"FBC" (space) message & send to 7575

عمیر کا سوال‘جنت اُجڑنے پہ کیا بنائوں؟

اس بچے نے عصر کی نماز کے بعد امام صاحب کی جانب سے دیے جانے والے مختصر درس میں سنا کہ آیت الکرسی پڑھ کر جس پر پھونک مار دی جائے وہ اللہ کی امان میں آجاتا ہے ۔ امام صاحب کی یہ بات اس بچے نے اپنے دل میں رکھ لی اور پھر کوئی دن ایسا نہ گزرا جب اس نے آیت الکرسی پڑھ کر اپنی متاعِ حیات کو اللہ کی امان میں نہ دیا ہو۔ سب سو جاتے تووہ خاموشی سے اٹھتا ‘ چارپائی کے پاس جاتا اور آیت الکرسی پڑھ کر اللہ سے دعا کرتا ‘ پھر انتہائی اطمینان سے آکر اپنے بستر پر لیٹ جاتا ۔ یہ عمل دہائیوں تک جاری رہا۔ معاش کے حصول میں جب شہر چھوڑا تو بھی یہ عمل نہ رُکا۔ وہ آیت الکرسی پڑھتا ‘ اپنی جان سے عزیز ہستی کو تصور میں لاتا اور اللہ کی امان میں دے دیتا ۔ اللہ تعالیٰ نے بے روزگاری کی صورت آزمائش میں ڈالا تو اسی کے حکم کے مطابق تلاشِ روزگار کے لیے ہجرت کی۔ سخت حالات میں بھی اپنی ماں کو اللہ کے حوالے کرنا نہ بھولتا تھا۔ حالات اتنے کٹھن تھے کہ وہ ہر جگہ بس قصر ہی پڑھ رہا تھا۔ ایسے میں اس کی ماں پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ جیسے دہل سا گیا۔ ماں کی لاٹھی کی ٹک ٹک اس کی سانس کی روانی میں مدد گار ہوتی تھی۔ کچھ دن ماں کے پاس گزار کر پھر معاش کے لیے کراچی آگیا۔ ایک روز اُسے فون پر بھائی نے جلدی گھر پہنچنے کا کہا۔ وہ کراچی سے اپنے گائوں پہنچا تو اس کی کل کائنات اسے چھوڑ کر جاچکی تھی۔ اس نے سرہانے کھڑے ہوکر آیت الکرسی پڑھی اور جس کی امانت تھی اُسے سونپ دی۔ماں کو گزرے چھ سال ہوگئے وہ آج بھی ہر روز آیت الکرسی پڑھ کر ماں پر پھونک مارتا ہے‘اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کے لیے نوافل بھی اس کا معمول بن چکا ہے۔ سخت حالات میں بیمار ماں کا بچھڑنا ‘ ایسا غم بن گیا کہ اب کسی کی بھی ماں کی بیماری کا پتا چلے تو اپنا غم تازہ ہوجاتا ہے ‘ ہاتھ بے اختیار بارگاہِ الٰہی میں اٹھ جاتے ہیں اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی مائوں کو ہر طرح کی تکلیف سے محفوظ رکھے۔ ایسے میں جہاں تک ممکن ہوتا ہے اور رب کی توفیق ہوتی ہے ‘مدد کی بھی کوشش رہتی ہے۔اگر خدانخواستہ یہ پتا چلے کہ کسی ماں کو فالج ہوگیا ہے تو کافی دیر تک خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔اپنی ماں کا اپنے جسم کے نصف بے جان حصے کو سنبھالنا اور ایسی حالت میں بھی اپنے لیے دعا سے پہلے میرے لیے دعا کرنا یاد آجاتا ہے۔ ماں کو تکلیف میں دیکھنا بیٹے کو جیتے جی ماردیتا ہے اور ایسے میں بیٹا اگر کچھ کر نہ سکے تو اس کے لیے ساری زندگی کا روگ بن جاتا ہے ۔
مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں ۔
میں نے گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو روتے دیکھا۔پاکستان کا وزیر اعظم جسے انتہائی پراعتماد سمجھا جاتا ہے‘ جسے مضبوط اعصاب کا مالک کہا جاتا ہے‘ جب ان کے سامنے ان کی والدہ کا تذکرہ ہواتو آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے‘ معصوم بچوں کی طرح ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو صاف کرتے بہت معصوم نظر آئے‘ بالکل معصوم بچے۔ ماں کا نام آجائے تو سب بچے ہی بن جاتے ہیں۔ خان صاحب بتاتے ہیں کہ وہ اپنی ماں کی موت کو کبھی نہیں بھول سکے‘یقینی طور پر خان صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ کوئی اپنی ماں کوبھول نہیں سکتا اور تکلیف میں جان دینے والی ماں کو تو ایک بیٹا ہر ہر پل یاد رکھتا ہے‘بھولنا ممکن ہی نہیں رہتا۔یہی وجہ تھی کہ خان صاحب نے اپنی ماں کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے ملک سے کینسر کے خاتمے کی جدوجہد کرنے اور کینسر کے مریضوں کے لیے ہسپتال بنانے کا ارادہ کرلیا۔ نیت نیک تھی تو منزل آسان ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے نیک کام میں مدد کی اور خان صاحب کی کوششوں کا نتیجہ شوکت خانم کی صورت میں آج سب کے سامنے ہے۔‘شوکت خانم ہسپتال خان صاحب کی اپنی ماں سے محبت کا ثبوت ہے ۔کینسر سے لڑتے ہوئے جو تکلیف خان صاحب کی والدہ نے سہی ہوگی اور انہیں تکلیف میں دیکھ کر جس کرب سے خان صاحب گزرے ہوں گے ‘اس کے بعد یقینی طور پر وہ چاہتے تھے کہ نہ تو کسی اور نوجوان کی ماں ایسی تکلیف سے گزرے اور نہ کوئی اور نوجوان اپنی ماں کو تکلیف میں دیکھ کر اس کرب سے گزرے‘ اسی لیے شوکت خانم بنایا گیا۔ خان صاحب کی آنکھیں یہ بتاتے ہوئے برستی جارہی تھیں۔
یہ دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں ۔ ماں تو ماں ہوتی ہے ‘ کسی بادشاہ کی ہو یا فقیر کی‘ وزیر اعظم کی ہو یا عمیر کی ۔اور پھر اچانک ہی وہ تصویر نظروں کے سامنے گھوم گئی ۔ ساہیوال کے قریب ایک پٹرول پمپ پر گولیوں سے زخمی عمیر کرسی پر بیٹھا ہے‘ اس کے دائیں جانب اس کی گولیوں سے زخمی بہن منیبہ اپنا بازو سنبھال رہی تھی اورچار سالہ حبیبہ دودھ کا فیڈر ہاتھ میں پکڑے اپنے بھائی اور بہن کو دیکھ رہی تھی۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ عمیر اپنی بہنوں کے لیے فکر مند تھا کہ ظالموں نے انہیں ہی زندہ چھوڑا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی عمیر کے سامنے اس کی ماں کے ساتھ ساتھ اس کے باپ اور بڑی بہن کو بھی وحشیانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کی بڑی بہن کو تو چھ گولیاں ماری گئیں تھیں جبکہ اس کے والد اور والدہ کو چھلنی کردیا گیا تھا۔پٹرول پمپ پر موجودگی کے دوران تو عمیر کا ذہن اپنی تکلیف‘ اپنی بہنوں کی فکر میں تھا‘ ہسپتال میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی ‘بہن بھائی اس صدمے سے گم صم بیٹھے رہے ‘ مگر جب ان کے اپنے ہسپتال پہنچے اور بچے ان کے سینے سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رو لیے تو پھر عمیر ساری صورتحال بتانے کے قابل ہوا ۔ پھر عمیر نے بتایا کہ کیسے اس نے اپنی ماں کو دم توڑتے دیکھا تھا‘ کیسے اس کی ماں نے ظالموں کی گولیوں سے بچانے کے لیے عمیر اور اس کی بہن کو اپنی ٹانگوں کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تھی‘ کیسے ان کی ماں اپنے بچوں کے لیے ڈھال بن گئی تھی اور بچوں کی جانب آنے والی ساری گولیاں اپنے جسم پر برداشت کیں۔عمیر نے یہ سب کچھ دیکھا‘ اپنی ماں کی چیخیں سنیں‘ اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کے دوران اپنی ماں کو گولیاں لگتے دیکھیں‘ خون میں لت پت تڑپتے اور دم توڑتے دیکھا۔ اپنی ماں کو ہی نہیں ‘ باپ کو بھی اور بڑی بہن کو بھی۔ یہیں بس نہیں ہوئی ۔ ہر جا دہائی دینے کے باوجود اس نے انصاف کے ٹھیکیداروں کو دعوے کرتے اور قاتلوں کو ''باعزت‘‘ بری ہوتے بھی دیکھا۔
مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں ناں‘ 
بس میں یہی سوچتا رہ گیا کہ خان صاحب نے کینسر کے مرض میں تڑپتی اپنی ماں کو دیکھا تو شوکت خانم ہسپتال بنا دیا ۔مگر اپنی جنت کو گولیوں سے چھلنی دیکھنے کے بعد عمیر ضرور خان صاحب سے سوال کرتا ہوگا کہ ''اے حاکم ِوقت تم نے تو اپنی ماں کی تکلیف پر ہسپتال بنا دیا‘ مجھے بتا‘ تیرے دور میں اپنی جنت اجڑنے پر میں کیا بنائوں؟‘‘

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں