"FBC" (space) message & send to 7575

کورونا کی آڑ میں بھارتی استعماری ایجنڈا

یوں تو فسطائیت کا تذکرہ ہو تو ذہن میں ہٹلر اور مسولینی کی تصاویر گھومنے لگ جاتی ہیں‘ مگر امریکی سیاستدان و سفارتکار میلین البرائٹ اپنی کتاب(Fascism: A Warning)میں لکھتی ہیں کہ ''جمہوری اور فسطائی حکومتوں میں بہت باریک فرق ہوتا ہے اور ان کا طاقت کا حصول کا طریقہ کا ر بھی قریباً ایک ہی ہوتا ہے؛ البتہ طاقت حاصل کرلینے کے بعد ان کا برتائو یکسر تبدیل ہوجاتا ہے‘ فسطائی حکومت کا قیام کسی ایک برے واقعہ یا بحران کے نتیجے میں فوری طور پر بھی عمل میں آسکتا ہے‘‘۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ فسطائیت کبھی بھی کسی ایک بغاوت کے نتیجے میں اپنی حکومت قائم نہیں کرتی ‘بلکہ آہستہ آہستہ مختلف مواقعوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرکے اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے اور جب تک لوگ اس سے آگاہ ہوتے ہیں‘ تو یہ اس قدر مضبوط ہوچکی ہوتی ہے کہ اس کو قابو کرنا بظاہر ناممکن ہوجاتا ہے۔بنیتو مسولینی کا یہ قول بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ''طاقت کو فروغ دینے کا عمل ایک زندہ مرغی کے پر نوچنے جیسا ہے‘آہستہ آہستہ اور خاموشی سے اپنی طاقت میں اضافہ کیے جائو‘‘۔
آج دنیا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی شکل میں ایک اور ہٹلر اور مسولینی کو دیکھ رہی ہے ‘جو عالمی قوانین کی پروا کیے بغیر اپنے فسطائی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے‘ جو کورونا کے خلاف جنگ لڑنے کی بجائے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جنگ کرنے حتی المقدور کوششیں کررہا اور کوئی پڑوسی ملک ایسا نہیں‘ جس سے اس کا سرحدی تنازع نہ چل رہا ہو۔ ایسے وقت میں جب دنیا کورونا کیخلاف جنگ میں مصروف ہے اور بھارت میں بھی اس وبا نے تباہی پھیلا رکھی ہے‘مودی سرکار کورونا وائرس سے نمٹنے کی بجائے کالونیل ازم کے تحت اپنے مکروہ وعزائم کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔اس کا آغازگزشتہ سال سے بھرپور انداز میں شروع ہوا جب 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر پر آئینی شب خون مارنے کے بعد مودی سرکار نے اسے آسان ہدف سمجھ لیا تھا‘ مگر دس ماہ کے دوران کشمیریوں نے خود کو ایسا کانٹا ثابت کردیا ہے‘ جو مودی سرکار سے نہ تو اگلا جارہا ہے اور نہ نگلا۔ بھارتی فوج کی ننگی جارحیت‘ظلم و جبر کے باوجود کشمیر ہمت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ لکھ رہے ۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران سینکڑوں کشمیر شہید ہوچکے ہیں ‘مگر احتجاج ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آرہا۔ دنیا بھر میں کشمیریوں کیلئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ دوسری طرف بھارت نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کیلئے حریت کانفرنس ساتھ بھارت نواز کشمیری رہنمائوں کو بھی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ‘مگر اس کے باوجود تحریک آزادی کو کچلنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اب‘ بھارت کی جانب سے انتہائی مکروہ سازش پر عمل کیا جارہا ہے‘ جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بھارتیوں کو زمین خریدنے کا اور آباد ہونے کی قانونی و آئینی حق دیدیا گیاہے ‘جبکہ کشمیر میں قتل و غارت گری میں ملوث فوجی اہلکاروں اور 15سال سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں رہائش رکھنے والے ہندوئوں کو بھی مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس سازش کے تانے بانے بن کر بھارت مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے فلسطین میں کالونیل ماڈل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتا ہے ۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بجائے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیرکو ہتھیانے کی سازشیں کرنے کے ساتھ ساتھ مودی سرکار اندرون ملک بھی اقلیتوں کو کچلنے اور اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والی ریاستوں کیخلاف بھی فوجی قوت استعمال کررہی ہے‘ جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ گئی ہیں۔ان سات ریاستوں میں آسام‘ میگھالیہ‘ اورنچل پردیش‘منی پور‘ میزورام‘ناگا لینڈ اور تری پور شامل ہیں‘ اور انہیں بھارت میں ''سیون سسٹر سٹیٹس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں حقوق نہ ملنے کی وجہ سے علیحدگی کی تحریکیں سرگرم ہیں۔ ارونچل میں بوڈو سکیورٹی فورسز‘ناگا لینڈ میں ناگا نیشنل سکیورٹی کونسل ‘آسام میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ‘منی پور کی پیپلز لبریشن آرمی‘میزرام کی ایم این ایف اورتری پورہ کی نیشنل لبریشن فرنٹ شامل ہیں ‘جبکہ تری پورہ ٹائیگر فورس‘ٹی این وی‘ جھاڑکھنڈ مکتی مورچہ الگ سے مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔بھارت نے ان ریاستوں کو قابو میں رکھنے کیلئے بھی اپنے سکیورٹی اداروں کو لاقانونیت کا بازار گرم رکھنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
بھارتی کی جنونی مودی سرکار بین الاقوامی سرحدوں پر بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جنگ کے حالات پیدا کررہی ہے۔ پاکستان اور چین کے بعد اب بھارت کے بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ روہنگیا اور نیپال کے ساتھ تنازعات میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ 140ایکڑ دریائی جزیرے اور چٹاگانگ ہل ٹریک کے تنازعات کے ساتھ دریائی پانی کے تنازعات بھی جاری ہیں ‘ اسی طرح بھوٹان جیسا چھوٹا ملک جس کے خارجی و داخلی معاملات بھی بھارتی گرفت میں رہتے ہیں۔ اب‘ چین سے تعلقات بڑھاتا نظر آرہا ہے‘ جس کی وجہ سے بھارت نے ایک تسلسل کے ساتھ بھوٹان پر دہشت گردوں کو تربیت دینے کے الزامات لگانے شروع کردئیے ہیں‘ پھر نیپال کے ساتھ بھارتی کشیدگی میں حالیہ دنوں میں بڑھتے ہوئے اضافے نے بھی مودی سرکار کی فسطائی ذہنیت کا پردہ چاک کیاہے۔ابھی یہ مسئلہ تھما نہ تھا کہ اب بھارت نے ایسے موقع پر جب دنیا کورونا وائرس کے مسئلے سے نمٹ رہی ہے‘ ایک بار پھر متنازع سرحدی علاقے میں اترکھنڈ سے لیولیکھ کو ملانے والی نئی سڑک کا افتتاح کردیا۔ لیولیکھ کا علاقہ بھارت اور نیپال کے درمیان ایک متنازع ہے۔اس سڑک کی تعمیر سے نیپال میں بھارت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ بھارت نے اپنے فسطائی اقدامات پر پیدا ہونیوالے ردعمل کو پڑوسیوں پر ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نیپال میں بھارت مخالف مظاہرو کی ذمہ داری چین پر ڈال دی ہے‘مگر بھارت شاید یہ بھول رہا ہے کہ دنیا کی آنکھوں میں اس قدر دھول جھونکنا ممکن نہیں ۔
اب‘ جبکہ پاکستان‘چین‘بنگلہ دیش‘ نیپال سے سرحدی تنازعات کسی بھی وقت عالمی امن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے‘ دنیا بھی بھارت کو عالمی امن کیلئے خطرہ سمجھ رہی ہے۔ ماضی میں امریکا و یورپی ممالک بھارت کو ایک بڑی منڈی کا درجہ دیتے ہوئے اس کے استعماری ہتھکنڈوں سے ہمیشہ صرف نظر کرتے آئے ہیں ‘مگراب صورت ِ حال یکسر بدل چکی ہے ‘لہٰذا وہ سب بھارت کو متنبہ کرچکے ہیں۔
تاہم عالمی برادری کو مودی سرکار کی بڑھتی جنگی جنونیت کو فوراً روکنا ہوگا‘ ورنہ یہ خطہ کسی بھی وقت جنگ کی آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں