہیں ۔ہر دو آراء کے بیچوں بیچ اس تحریر نویس طالب علم کی رائے بھی یہی ہے کہ طلباء یونینز بحال ہونی چاہئیں‘ کیونکہ پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ میں طلباء یونینز کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ غالبؔ نے بھی کہا خوب کہا :
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا