کچی سڑک کے کنارے ‘وہ اپناباقی بچ جانے والا سامان اور خواتین و بچوں کے ساتھ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے تھے۔وہ میدان میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ اچانک دور سے قیمتی بڑی گاڑیوں کا قافلہ آتا نظرآیا۔ قافلے پر نظر پڑتے ہی اچانک ایک آواز گونجی '' سائیں آرہے ہیں‘‘۔ اس آواز نے سب لوگوں پر ایک خوف طاری کردیا۔ بوڑھے اورجوان لائن میں کھڑے ہوئے اور رکوع میں جھکتے چلے گئے ۔ ان کی دیکھا دیکھی خواتین اور بچے بھی ایک نظر گاڑیوں کے قافلے پر ڈال کر حالت رکوع میں آگئے۔ غرض یہ کہ جو جہاں تھا وہیں جھک گیا۔
میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح جھک جانے کے عمل کا جو بھی جواز ہو‘ یہ کم از کم عقیدت نہیں تھا۔17 گاڑیوں کا قافلہ گزرا۔ان گاڑیوں میں قیمتی ملبوس زیب تن کیے افراد کی گردنیں ان کے کلف لگے لباس کی طرح اکڑی ہوئی تھیں۔کم ازکم لباس پر تو کوئی داغ نہیں تھا‘کردار کا معاملہ اللہ بہتر جانتا ہے۔قافلہ گزرنے کا یہ منظر چند لمحوں پر محیط تھا۔اور وہ جو سر جھکائے کھڑے تھے‘ وہ نظریں اٹھا کر یہ تک دیکھنے کی ہمت نہیں کرپارہے تھے کہ جن کے لیے وہ اس قدر جھک گئے ہیں‘ ان کی گاڑیاں تو انتہائی تیزرفتاری سے گزر کر نظروں سے اوجھل بھی ہوچکی ہیں؛ البتہ کچے راستے پر ان گاڑیوں کی تیزرفتاری سے اڑنے والی دھول نے چند لمحوں کے لیے منظر نگاہوں سے اوجھل کردیا تھا۔ جب یہ دھول ختم ہوئی اور گرد جھکے ہوئے افراد کے سروں میں بیٹھ گئی تو ان افراد نے آہستہ آہستہ سیدھا ہونا شروع کیا۔
پہلے ایک نے نظریں اٹھا کرسامنے دیکھنے کی ہمت کی اور پھر آواز لگائی کہ '' سائیں ہلی ویو‘‘۔ جس کے بعد تمام افراد سیدھے کھڑے ہوگئے ۔ مردوں اور بزرگوں نے اپنے کندھوں پر رکھی چادروں اور خواتین نے اپنی اوڑھنیوں سے دھول جھاڑنی شروع کی۔ یہ تمام عمل دس منٹ جاری رہا ہوگااور سب ایک بار پھر اپنے بچے و سامان سنبھالنے میں مشغول ہوگئے۔ بچوں نے ‘البتہ اس دھول کا کوئی اثر نہیں لیا ‘کیونکہ وہ تو بچے تھے اور غلامی کی اس دھول کو ابھی سمجھنے سے قاصر تھے۔
یہ منظر میں نے اس وقت دیکھا‘ جب ستمبر 2011ء میں اندرون سندھ سیلابی تباہ کاریوں کی کوریج کررہا تھا۔ پنجاب کی طرح سندھ میں بھی وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے مزاروں اور غریب ہاریوں کو قربانی کا بکرا بنا یا تھا۔ زمینیں و گھر سیلابی ریلے کی بھینٹ چڑھنے کے بعد متاثرین ہجرت کرکے محفوظ علاقوں میں پہنچ چکے تھے اور حکومت سے مایوس ہونے کے بعد بس‘ رب سے مدد کی دعائیں کررہے تھے۔فی الحال آسمان ان کی چھت اور زمین ان کا بستر قرار پایا تھا۔ ایسے میں میڈیا کوریج کے لیے مقامی رہنما قیمتی چمکتی گاڑیوں میں ان متاثرین کے اجتماع میں آتے اور فوٹو سیشن کروانے کے بعد واپس لوٹ جاتے۔ متاثرین اپنے وڈیروں کی ان ''آنیوں جانیوں‘‘ پر ہی ایسے نثار ہوتے کہ جیسے ان کے سارے مسائل ''سائیں‘‘ کی ایک جھلک دیکھ کر ہی حل ہو جائیں گے۔
بابا جی کہتے تھے کہ جس طرح خوف کا عذاب انتہائی خوفناک ہوتا ہے اور اس کا اندازہ کراچی والوں سے زیادہ کون کرسکتا ہے‘ جنہوں نے کئی دہائیوں اس عذاب میں گزاری ہیں ‘اسی طرح بے حس اور نااہل حکمران بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ہی ایک شکل ہے۔ نااہل ‘ بے حس اور غفلت کے مارے حکمران‘ جو اپنی رعایا کو اپنا غلام تصور کرتے ہوں۔ ان کی جان مال عزت کو خود پر حلال سمجھتے ہوں۔جہاں میڈیکل کی ایک طالبہ کو زیادتی کے بعد قتل کردیا جائے‘ مگر تفتیش اس لیے نہ ہو پائے کہ بااثر افراد ملوث ہیںاور جہاں تھر جیسے علاقے میں ہر سال سینکڑوں بچے غذائی قلت سے دم توڑ جائیں‘وہاں پھر مزاحمت نہیں ‘ بلکہ غلامی ہی جڑ پکڑتی ہے۔
ایسا خطہ کہ جہاں ایک ڈاکٹر سینکڑوں افراد کو ایڈزجیسی بیماری میں مبتلا کردے کہ جس سے وہ سسک سسک کر اپنی موت کا انتظار کریں‘ مگر اس ڈاکٹر کی گرفت نہ ہوسکے اوروہ بدستور سرکار کا ملازم رہے۔ جہاں آوارہ کتوں کا خاتمہ صرف اس لیے نہ کیا جاسکے کہ مرے ہوئے آوارہ کتے کو دیکھنا آل ِحکمران ِوقت کی طبیعت پر گراں گزرتا ہو ‘مگر آوارہ کتے کے کاٹنے اور ویکسین نہ ملنے سے جاں بحق ہونے والوں کی لاشیں دیکھ کر طبیعت بوجھل نہ ہوتی ہو‘جہاں رعایا پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہو‘ مگر حاکم ِوقت کے بچے فرانس سے درآمد پانی سے لطف اندوزہورہے ہوں‘ وہاں جھکے ہوئے سردھول سے اٹے رہتے ہیں۔ملک کا ایسا حصہ کہ جہاں میرٹ کا قتل عام ہو‘ اہل افراد کی جگہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی نااہل اولادوں کو نوازا جاتا ہو‘ جہاں حکومتی چھنی سے چھان کر ایماندار افسران کو علیحدہ کرکے اچھوت قرار دیا جاتا ہو ااور اس ظلم پر بھی آواز نہ بلند ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ یہاںقوت مزاحمت ختم کردی گئی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ رعایا کو غلام بنانے کے لیے سب سے پہلا حملہ عزت نفس پر کیا جاتا ہے۔ایسے حکمران اللہ کے عذاب کی ہی ایک شکل ہوتے ہیں۔
روایت رہی ہے کہ حکمرانوں کی راہ میں اگر کوئی مزاحم ہوا تو اس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے ۔ محکمہ پولیس ایک طویل عرصے تک صرف وڈیروں اور جاگیرداروں کے اشاروں پر ناچتا رہا۔ اب ‘ایک افسر سامنے آیا‘ جس نے اپنی تعیناتی کے 16ماہ کے دوران ایسے ایسے کام کیے کہ خود محکمہ پولیس کے افسران حیران رہ گئے ۔ سندھ پولیس کے افسران کی تعیناتیوں کی پالیسی میں مثبت تبدیلیاں ‘ پانچ ہزار سے زائد اہلکاروں کی ترقیاں کہ جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی‘ حکومت ِوقت کے منظورِ نظر نااہل اور کارکردگی نہ دکھانے والے افسران کی برطرفیاں‘ سفارش پر افسران کی تعیناتیوں سے انکار‘ ایس ایچ اوز کی تعیناتیوں پر رقم کی وصولی رکوا کر بااثر شخصیات کا دھندہ بند کرنا ایسے اقدامات ہیں کہ جس کے بعد رعایا نے تو سکھ کا سانس لیا ہے ‘مگر حکمرانوں کی نیندیں اڑ گئیں ہیں۔
ایسے افسر کو ہٹانے کی سازشیں خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ اب‘ دیکھنا یہ ہے کہ حکمران اپنی ریشہ دوانیوں میں کامیاب ہوتے ہیں یا ایک پولیس افسر محکمہ پولیس کی سمت درست کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس لڑائی میں فتح‘ جس کی بھی ہو ‘ایک بات واضح ہے کہ جاگیرداروں اور وڈیروں کو دیکھ کر رکوع میں جھک جانے والے عوام جب تک سیدھا کھڑے نہیں ہوں گے‘ تب تک یہ حکمران دھول اڑا کر حقائق کوان کی نظروں سے اوجھل ہی رکھیں گے۔
ہمارے ہاں یہ ایک روایت رہی ہے کہ حکمرانوں کی راہ میں اگر کوئی مزاحم ہوا ‘تو پھراس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے الغرض اس مزاحمت کی جنگ میں فتح‘ جس کی بھی ہو ‘ایک بات واضح ہے کہ جاگیرداروں اور وڈیروں کو دیکھ کر رکوع میں جھک جانے والے عوام‘ جب تک سیدھا کھڑے نہیں ہوں گے‘ تب تک یہ حکمران اپنی گاڑیوں کی دھول اڑا کر حقائق کوان کی نظروں سے اوجھل ہی رکھیں گے۔