"FBC" (space) message & send to 7575

دعووں کا احتساب ضروری ہے!

کسی ریاست پر ایک بادشاہ قابض ہوا تو اس نے اپنے سب سے قابل ''ترین‘‘مشیر سے کہا کہ وہ اپنی رعایا کی قوت ِمزاحمت جانچنا چاہتا ہے‘ تاکہ اسے اندازہ ہوسکے کہ انہیں کس حد تک دبایا جا سکتا ہے۔ قابل ''ترین‘‘ مشیر کے مشورے پر بادشاہ نے ٹیکس لگانے شروع کردئیے۔بادشاہ ٹیکس لگاتا رہا‘ مگر رعایا میں کسی قسم کی ہلچل پیدا نہیں ہوئی ‘ پھر بادشاہ نے اشیائے خور ونوش کے نرخوں میں اضافہ کردیا‘ جس کا براہِ راست اثر رعایا کے ماہانہ اخراجات میں اضافے کی صورت سامنے آیا‘ مگر عوامی سطح پر پھر بھی کسی طرح کا تحرک پیدا نہ ہوا۔ بادشاہ اپنی بساط کے مطابق ہر قدم اٹھا چکا ‘تو اس نے مشیر خاص کو دوبارہ بلوایا اور مشورہ طلب کیا۔ مشیر خاص ''سیانا‘‘ تھا ؛ اُس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس عوام کے عزت ِنفس پر حملہ کرکے دیکھنا چاہیے‘ اگر اس سے بھی ان میں بیداری پیدا نہیں ہوتی تو یقین کرلینا چاہیے کہ یہ مردے ہیں‘ کسی صورت کھڑے نہیں ہوسکتے۔ بادشاہ و مشیر نے باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا کہ روزانہ صبح شہر خالی کرایا جائے گا اور عوام کو حکم دیا جائے گا کہ وہ ایک ایک کرکے مرکزی دروازے سے شہر میں داخل ہوں۔ اس موقع پر مرکزی دروازے پر تعینات محافظ ہر شخص کے سر میں دو جوتے ماریں گے۔ اس عمل کا جواز یہ دیا گیا کہ اس سے دماغ تیز ہوگا اور روزمرہ کے معمولات بروقت و بہترین انداز میں نمٹانے میں مدد ملے گی۔ اگلے ہی روز سے اس''کلیہ‘‘ پر عمل شروع کردیا گیا۔چند ہی روز گزرے تھے کہ چند افراد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور ملنے کی استدعا کی۔ بادشاہ کو اطمنان ہوا کہ رعایا عزت نفس پر حملہ برداشت نہیں کرسکی ۔بادشاہ نے ملاقاتیوں کو بلوایا تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے عرض کی کہ آپ ‘ چونکہ عوامی و فلاحی اقدامات کررہے ہیں ‘ہم آپ سے بہت خوش ہیں۔بس ایک درخواست ہے کہ مرکزی دروازے پر جوتے مارنے والے محافظوں کی تعداد بڑھا دیں‘ کیونکہ انتظار کرتے ہوئے ہمیں دیر ہوجاتی ہے اور ہم روزمرہ معمولات بروقت مکمل نہیں کرپاتے۔بادشاہ کو اس بات سے اندازہ ہوگیا کہ اس قوم کی عزت ِنفس کی لاش ‘شعور کے کفن میں لپٹ کر دفن ہو چکی ہے‘ لہٰذااب ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کیا جائے ‘ یہ مزاحمت نہیں کریںگے۔
مذکورہ بالا تو محض ایک حکایت ہے‘ اگر موجودہ ملکی صورت ِ حال پر بات کی جائے‘ تو شاید موجودہ حکومت بھی عوام کی قوت مزاحمت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کا جائزہ لیں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب عوام کو حکومت کے کسی نئے فرمان کا بوجھ نہ اٹھانا پڑرہا ہو۔ضروریات ِزندگی عام آدمی کی پہنچ سے باہر کردی گئیں ہیں‘مگر ہم من حیث القوم حکمرانوں سے ان کی کارکردگی پر سوال کرنے کو تیار نہیں۔گیس و بجلی سستی کرنے کے دعووں کے ساتھ حکومت سنبھالنے والے اب تک بجلی کے نرخوں میں 158فیصد‘ گیس کی قیمتوں میں300فیصد اور پیٹرول کی قیمتوں میں23فیصد اضافہ کرچکے ہیں‘ جبکہ مزید اضافے کی پیش گوئیاں بھی کی جارہی ہیں۔اشیائے خورو نوش میں اضافہ بھی ماہانہ بنیادوں پر جاری ہے۔ مہنگائی میں12فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ عوام کو مختلف اشیائے خورونوش کی قلت کے بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان بحرانوں کے دوران حکومتی وزیروں اور مشیروں کے سٹیج تھیٹرز جیسے تبصرے بھی سننے پڑتے ہیں۔ مہنگائی کی پسی عوام اپنے گزر بسر کے لیے مختلف طریقے استعمال کررہی ہے‘ مگر حکومت سے پوچھنے کو تیار نہیں کہ اس کے انتخابی دعوے کیا ہوئے؟
اس وقت آٹے کا بحران جاری ہے‘ اس بحران پر ہمیں چاہیے تھا کہ حکمرانوں سے ہر چوک‘ چوراہوں‘گلیوں بازاروں میں ان حکمرانوں سے پوچھا جاتا‘ کہ ایک زرعی ملک سے گندم کیسے ختم ہوگئی؟ مہنگے داموں گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو مہنگے داموں برآمد کیوں کی گئی؟40ہزار ٹن ماہانہ گندم سمگل کرکے عوام سے روٹی چھیننے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ جب گندم کی امدادی قیمتوں میں پانچ سال سے کوئی فرق نہیں پڑا تو آٹے کی قیمتیں آسمان پر کیوں پہنچ گئیں؟گڈ گورننس تو دُور کی بات گورننس تک نظر کیوں نہیں آرہی؟ حکومت کے سارے اندازے و تخمینے غلط کیوں ثابت ہوئے؟آٹے کا بحران ابھی جاری ہے اور ساتھ ہی چینی کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ‘پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چینی کی قیمت میں ریکارڈ 52 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جس کے نتیجے میں شوگر ملز مالکان نے اکتوبر2018ء سے دسمبر 2019ء تک اضافی 155 ارب روپے عوام سے بٹورے ۔گزشتہ 14 ماہ میں ریٹیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 53 روپے فی کلو سے 82 روپے فی کلو ہوگئی ہے‘مگر ہم حکومت سے یہ پوچھنے کو تیار ہی نہیں کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہورہا ہے ؟اس اضافہ سے ہونے والا منافع کس کی جیب میں جارہا ہے؟ چینی کی صنعت پر اصل قبضہ کس کا ہے؟ شوگر ملز کو جو 20ارب کی سبسڈی دی گئی‘ وہ شوگر ملیں کس کی تھیں؟اگر مہنگائی قابو نہیں کرسکتے ‘ اپنوں کو نوازنا بند نہیں کرسکتے تو بیٹھے کیوں ہوں؟‘ ہٹ کیوں نہیں جاتے ؟ تمہارے پاس تو ایک نعرہ رہ گیا تھا کہ ہم کرپٹ نہیں ‘ کرپشن کے خلاف جنگ کررہے ہیں ۔ بین الاقوامی فورم پر کہا گیا کہ موجودہ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور کرپشن ختم کرکے دم لیں گے۔وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے یہ دعوے اپنی جگہ بجا‘مگر عوام کو بھی تو ریلیف دیا جائے۔
دوسری طرف ہم کرتے کیا ہیں؟ ہم ریاست ِمدینہ کی طر ز کی ریاست بنانے کے دعویداروں سے سوال کرنے کی بجائے آٹے چینی کے بحران پر ان اشیاء کی خریداری کے لیے لائنیں لگا لیتے ہیں ‘ پھر آپس میں جھگڑتے ہیں کہ فلاں شخص لائن توڑ کر آگے بڑھ گیا ہے‘ فلاں شخص اشیاء بانٹنے والے کا رشتہ دار ہے‘ اس لیے اسے جلدی سامان مل گیا ہے ۔ پٹرول مہنگا ہو تو ہم مہینے کی آخری تاریخ کو رات 12بجے نئے نرخوں کا اطلاق ہونے سے پہلے لائنیں لگا لیتے ہیںاور پرانے نرخوں پر گاڑی یا موٹر سائیکل کا ٹینک بھروا کر سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب ہوگئے۔ہمیں ضروریات زندگی پوری کرنے کی تگ و دو میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ لائنیں لگا کر پرانے نرخوں پر خریداری کی ایسی عادت ڈال دی گئی ہے کہ اب کوئی بعید نہیں ہم ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس 300سے 1200ہونے پر پرانے نرخوں پر ایڈوانس میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے بھی لوگوں کو لائن میں کھڑے دیکھیں ‘کیونکہ من حیث القوم ہماری عزت ِنفس کی لاش ‘شعور کے کفن میں لپیٹ کر دفن کر دی گئی ہے۔
تبدیلی آسکتی ہے‘ نیا پاکستان بھی بن سکتا ہے ‘ مگر جس دن ہم خاموشی سے سرجھکا کر لائنوں میں کھڑے ہوجانے کی بجائے‘ حکمرانوں کا اُن کے دعووں پر احتساب کرنا شروع کردیں گے‘ جس دن ہم اپنے شعور سے کام لینا شروع کردیں گے ‘یقین کریں کہ اس دن تبدیلی بھی آجائے گی اور نیا پاکستان بھی بن جائے گا‘ورنہ بحران جوتوں کی طرح ہمارے سروں پر برستے رہیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں