"FBC" (space) message & send to 7575

ریاضی کے استاد سے ’’شدت پسند‘‘ تک کا سفر

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوج فتح کے نشان بناتے ہوئے ایک 32سالہ نوجوان کی لا ش کو سڑکوں پر گھسیٹ رہی تھی۔ اس نوجوان کے حوالے سے بھارتی میڈیا بھی ابتدامیں بالکل خامو ش رہا مگر جب بی جے پی کے ایک رہنما اور مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے ایک آفیسر نے ٹوئٹس کے ذریعے بتایا کہ انتہائی مطلوب ''شدت پسند ‘‘ ریاض نائیکو کو مقابلے میں مار دیا گیا ہے تو اچانک ہی بھارت میں جشن شروع ہوگیا۔ یہ نوجوان ریاض نائیکو کون تھا؟ کس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا؟اسے کس نے ''شدت پسند‘‘ بنایا ؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے ہم ریاض نائیکو کے گائوں سے بات شروع کرتے ہیں۔
ریاض نائیکو نے 1985ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کی تحصیل اوانتی پورہ کے علاقے بیگ پورہ میں ایک کسان اسد اللہ نائیکو کے گھر جنم لیا۔اس نے ابتدائی تعلیم بیگ پورہ اور ہائر سکینڈری تعلیم نور پورہ کے سرکاری سکولوں سے مکمل کی۔ ریاض نائیکو زمانہ طالب علمی سے ہی انتہائی ذہین طلبا میں شمار ہوتا تھااور انجینئر بننا چاہتا تھا‘مگر گھریلو حالات نے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ دوران تعلیم سکول میں ہمیشہ پوزیشن حاصل کرتا رہا اور پلوامہ ڈگری کالج سے گریجویشن میں بھی ٹاپ کیا۔ ریاضی‘ ریاض نائیکو کا پسندیدہ مضمون تھا۔ گریجوایشن کے بعد جب حالات نے تعلیمی سلسلہ بحال رکھنے کی اجازت نہ دی تو پلوامہ کے ہی ایک سکول میں اس نوجوان نے ریاضی کے استاد کے طور پر پڑھانا شروع کردیا۔نومبر 2009ء میں اس نے مزید تعلیم کے لیے بیرون شہر جانے کی تیاری شروع کردی۔ اسی دوران 2010ء میں جب بھارتی فوج کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا تو ریاض نائیکو کا ضلع پلوامہ بھی اس میں شامل تھا ۔اسی ہنگامہ آرائی کے دوران سری نگر میں جب ایک بچے طفیل کو بھارتی فوج نے گولی مار کر شہید کردیا تو مقبوضہ کشمیر میں جاری احتجاج میں مزیدشدت آگئی۔ بچے کی لاش دیکھ کر ریاض نائیکو بھی خود کو نہ روک سکا اور بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف احتجاج میں شامل ہوا اور پھر جب کشمیری نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں تو وہ بھی گرفتار ہوگیا۔ ریاض نائیکو کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا جہاں دو سال تک دورانِ حراست بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے اس استاد پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا رہا۔جب رہا کیا گیا تو ریاض نائیکو بیگ پورہ اپنے گھر واپس آیا اور6اپریل 2012ء کو اپنا سامان لے کر خاموشی سے گھر چھوڑ کر چلا گیا ۔ اس کے گھر والے یہ سمجھے کے اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا ہے‘ مگر ریاض نائیکو بھارتی فوج کے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھ اور سہہ چکا تھا سو اس نے کشمیری نوجوانوں کی آزادی کی مسلح تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا۔اس طرح مقبوضہ کشمیر کے ایک ذہین طالبعلم کو بھارتی فوج نے اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھا کر ''شدت پسند ‘‘ بنا دیا۔
ریاض نائیکو جدید ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتا تھا اور کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے اس کا استعمال بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرتا تھا ۔ 2014ء میں جب برہان وانی شہید نے کمانڈ سنبھالی تو ریاض نائیکو منظر عام پر آئے بغیر سرگرم رہا ۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی سیاسی شخصیات سے رابطوں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی صحافیوں سے روابط کے ساتھ ساتھ ٹویٹر اور فیس بک کے استعمال کے ذریعے بھارتی سرکار کو اس نے انتہائی ٹف ٹائم دیا۔اس کے سوشل میڈیا اکائونٹس بھارتی ادارے شک پڑنے پر بند کردیتے تھے۔زبیر الاسلام اور بن قاسم کے ناموں سے وہ بین الاقوامی میڈیا میں پہچانا جاتا تھا ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ریاض نائیکو نے خود سامنے آنے کے بجائے سبزار احمد بٹ کو تحریک کی کمانڈ سونپی اور خود ایک بار پھر خاموشی سے بین الاقوامی رابطوں میں مصروف رہا۔ 2016ء میں سبزار احمد بٹ کی شہادت کے بعد ریاض نائیکو نے ذاکر موسیٰ کو کمانڈ سنبھالنے کا کہا مگر ذاکر موسیٰ نے کمانڈ سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی انصارالغزوۂ ہند نامی تنظیم بنا کر علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کے بعد ریاض نائیکو نے خود کشمیری نوجوانوں کی کمانڈ سنبھال لی اور بھارتی فوج کیلئے خوف کی علامت بن گیا۔ ریاض نائیکو کسی پر اعتبار نہیں کرتا تھا‘وہ کیا کرنے والا ہے اس کا علم صرف اسی کو ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ چند ماہ میں تحریک کے دو بڑے کمانڈروں کی شہادت کے بعد بھارتی فوج اور ادارے9سال تک ریاض نائیکو کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ۔وہ 2016ء میں شوپیاں میں ایک ساتھی کے جنازے کی ویڈیو میں کھل کر پہلی بار سامنے آیا اور اس نے جنازے میں فائرنگ کے ذریعے شہید کوخراج عقیدت پیش کرنے کی روایت ڈالی۔2018ء میں اس کے والد کو چاول کے کھیت میں کام کرتے ہوئے بھارتی فوج نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کیا تو ردعمل میں ریاض نائیکو نے بھارتی پولیس کے اعلیٰ افسران کے والد اور بھائیوں سمیت 11رشتہ داروں کو اغوا کرکے بھارتی سرکار سمیت سب کو حیران کردیا۔بھارتی حکومت نے شکست تسلیم کی اور اس وقت کے ڈائریکٹرجنرل پولیس ایس پی وید کے حکم پر ریاض نائیکو کے والد کو رہا کردیا گیا ‘جس کے جواب میں ریاض نائیکو نے بھی پولیس افسران کے رشتہ دار رہا کردیے۔ اس موقع پر بن قاسم نامی ایک ٹوئٹر اکائونٹ سے ''ویل ڈن فریڈم فائٹرز‘‘ کا پیغام جاری ہوا جس کے متعلق بھارتی اداروں نے دعویٰ کیا کہ یہ اکائونٹ ریاض نائیکو استعمال کررہا ہے اور اسے بند کردیا گیا۔
وہ بھارتی فوج کے لیے جنوبی کشمیر کے علاقوں ڈوگری پورہ‘بربانڈہ‘بانڈی پورہ‘لتر‘چکورہ‘چندگام اور رینزی پورہ میں9سال سے چھلاوا بنا ہوا تھا۔بالآخر چند روز قبل ریاض نائیکو کو بھارتی فوج نے اس کے آبائی علاقے میں گھیر کر آٹھ گھنٹے کے طویل معرکہ کے بعد شہید کردیا۔ اس دوران اس کے دو قریبی ساتھی بھارتی فوج کا گھیرا توڑ کر فرار ہوگئے۔بھارتی فوج کو جان لینا چاہیے کہ تحریک آزادی کی نہ تو یہ پہلی شہادت ہے اور نہ آخری۔ اگر ذہین طلباء کو ''شدت پسند‘‘ بنانے کا سلسلہ بھارتی فوج نے بند نہ کیا تو برہان وانی‘ذاکر موسیٰ اور ریاض نائیکو جنم لیتے رہیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں