قبل اس کے کہ اپوزیشن اور سوشل میڈیا کی سازش کے باعث پاکستان میں کورونا کا خوف بڑھتا اور عین ممکن تھا کہ قوم کسی موقع پر گھبرا جاتی کہ اچانک ہمارے ہردلعزیز وزیر اعظم نے عوام سے مخاطب ہوکر اس خوف کا سد باب کر دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جو سب سے اہم بات کی ‘جس نے قوم کو ایک بار پھر ان کے ماضی کے یادگار ''خطابات‘‘ کی یاد دلائی‘ وہ یہ تھی کہ ''آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی کم از کم میرا حوصلہ ضرور بڑھا‘ عزم جوان ہوا اور ارادہ مضبوط؛ اگرچہ ہمارے وزیر اعظم کبھی غلط نہیں کہتے اور ہمیں گھبرانے بھی نہیں دیتے ‘مگر اس بار جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے‘ اس میں محض چند نکات کی جانب اس کالم کے ذریعے ان کی توجہ کروانا چاہوں گا۔
ماضی میں جس طرح بحرانوں پر قابو پایا گیا‘ وہ اپنی ''مثال‘‘ آپ ہیں؛اگرچہ پانی سر سے گزرنے کے بعد ہی سہی‘ مگر ہمیں جناب وزیر اعظم کا دیدار نصیب ہوہی جاتا ہے ۔ اس دیدار کے بعد جب ان کی ٹیم کچھ ہلچل کرتی ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ شاید کوئی مسئلہ ہے۔ اب ‘جب کورونا حملہ آور ہوا تو یہ بے حس و حرکت تھے‘ اس لیے ہم یہی سمجھے کہ کچھ نہیں ہوا۔ ہم تو سندھ حکومت کی کورونا وائرس کے خلاف جنگ کو دکھاوا اور حکومت کے خلاف سازش قرار دیتے رہے اورجب پتا چلا کہ واقعی کورونا حملہ آور ہوچکا ہے تو ہم پھر بھی نہیں گھبرائے ۔اسی طرح جب سندھ حکومت کے کورونا کی صورت ِحال کو قابو کرنے کے حوالے سے 16اجلاس ہونے کے بعد آپ کی ٹیم نے پہلا اجلاس بلایا ‘تو ہم نے لوگوں کو بتانا شروع کردیا تھا کہ ہمارے کپتان اور ان کی قابل ترین ٹیم حرکت میں آچکی ہے‘اس لیے گھبرانا بالکل نہیں ہے ۔ اس وقت بھی کہ جب کورونا سے متاثرہ چین سے پاکستانی طلباء کی صدائیں بلند ہورہی تھیں کہ ہمیں واپس بلائو ‘مگر ہمارے وزیر خارجہ مختلف دلائل سے اور ان کے حامی علماء احادیث سے قائل کررہے تھے کہ جس علاقے میں وبا پھیلے ‘نہ تو وہاں سے کسی کو باہر نکلنے دینا چاہیے اور نہ کسی کو وہاں جانا چاہیے ‘ ہم مکمل طور پر وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے نہ تو خود گھبرائے اور نہ کسی کو گھبرانے دیا۔
اسی طرح جب چین کی حد تک تو آمدو رفت بند کرنے پر عمل کیا گیا ‘مگر ایران کے ساتھ تفتان باڈر پر معاملات مختلف طریقے سے ہینڈل کیے گئے‘ ہزاروں زائرین کو بغیر سکریننگ داخل ہونے دیا گیا تو اس دُہرے معیار پر بھی ہم نہ گھبرائے۔ایرانی غفلت سے زائرین پاکستان میں داخل ہوئے تو یہاں بھی ان کا استقبال کیا گیا اور '' مٹی‘‘ کی محبت میں کچھ آشفتہ سروں نے ان زائرین کو پاکستانی حدود میں بھی سکریننگ کے عمل سے گزرے بغیر ملک کے دیگر حصوں کی جانب روانگی کا پروانہ تھما دیا۔ نتیجہ آج سندھ پنجاب بلوچستان کے مختلف شہروں میں کورونا کے بڑھتے مریضوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے‘ اس سب کے باوجود یقین مانیں کہ ہم کسی بھی موقع پر نہیں گھبرائے۔
جیسا کہ اکثر فرمایا گیاکہ وفاقی حکومت اقدامات کررہی ہے‘ اس لیے ہم نہ گھبرائیں تو یقین مانیں کہ جب پتا چلا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ایک نوجوان بڑی آسانی سے اسلام آباد ایئرپورٹ سے بغیر کسی روک ٹوک اورسکریننگ کے نکل کر اندرون ملک سفر کرتے ہوئے کراچی جاپہنچا تو ہم نے پھر بھی حکومتی اقدامات پر یقین رکھا اور نہیں گھبرائے؛ حتیٰ کہ جب میڈیا سے پتا چلا کہ اٹلی سے آیا ہوا ایک خاندان بھی بغیر سکریننگ کے اسلام آباد ایئرپورٹ سے باہر آنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور راولپنڈی پہنچ گیا ہے تو بھی ہم نہیں گھبرائے ۔
یہاں تک کہ لاہور ایئرپورٹ سے سعودیہ سے آنے والے ایک نوجوان میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ‘بغیر سکریننگ کے ایئرپورٹ سے نکلنا اور سروسز ہسپتال پہنچنا‘ پھر حکومت کی جانب سے کورونا وائرس فوکل قرار دئیے گئے اس ہسپتال میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے کٹس کا نہ ہونا ‘ اس نوجوان کا بغیر ٹیسٹ کروائے اپنے آبائی علاقے اوکاڑہ کی جانب روانہ ہوجانا ‘ غرض یہ کہ ان سب میں سے کچھ بھی ہمیں گھبرانے پر مجبور نہیں کرسکا ؛اگرچہ اس موقع پر ہمارے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ اگر ایئرپورٹ جیسی حساس جگہ پر چیکنگ ا ور سکریننگ کی یہ صورت ِحال ہے تو آمدورفت کے باقی پوائنٹس کا تو اللہ ہی حافظ ہے‘ مگر ہم نے فوری اس خیال کو جھٹکا ‘تاکہ کہیں ہم گھبرا نہ جائیں؟؟
ابھی یہ ساری صورتِ حال جاری تھی کہ اچانک آپ کی جانب سے اطلاع ملی کہ وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب کرنے والے ہیں۔ بس ‘ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی‘ کیونکہ دیگر چاہنے والوں کے طرز ِعمل کو ہم اپنا چکے ہیں۔اب‘ ہمیں ملک میں انتظامی تباہی‘معاشی بدحالی‘ مہنگائی کا طوفان ‘ غرض یہ کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس لیے جیسے ہی دیدار عام کا اعلان کیا گیا‘ تو ہمیں یقین ہوگیا کہ اب کورونا وائرس کی خیر نہیں۔
خطاب میں فرمایا گیاکہ پہلا کیس 26فروری کو سامنے آیا تھا‘ جبکہ خطاب 17مارچ کو کیا گیا ‘اگر یہ کام پہلے ہی ہوجاتا تو یقین مانیں کہ کورونا وائرس بھی جکڑا جاتا اور اس کا پھیلائو بھی رک جاتا‘ مگر شاید کچھ تاخیر ہوگئی‘ یقینی طور پر اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی۔ ماضی قریب کے بحرانوں کی طرح ‘ اس وبا کے پھیلنے پر بھی اعلان کیا گیا کہ اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی نگرانی میں خود کررہا ہوں ۔ہمیں یقین ہے کہ جیسے آپ نے اور آپ کے قریب ''ترین‘‘ ساتھیوں نے چینی اور آٹے کے بحران پر قابو پایا تھا ‘یقینی طور پر اسی طرح کورونا وائرس کا خاتمہ جلد ممکن ہو جائے گا۔
بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے‘ کچھ ایسے سرپھرے ہیں ‘جو شخصیت کے سحر کو قبول نہیں کرتے‘ بلکہ آپ کے الفاظ اور آپ کی ٹیم کے اقدامات پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ کورونا فوکل ہسپتالوں میں تشخیص کی کٹس تک موجود نہیں ہیں‘آئسولیشن وارڈ ہسپتال کے وسط میں بنایا ہوا ہے‘ایرانی سرحد پر اقدامات نہ کیے جاسکے‘ کراچی بھجوائی جانے والی کٹس سرکاری کی بجائے نجی ہسپتالوں کو جان بوجھ کر بھجوائی گئیں اور تو اور گستاخی کرکے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ خطاب بغیر تیاری کے تھا۔
اگرچہ ہم ہدایت کے مطابق ‘بالکل نہیں گھبرائے ۔ کوئی بھی اعتراض کرے تو ہم یہی دلیل دیتے ہیں کہ سارے اعتراض اپنی جگہ مگر یہ دیکھو کہ کپتان کتنا ہینڈسم ہے‘ مگر اب صورت ِحال کافی خراب ہوتی جارہی ہے اور لوگ بھی سمجھنے لگ گئے ہیں‘ اس لیے درخواست ہے کہ اب صرف خطاب سے گزارا نہیں ہوگا‘ بلکہ عملی اقدامات سے اعتراض ختم کرنے ہوں گے‘ ورنہ آپ کے چاہنے والے بھی یہ کہنے پر مجبورہوجائیں گے کہ ''اجازت ہو تو تھوڑا سا گھبرا لیں؟‘‘۔