بیٹا مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ میرے پاس راشن موجود ہے‘ جس سے میرا گزارا ہوجائے گا۔ ہاں میرا ایک پڑوسی ہے ‘جو مزدور ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔اس کا کام بالکل ختم ہوکررہ گیا ہے۔ ابتدا میں تو ادھار وغیرہ سے کام چلا لیا ‘مگر کوئی کب تک ادھار دے گا؟ سب کو اپنی فکر لگی ہے۔ اب‘ اس کے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے‘ اگر ممکن ہو تو یہ رقم اسے دے دیں‘ کیونکہ حالات کب تک اس طرح رہتے ہیں؟ کچھ پتا نہیں اور حکمرانوں سے تو کوئی خیر کی توقع ہی نہیں۔مجھے اس 73سالہ بزرگ مالی شفیع نے حیران کردیا ‘جو نا فرمابرداراولاد کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورتھے اور اولاد کی پرورش میں رہ جانے والی خامی کا ذمہ دار خود کو ٹھہرا کر لوگوں کے گھروں کے باہر لگے پودوں کی تراش خراش کے ذریعے اس خامی کی کسک دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔مالی شفیع کے ساتھ میری یہ بات چیت اس وقت ہوئی ‘جب چھوٹی بہن نے مستحق لوگوں میں تقسیم کے لیے رقم دی تو اس رقم کا کچھ حصہ میں نے اس اللہ کے بندے کوبھی دینے کی کوشش کی ۔ میری یقین دہانی کے باوجود کہ ان کے پڑوسی کے گھر راشن کا مستقل انتظام ہوجائے گا‘ شفیع رقم لینے کو تیار نہیں تھا اور بضد تھا کہ اس کے پاس راشن موجود ہے‘ اس لیے اسے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ اس بزرگ کے ساتھ جاکر اس کے پڑوسی سے ملاقات کی اور اس کی تمام تفصیلات الخدمت فائونڈیشن کو دے دیں۔ جب شفیع وارث کی تسلی ہوگئی تو اس کے چہرے پر طمانیت آگئی‘ جیسے اس نے اپنے پڑوسی کی نہیں‘ بلکہ اپنی کوئی بڑی مشکل حل کرلی ہو۔ یہ معاملہ ختم ہوا تو میں سوچنے لگا کہ ایک جانب تو وہ گمنام شخص ہے‘ جو الخدمت کے سربراہ کو لوگوں کی امداد کے لیے ایک کروڑ روپے دیتا ہے اور جب الخدمت فائونڈیشن کا سربراہ کہتا ہے کہ اگر آپ کی اجازت ہوتو اس رقم کے کچھ حصے سے طبی سامان بھی خرید لیا جائے‘ تو وہ شخص طبی سامان کے لیے ایک کروڑ روپے کی رقم مزید دے دیتا ہے ۔ ایک یہ مالی شفیع جیسے بزرگ ہیں جن کا اپنے رب پر توکل پرندوں کی مانند ہے کہ دانا گھونسلے میں موجود ہے‘ اس لیے مزید کی ہوس نہیں۔ یہ دو انسان اور ان کے رویے ایک جانب تو معاشرہ کا کفارہ ادا کرکے رب کو راضی کرلیتے ہیں اور دوسری جانب بڑی سے بڑی مشکل سے نکلنے میں امید کی کرن ثابت ہوتے ہیں۔
موجودہ غیر یقینی صورت ِ حال کے حوالے سے مالی شفیع کی تشویش اوراس صورتِ حال کے طویل ہونے کی صورت میں حکمرانوں سے خیر کی توقع نہ رکھنا اصل میں ایک ردعمل ہے ‘جو کورونا جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقداما ت پر عوام میں پایا جاتا ہے۔اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ پوری دنیا اس وقت کورونا کیخلاف حالت جنگ میں ہے۔ اس وبا کی ہلاکت خیزی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے‘ مگر یہ پہلی بار نہیں کہ دنیا اور اس کی معیشت کو کسی وباء کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔1350ء میں طاعون سے 7کروڑ افرادکی موت‘1855ء میں طاعون سے ڈیڑھ کروڑ افراد‘1918ء میں انفلوئنزا نے 5کروڑ اور چیچک سے 30کروڑ افراد کی اموات کے سانحات بھی تاریخ میں موجود ہیں۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جن ممالک نے ایک قوم کی طرح ان امراض کا مقابلہ کیا وہاں جانی و معاشی نقصان کم دیکھنے کو ملتا ہے‘ مگر جہاں نظم و ضبط کی کمی رہی وہاں ناقابل تلافی نقصانات ہوئے۔اب ‘ اگر چین کو ہی دیکھ لیا جائے تو کورونا کی طرح چار بڑے وائرسز طاعون‘ایشیائی فلو‘سارس اور برڈ فلو کی وبائوں نے بھی چین سے ہی جنم لیا تھا اور اس بار بھی ماضی کی طرح چین نے اس وبا کو شکست دیدی ہے ۔اس لحاظ سے چین دنیا کے لیے ایک کیس سٹڈی ہے ۔
جب کورونا نے چین میں تباہی پھیلانی شروع کی تو چینی عوام نے ایک بہترین قوم ہونے کا ثبوت دیا۔نظم و ضبط کی بہترین مثال قائم کردی۔حکومت کی طرف سے جو احکامات دیے گئے ان پر فوری عمل کیا گیا۔ ہنگامی بنیادوں پر خصوصی ہسپتال قائم کردئے گئے‘طبی ماہرین کی بڑی تعداد رضاکارانہ خدمات انجام دینے کیلئے پہنچ گئی۔ حکومت نے لاک ڈائون کیا تو متاثرہ شہروں میں سڑکیں ویران ہوگئیں اور ہاں‘ اس وقت جب چین کورونا سے لڑرہا تھا تو دیگر ممالک خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے ‘ یہاں تک ہوا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے تو چین کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہ کیا ۔انہیں تب ہوش آیا‘ جب کورونا وائرس برطانیہ‘ اٹلی ‘سپین‘ فرانس اور امریکا پہنچا اور ان ممالک کی معیشت‘تجارت اور دفاعی معاملات منجمد ہونے شروع ہوئے ‘ مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب ‘کورونا انٹارکٹکا کے علاوہ 6براعظموں میں پھیل چکا ۔یہ وائرس 97ہزار جانیں لینے کے ساتھ اب تک دنیا کو 10کھرب ڈالر کا نقصان پہنچا چکا ہے ۔دنیا 90سال میں پہلی بار ایسی شدید کساد بازاری کے دور میں ہے اور دنیا بھرمیں نصف ارب لوگ غربت کا شکارہوسکتے ہیں ۔بے روزگاری کا عفریت امریکا میں 66لاکھ اور اور کینیڈا میں 10لاکھ افراد کو نگل چکا۔غرض یہ کہ کورونا نے زمینی خدائوں کو بھی خدا یاد کرادیا ہے۔ان میں سے اب کوئی آسمانی امداد کا منتظر ہے تو کوئی یوم دعا کا کہہ رہا ہے۔بقول داغؔع
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
یہ تو تھا ترقی یافتہ ممالک کا حال اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نہ پہلے ہوش میں آئے نہ اب آرہے ہیں۔ ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرپائے کہ کس ملک کے ساتھ بارڈر کو کھولنا ہے اور کس کے ساتھ بند کرنا ہے‘ نماز انفرادی پڑھنی ہے یا جماعت کے ساتھ‘لاک ڈائون جزوی کرنا ہے یا مستقل۔ درآمد کی ایسی لت لگی ہے کہ فتوے بھی جامعہ الازھر سے منگوائے جارہے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کو پردے میں رکھا ہوا ہے۔ پانچ کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کے ساتھ آنے والے نوکری تو ایک بھی نہ دے سکے؛ البتہ ایک کروڑ افراد کے بے روزگار ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے ‘جس سے تنخواہ دار طبقہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے محروم ہوجائے گا۔ لاکھوں اوور سیز پاکستانیوں کے بے روزگار ہوکر وطن واپس آنے کا المیہ الگ جنم لے رہا ہے۔بڑی اور درمیانی صنعتوں کی تباہی اور جی ڈی پی دو سے اڑھائی فیصد رہنے کے اشارے دیے جارہے ہیں۔ دنیا سے کورونا کے خاتمے کیلئے فنڈزمانگے جارہے ہیں اوربلدیاتی نظام کو بحال کرکے ہزاروں بلدیاتی نمائندوں سے کام لینے کی بجائے ‘ ٹائیگر فورس بنا دی گئی ہے۔ ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس فراہم کرنے کی بجائے ٹائیگر فورس کی وردی پر ایک خبر کے مطابق‘ 45کروڑ روپے اڑا دیے گئے ہیں۔احساس پروگرام کے تحت اربوں روپے تقسیم کرنے کے لیے ایسے ''فرشتہ صفت‘‘ لوگ ذمہ دار بنائے گئے‘ جن کی جیبوں سے لاکھوں روپے چوری ہوجاتے ہیں۔ جب دنیا کورونا سے لڑ رہی ہے ‘ ہم آٹا وچینی چوروں سے لڑرہے ہیں‘پھر کرپٹ افراد کی سزا کے طور پر وزارت تبدیل کرنا یا نکال کر پھر کابینہ میں رکھنا بھی ہمارا ہی شیوہ ہے۔یہ بھی کریڈٹ ہمیں ہی جاتا ہے کہ کورونا سے غریب متاثر ہو تو قرنطینہ جائے گا اور امیر متاثر ہو تو گھر رہے گا۔ اسی رعایت کی دین ہے کہ لاہور میں 80فیصد کورونا کے کیسز پوش علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
کسی بھی حکومت کی صلاحیتیں بحران میں سامنے آتی ہیں اور کئی بحران بھی ''حکومتی صلاحیتوں‘‘ کے مرہون ِمنت ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومت کودرپیش صورت ِ حال کا ادراک ہے یا نہیں؟ رانا گنوری توکہتے ہیں۔ ؎
ہر شخص یہاں صاحب ادراک نہیں ہے
ہر شخص کو تم صاحب ادراک نہ کہنا